پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسینؓ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’’قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں‘‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسینؓ کی ذات سے عشق‘ اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسینؓ کے سرکا تاج رہے گی۔ کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بے وفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی‘ ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا: ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔ کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ‘ بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں‘ مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابو حنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا: ’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘ (زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔) اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا: ’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔ اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔ اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے‘ حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسینؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابو حنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔ برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا‘ جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک‘ ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری‘ مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔ پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُورخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے \"Sepratism among Indian Muslims\" لکھی وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے‘ سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری‘ زنا‘ جھوٹ‘ غیبت‘ قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔ مسلمان حکمرانوں کی یہ روح مزید اڑتالیس سال قائم رہی اور پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں‘ چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے‘ لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔ 1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد کو توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا‘ قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ(Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: \"The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed\". آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن شرانگیز ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ‘ اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔ یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے‘ دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے‘ لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے‘ آپ انہیں بدل کر دکھائیں‘ ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد‘ جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved