آسمان گرنے اور زمین پھٹنے کو محاوروں میں استعمال کرتے اور سنتے چلے آئے تھے لیکن آسمان مسلسل گر رہا ہے‘ زمین ہے کہ کہیں رکنے میں نہیں آرہی‘ پہاڑ ایسے چلتے نظر آرہے ہیں جیسے کسی نے پہیے لگا دیے ہوں۔ پانی کے بے رحم ریلے تو ایک طرف‘ بھاری بھرکم پتھروں کا سیلاب حواس گم کیے دے رہا ہے۔ ننھے منے بچوں سمیت مرد و زَن کی لاشوں کے انبار لگنے کے باوجود آسمان بدستور ناراض اور زمین نالاں ہے۔ قانونِ فطرت سے لے کر رب کے قہر و غضب کو دعوت دینے والوں نے ہنستی بستی بستیوں کو بے گور و کفن لاشوں کا جہان بنا ڈالا۔ شکم پروری میں مست‘ ہوسِ زر کے ماروں نے جنگلات کی ہریالی کو کاٹ کاٹ کر دریاؤں‘ ندی نالوں کے راستوں اور گزرگاہوں پر تجاوزات کی جو دنیا آباد کی تھی‘ وہ اس طرح اجڑ چکی ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ ایسے ایسے دلخراش اور ہوش اڑا دینے والے دردناک مناظر‘ جنہیں دیکھ کر جان لیوا پتھر بھی رو پڑے ہوں گے لیکن قانونِ فطرت اور قہر خداوندی کے آگے کسی کی کیا مجال اور کیا اوقات؟ مٹھی بھر مفاد پرستوں اور بے رحموں کی مال بنانے کی لت قصبے‘ دیہات اور شہر بھی کھا گئی۔ یوں لگتا ہے عوام اور خواص کے علاوہ حکام میں بھی مقابلہ جاری تھا۔ اخلاقی گراوٹ سے لے کر قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اُڑانے کے علاوہ لوٹ مار کے لیے دنیاوی حدوں کے ساتھ ساتھ فطرت میں سبھی دخل اندازیاں ریکارڈ کا حصہ اور چشم تصور سے آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس اُجڑی ہوئی بستی میں کیسا کیسا اُدھم‘ کیسی کیسی نافرمانیاں اور گستاخیاں کس ڈھٹائی سے جاری تھیں۔ قانون اور ضابطوں پر عملدرآمد کرانے والے تو اپنی اپنی قیمت وصول کر کے دنیا سنوارتے رہے لیکن قانونِ فطرت میں نہ تو کسی تبدیلی کی گنجائش ہے نہ سہولت کی۔ گویا عوام اور حکام مل کر فطرت کے ساتھ وہ سبھی چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ہیں جس کا المناک نتیجہ دردناک اموات اور ہولناک تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سبھی نشانیاں ہیں فقط سمجھنے والوں کے لیے۔ درختوں کی لکڑی سے دَھن دولت اکٹھا کرنے والوں کے لیے لاشیں اکٹھی کرنا محال ہو چکا ہے‘ بمشکل ملنے والی لاشوں کے لیے کہیں کفن ناکافی ہو گئے تو کہیں غسل دینے والے نہ ملے‘ یہ دونوں ملے تو کندھے دینے والے کم پڑ گئے۔ جب بستی ہی قبرستان بن جائے تو قبرستان بھی ڈھونڈے سے نہ ملے۔ اجتماعی جنازوں اور تدفین کے مناظر ہوں یا کیچڑ میں لت پت‘ درختوں میں اُلجھی اور پتھروں سے مسخ شدہ لاشیں ہوں‘ انہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ حکومتی ادارے جہاں برابر کے شریک رہے ہیں وہاں انتظامی و سیاسی اشرافیہ بھی اس کارِ بد میں برابر ہاتھ دھوتی رہی ہے۔ دریاؤں اور ندی نالوں سے لے کر درختوں اور پہاڑوں سمیت زمین کے ساتھ مسلسل مقابلے پر آمادہ حکام اور عوام نے مل کر اسے جائے عبرت بنا ڈالا ہے۔ ابھی خیبرپختونخوا میں آسمان اور زمین کا انتقام جاری تھا کہ کراچی میں برسنے والی بارش نے حکومتی پول کھولنے کے ساتھ ساتھ پورا شہر اس طرح ڈبو ڈالا کہ نہ کسی کا گھر بچا‘ نہ ہی کسی کی گاڑی اور سواری۔ سڑکوں اور حکومتی املاک کے علاوہ انفراسٹرکچر بھی چیخ اٹھا کہ مسلسل سمجھوتوں اور مل کر کھانے والوں نے ہمیں اس قابل ہی کہاں چھوڑا ہے کہ اپنے شہر کو اس ناگہانی آفت سے بچا پاتے۔ غفلت اور خسارے میں ہیں جو اس تباہی کو محض قدرتی آفت سمجھے ہوئے ہیں۔
ایوانوں اور محلات میں خود کو محفوظ سمجھنے والے بھی خاطر جمع رکھیں! یہ اونچی فصیلیں اور چھتیں ان کے تئیں مضبوط اور حفاظت کی ضامن ضرور ہوں گی لیکن گورننس کی عطا کو اپنی ادا کا چمتکار سمجھنے والے بھی بدستور مغالطے میں ہیں کہ دنیاوی سسٹم میں آلٹریشن یا جگاڑ لگا کر مہلت اور سہولت کو تو بڑھایا جا سکتا ہے‘ قانون اور ضابطوں میں ضرورتاً ترمیم اور تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے‘ آئین میں پیوند بھی لگائے جا سکتے ہیں‘ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بھی بنایا جا سکتا ہے‘ سربلند کو سرنگوں اور سرنگوں کو سربلند بھی کیا جا سکتا ہے‘ ایوان اور زندان کے مکین بھی بدلے جا سکتے ہیں‘ بنیادی انسانی حقوق سلب اور احترامِ آدمیت بھی ترک کیا جا سکتا ہے‘ بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کے لیے نام نہاد دانشور اور دور کی کوڑی لانے والے بھرتی بھی کیے جا سکتے ہیں‘ سرکاری وسائل پر سر پھرے مصاحبین بھی پالے جا سکتے ہیں‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے علاوہ کلیدی عہدوں کی بولیاں بھی لگوائی جا سکتی ہیں‘ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار کے درمیان سبھی حربوں اور ہتھکنڈوں کو جائز و حلال ثابت کرنے کیلئے سرکاری وسائل اور مشینری کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے‘ میرٹ اور گورننس کے معانی الٹائے جا سکتے ہیں‘ باعثِ شرم اقدامات پر ڈھٹائی کے ساتھ فخر بھی کیا جا سکتا ہے‘ ایوانوں میں منڈی لگا کر جمہوریت کے حسن کو چار چاند بھی لگائے جا سکتے ہیں‘ وفاداری کے ساتھ ساتھ افکار اور نظریات بھی بدلے جا سکتے ہیں‘ گویا سسٹم میں اجارہ داری اور دادا گیری کے لیے سبھی حربے اور فارمولے آزمانے کی مکمل آزادی ہے لیکن یاد رہے! جب آفاقی نظام حرکت میں آتا ہے تو سبھی تدبیریں الٹنے کے ساتھ ساتھ تقدیریں بھی بگڑ جاتی ہیں۔ لامحدود خواہشات اور نسل در نسل حکمرانی کا شوق کیسے کیسے زعم میں مبتلا کیے رکھتا ہے‘ ایوان اور محلات پناہ دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ جن سڑکوں اور راستوں سے سرکاری تام جھام کے ساتھ گزرتے تھے وہ بھی اجنبی دِکھائی دیتے ہیں اور عوام کے جمِ غفیر کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ عوام کی تحقیر اور آئین کی پامالی سمیت قانون اور ضابطوں کو باندی بنائے رکھنے کی ضد نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کو کہاں لا کھڑا کیا‘ کس کو کہاں پناہ ملی؟ انسان کا مزاج ہی بالآخر اس کا مقدر بنتا چلا جاتا ہے۔
مملکتِ خداداد میں گورننس جیسی امانت میں مسلسل بددیانتی اور خیانت کے علاوہ من مانیوں اور خود سری کو دوام بخشنے کی بدعت بھی ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہے۔ آئے روز چالیں بدلی جا رہی ہیں‘ ابہام اور کنفیوژن کے پرچارک دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ مہرے اور پیادے سسٹم کے انجینئرز اور کل پرزوں کے ساتھ اپنی فٹنگ کی جگاڑ میں کہیں نقب لگائے ہوئے ہیں تو کہیں رقص و دھمال کا سماں ہے۔ عسکری ترجمان کے تازہ ترین بیان نے ان سبھی کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے جو ازخود بوجوہ متحرک ہوئے تھے‘ کوئی ہائبرڈ سسٹم کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے تو کوئی سسٹم میں نقب لگانے کے لیے جگاڑ لیے گھوم رہا ہے‘ سب کو معلوم ہے کون کہاں جھوم رہا ہے۔ دوسری طرف نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے تو سارا پرچہ ہی آؤٹ کر ڈالا ہے‘ کہتے ہیں ''ابھی تو 26ویں ترمیم ہضم کر رہے ہیں‘ 27ویں کی ضرورت نہیں‘‘ گویا 26 ویں ترمیم کے ہاضمے تک 27ویں کھٹائی میں پڑسکتی ہے‘جبکہ ہر صورت اقتدار کا حصہ بنے رہنے کی خواہش بھی بدستور توانا اور زوروں پر ہے۔ خو ف اور خواہش کے درمیان پینڈولم بنے جھولتے یہ سبھی ایک دوسرے سے مزید شاکی اور خائف ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حدوں کو توڑتا ہوا شوقِ حکمرانی حکمران اتحاد کو دوراہے کی طرف دھکیلے ہوئے ہے۔ مملکتِ خداداد کی عمر عزیز کا نصف سے زائد عرصہ شوقِ حکمرانی پورا کرنے والوں کا سسٹم سے اعتماد اٹھ رہا ہے یا سسٹم ان سے بیزار ہے؟ سسٹم کی بیزاری دور کرنے کے چورن اور مسالے تو ان سبھی کے پاس موجود ہیں لیکن آفاقی نظام سسٹم کا اُدھم تماشا بدستور دیکھ رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved