تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-08-2025

خدمت اور سیاست

خدمت کے میدان میں ایک بار پھر 'الخدمت‘ پیش پیش ہے۔ اس کے بے لوث کارکن دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دو دن پہلے ایک نے اپنا نام شہدا کی فہرست میں لکھوایا ہے۔ جان کے ساتھ مال بھی نچھاور کر رہے ہیں۔ ضرورت مندوں اور مظلوموں کی مدد کے لیے ہر لمحے کمر بستہ ہیں۔ بونیر سے غزہ تک ان کے نقوشِ پا دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ قوم کیا اس خدمت کے اعتراف میں جماعت اسلامی کو ووٹ دینے پر تیار ہو جا ئے گی؟
الخدمت سے وابستہ بہت سے افراد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ عام زندگی میں بھی نیک لوگ ہیں۔ نیکی اور خدمت‘ دونوں ان کی ذات میں جمع ہیں۔ ان کی نیکی اور خدمت کو سراہا جا ئے گا مگر ووٹ نہیں ملیں گے۔ ان کے مقابلے میں جنہیں ووٹ دیے جاتے ہیں ان کے نامہ اعمال میں کوئی سماجی خدمت نہیں لکھی۔ پیپلز پارٹی‘مسلم لیگ آپ کو بونیر یا سوات میں دکھائی نہیں دیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں۔ 2005ء کے زلزلے میں بھی یہ لوگ نظر نہیں آئے۔ شہباز شریف صاحب یا مراد علی شاہ صاحب متحرک ہیں تو اپنے عہدے کی وجہ سے۔ سوال یہ ہے کہ ان جماعتوں کے کارکن کہاں ہیں؟ وہ کسی مشکل وقت میں عوام کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ پھر بھی لوگ انہیں ووٹ کیوں دیتے ہیں؟
کہا جا تا ہے عمران خان صاحب کی پذیرائی میں شوکت خانم ہسپتال کا ہاتھ ہے۔ الخدمت نے بھی بے شمار ہسپتال بنائے ہیں۔ یتیم بچوں کی کفالت کے لیے شاندار ادارے قائم کیے ہیں۔ اس کام کے حجم سامنے رکھیں تو شوکت خانم کے ساتھ اس کا کوئی موازنہ نہیں۔ پھر یہ خدمت کا تسلسل ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے قیام کے ساتھ ہی عوامی فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا۔ گویا یہ کم وبیش ستر‘ اسّی برس کا قصہ ہے۔ اگر عمران خان کی عوامی مقبولیت میں فلاحی کام کا ہاتھ ہے تو اس دستِ ہنر کی کارفرمائی یہاں کیوں دکھائی نہیں دی؟ لوگ خدمت کا اعتراف کرنے کے باوجود ان لوگوں کی سیاسی قیادت کو قبول کر نے پر کیوں آمادہ نہیں؟ ایک ہی عمل دو مختلف مقامات پر ایک جیسے نتائج کیوں نہیں دے رہا؟
خدمت کی ایک اعلیٰ مثال عبد الستار ایدھی بھی تھے۔ کون سا پاکستانی ہے جو ان کی خدمات کا معترف نہ ہو۔ اس کے باوصف کوئی انہیں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوا۔ میں اس نوعیت کی اور مثالیں بھی گنوا سکتا ہوں جہاں خدمت سیاسی تائید میں نہیں ڈھلی۔ یہی نہیں‘ بہت سے لوگ ہیں جن کے بارے میں عام آدمی یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ 'وہ ایک اچھا آدمی ہے‘۔ ووٹ لیکن وہ اچھے آدمی کو نہیں دیتا۔ لوگ اچھے آدمی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟
عمران خان صاحب کے بارے میں بھی میری رائے یہی ہے کہ ان کی مقبولیت میں شوکت خاتم ہسپتال کا کوئی کردار نہیں۔ جو انہیں پسند کرتے ہیں وہ ان کی ٹوپی میں سرخاب کے پَر لگاتے چلے جائیں گے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک پَر ہے۔ ان کی سماجی خدمت نے انہیں سیاست میں مقبول نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو جماعت اسلامی سب سے پسندیدہ جماعت ہوتی۔ عمران خان کی مقبولت کے اسباب کچھ اور ہیں‘ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں۔ یہاں مجھے صرف یہ عر ض کرنا ہے کہ خدمت کسی سیاسی عصبیت میں نہیں ڈھل سکتی۔
آج ایک اداس کر دینے والا واقعہ یہ کہ الخدمت کی خدمات کا سب اعتراف کریں گے مگر اس کے صلے میں جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی یہ خدمت ان شاء اللہ عند اللہ ماجور ہو گی۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ وہ یہ خدمت اللہ ہی کے لیے کرتے ہیں۔ تاہم انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اگر وہ سماج میں خیر کا کوئی کام کر تا ہے تو لوگ اس کا اعتراف کریں اور یہ ا عتراف زبانی نہ ہو۔ اس خواہش میں کچھ قابلِ اعتراض نہیں۔ تاہم اس کا نقصان یہ ہے کہ آدمی کی توقع جب پوری نہیں ہو تی تو وہ مایوس ہوتا ہے اور یہ مایوسی اسے انتہا پسند بھی بنا دیتی ہے۔ جماعت اسلامی پر ایک ایسا دور گزر چکا جب بعض مایوس نوجوانوں نے اپنی امیدیں جہادی گروہوں سے وابستہ کر لی تھیں۔ اس سے کتنے افراد کی زندگیاں برباد ہوئیں اس کی داستان اس قابل ہے کہ لکھی جائے تاکہ اس قافلے کے لوگ عبرت حاصل کریں۔
سیاست کے مطالبات مختلف ہیں۔ یہ ایک سائنس ہے جس کو سمجھنا چاہیے۔ سیاسی عصبیت کیا ہوتی ہے؟ یہ کیسے جنم لیتی ہے؟ مولانا مودودی ایک سائنسی دماغ رکھتے تھے۔ وہ خلا میں تیر چلانے کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے جب حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی تحریک اٹھائی تو اس سوال کا جواب تلاش کیا کہ اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟ علی گڑھ کالج کی ایک تقریب میں انہوں نے ایک تقریر کی جس میں اس کی مکمل حکمتِ عملی بیان کی۔ یہ اسی نام سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوتی رہی۔ مولانا نے جو جواب تلاش کیا وہ کتنا درست تھا‘ یہ اس وقت میرا موضوع نہیں لیکن اس سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ سنجیدہ لوگ جب کوئی اہداف متعین کرتے ہیں تو حکمتِ عملی بناتے وقت کامیابی کے امکانات کو سامنے رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی اگر یہ سمجھتی کہ خدمت کی حکمتِ عملی سے سیاسی عصبیت پیدا ہو جائے گی تو اسے اس حکمتِ عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
الخدمت کی خدمات کا اعتراف وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بھی کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی ظاہر وباہر حقیقت ہے کہ اسے جھٹلانا آسان نہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ جو لوگ بغیر حکومت کے لوگوں کی اتنی خدمت کر سکتے ہیں‘ اگر حکومتی وسائل بھی ان کے ہاتھ میں ہوں تو وہ سماج کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوں گے۔ اس کا عملی ثبوت جماعت اسلامی کراچی میں دے چکی۔ دوبار شہر کا میئر جماعت کا تھا۔ دونوں ادوار شہر کے لیے مثالی رہے۔ دیانت کا اعتراف ہوا اور خدمت کا بھی۔ اس کے باوجود اگر جماعت اسلامی ایک بڑی سیاسی قوت نہیں بن سکی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست منطق کے عام اصولوں کے تابع نہیں ہے۔ اس کی حرکیات مختلف ہیں اور سیاست میں آنے والوں کو اسے سمجھنا چاہیے۔
میرا یہ مقام نہیں کہ جماعت اسلامی کو کوئی مشورہ دوں۔ وہ ماشاء اللہ اس باب میں خودکفیل ہیں۔ میں صرف یہ خواہش رکھتا ہوں کہ جماعت کے کارکن اس دنیا میں لوگوں سے اگر کوئی سیاسی امید وابستہ کیے ہوئے ہیں تو وہ پہلے سے خبردار ہو جائیں تاکہ وقت پڑنے پر انہیں مایوسی نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خدمت کے اعتراف میں لوگ انہیں عطیات دیں گے‘ جیسے ہمیشہ قربانی کی کھالیں دیتے آئے ہیں۔ وہ ان کی دیانت پر اب بھی سب سے زیادہ بھروسہ کر یں گے۔ ووٹ لیکن نہیں ملے گا۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے یقینا خدمت اور سیاست کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی ہو گی۔ اگر کی ہے تو اس کی قیادت کو بھی شرحِ صدر ہو گا کہ اس کی یہ خدمت ان شاء اللہ ان کے لیے آخرت میں مغفرت کا سبب بنے گی۔ ایک مسلمان کے لیے اصل کامیابی یہی ہے۔ اقتدار کی سیاست دنیا کے لیے ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کے 'مجتہد فی المذہب‘ خرم مراد مرحوم نے اسے واضح کیا تھا کہ انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں‘ توسیعِ دعوت کے لیے نہیں۔ اس بات کو ان الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدمت آخرت کے لیے ہوتی ہے‘ سیاست کے لیے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved