رواں برس مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد جہاں ایک طرف امریکہ اور بھارت کے مابین دوستی اور تعاون کے گہرے رشتے اچانک باہمی رنجش‘ تلخی اور الزام تراشی میں تبدیل ہو گئے ہیں وہیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں غیرمتوقع طور پر ازسر نو جان پڑ گئی۔ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا مظاہرہ‘ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دو ماہ کے دوران دو دفعہ امریکہ کا دورہ‘ بھارت کے 50 فیصد کے مقابلے میں پاکستان کیلئے 19فیصد ٹیرف اور پاکستان کے ساتھ کان کنی اور تیل کی تلاش کے معاہدات کے احکامات کی صورت میں ہو چکا ہے۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا کریڈٹ نریندر مودی لیتے ہیں‘ مگر بھارت کو اپنا اتحادی بنانے کی امریکی خواہش بہت پرانی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں جب کوریا کی جنگ اور چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے سرد جنگ کا فوکس یورپ سے ایشیا میں منتقل ہونے لگا تو امریکہ نے مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے اپنی سرکردگی میں علاقائی دفاعی معاہدے ''سیٹو‘‘ کی بنیاد رکھی اور سب سے پہلے بھارت کو اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ مگر بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سوشلسٹ خیالات کے حامی ہونے کی وجہ سے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی تھے۔ اس کے علاوہ وہ مشرق اور مغرب کے دونوں بلاکس سے باہر رہ کر غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتے تھے تاکہ باب المندب سے لے کر آبنائے ملاکا تک بحر ہند اور جنوبی ایشیا کے خطے پر بھارتی سیادت کے قیام میں کوئی بیرونی طاقت مداخلت نہ کر سکے۔ لیکن 1990ء میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور سرد جنگ کا دور ختم ہوا تو بھارت کیلئے روس پر تکیہ کرنا مشکل ہو گیا اور اس نے اپنے خارجہ‘ تجارتی اور دفاعی تعلقات کیلئے دوسرے ممالک کا رُخ کرنا شروع کیا۔ ان میں یورپ اور امریکہ سرفہرست تھے۔ امریکہ کے ساتھ صرف دوطرفہ بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر مشترکہ وژن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی کام بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور میں ہوا۔ 2014ء کے بعد نریندر مودی نے ان تعلقات کو مزید مضبوط کیا ۔ مگر رواں برس مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مختصر مگر عہد ساز جھڑپ کے بعد گزشتہ بیس‘ پچیس برس کی محنت سے قائم امریکہ بھارت تعلقات اور تعاون کا یہ ڈھانچہ اچانک گرگیا۔ بھارت کے سفارتی اور دفاعی تجزیہ کار متفقہ طور پر اس رائے کے حامی ہیں کہ اپنی دوسری صدارتی مدت میں ٹرمپ نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو جس حد تک پہنچا دیا ہے مستقبل قریب میں ان تعلقات کی بحالی کے آثار نظر نہیں آتے۔
اس کے مقابلے میں اسی عرصہ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اس رفتار سے بہتری آئی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سب سے تعجب خیز پیش رفت بھارت کے ساتھ جھڑپ کے تقریباً ایک ماہ بعد صدر ٹرمپ کا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس ملاقات میں صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ جہت تعاون کو آگے بڑھانے پر بات ہوئی ہو گی‘ جس کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے علاوہ تجارت‘ معیشت‘ ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں بھی تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اس وقت جن سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان میں دو سوال زیادہ اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات جلد بہتر ہونے کا کوئی امکان ہے یا دونوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھیں گے؟ دوسرا‘ کیا پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور دیرپا ثابت ہوگا اور اس کیلئے امریکہ نے پاکستان سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں؟ اگرچہ بھارت کے سفارتی اور دفاعی حلقوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ مودی ٹرمپ تعلقات کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ہے مگر ان حلقوں کو یہ بھی یقین ہے کہ تلخی اور رنجش کا یہ دور عارضی ہے کیونکہ ٹرمپ کے اس رویے کو امریکہ کی دوسری پارٹی ڈیموکریٹک کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ٹرمپ میں مستقل مزاجی کا فقدان بھارتیوں کی اس امید کا سہارا ہے کہ ناراضی کا یہ دور عارضی ثابت ہوگا۔ اس لیے یہ حلقے مودی حکومت کو صدر ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے سے احتراز کا مشورہ دے رہے ہیں‘ مگر اس کے ساتھ قومی مفادات اور عزتِ نفس کے تحفظ پر ڈٹ جانے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں امریکہ بھارت کی وسیع کنزیومر مارکیٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ صدر ٹرمپ نے سٹرٹیجک مفادات کو فی الحال پس پشت ڈال کر تجارتی مفادات کو اولین ترجیح دے رکھی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے ان بگڑتے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مودی حکومت چین سے تعلقات کی بہتری پر توجہ مرکوز کر چکی ہے جس کا واضح ثبوت مودی کی طرف سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے اجلاس میں شرکت کا اعلان اور رواں ہفتے چینی وزیر خارجہ کا دو روزہ بھارتی دورہ ہے۔ دوسری طرف بھارت تجارت کے حوالے سے امریکہ کے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا کیونکہ مودی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے کسانوں کے مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں بھی اس معاملے میں مودی کے ساتھ ہیں۔ مودی شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں بھی اپنے کردار سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں کیونکہ وہ گلوبل ساؤتھ کا یہ وسیع خطہ اپنے حریف ہمسایہ ملک چین کیلئے کھلا نہیں چھوڑ سکتا۔ بھارت میں ٹرمپ کی متلون مزاجی کے ناقد حلقے امریکی صدر پر نوآبادیاتی اور سامراجی پالیسی اختیار کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اس لیے امریکہ اور بھارت میں موجودہ کشیدگی میں کمی کے آثار مستقبل قریب میں تو بالکل نظر نہیں آتے۔
جہاں تک پاکستان کے بارے میں امریکی صدرکی گرمجوشی اور ٹیرف کے معاملے میں فراخ دلی کے مظاہرے کا تعلق ہے‘ اس بارے میں ماہرین کی رائے یہ ہے کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام پر بات چیت میں امریکی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے علاوہ امریکہ پاکستان کے راستے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی کا خواہش مند ہے کیونکہ یہ خطہ نہ صرف قدرتی اور معدنی دولت سے مالا مال ہے بلکہ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے چین اور روس کے خلاف امریکی حکمت عملی کیلئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں جنوبی اور وسطی ایشیائی ملکوں کے دفاعی سربراہان کی ایک کانفرنس میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا کی شرکت اس خطے میں پاکستان کے ذریعے سٹرٹیجک مفادات کے فروغ میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ یوکرین کے بعد ٹرمپ کیلئے اپنی شرائط پر ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ سب سے اہم ترجیح ہے۔ ٹرمپ کو یقین ہے کہ پاکستان ایران کا ایک اہم ہمسایہ اور دوست ملک ہونے کی حیثیت سے اس میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ بلوچستان میں قیمتی معدنیات ٹرمپ کے لیے ایک علیحدہ کشش کا باعث ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی جیو پولیٹکل صورتحال ان سوالوں کا زیادہ واضح جواب حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جو کالم میں اٹھائے گئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved