تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     23-08-2025

حاصلِ مطالعہ

بلاشبہ پاکستان کے وسائل سے جو طبقات کماحقہ مستفید ہو رہے ہیں‘ ان میں سیاستدان سر فہرست ہیں۔ ملکی سیاست‘ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے حوالے سے سلسلہ وار گزشتہ چار کالموں کا حاصلِ مطالعہ یہی ہے کہ یہاں کے سیاستدانوں نے سیاست کو عوامی خدمت اور عبادت کے بجائے تجارت کا ذریعہ بنا لیا جس کی بدولت ان کا ذاتی کاروبار تو خوب چمکا لیکن ملک مقروض سے مقروض تر اور اس کے عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔ دنیا بھر میں اصول ہے کہ ٹیکس امیروں سے لیا جاتا ہے اور غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں غریب عوام کے دیے گئے ٹیکسوں پر امرا اور اشرافیہ نے موج میلہ کیا اور ہنوز کر رہے ہیں۔ عوام سے اکٹھا ہونے والا ریونیو سیاستدان کھا جاتے ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ملکی معیشت کیلئے بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے اندرون اور بیرونِ ملک دوروں پر نہ صرف بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے بلکہ انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب ہمارے حکمرانوں کو غیر ملکی دورے پر جانا ہوتا ہے تو انتظامیہ ان کے دوروں کا انتظام کرنے میں جُت جاتی ہے اور عوامی کام رک جاتے ہیں۔ انتظامیہ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے دوروں کا انتظام کرنا ضروری ہے‘ عوامی کام کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوامی ریلیوں اور جلسے‘ جلوسوں پر کروڑوں روپے کا امپورٹ کیا گیا تیل خرچ ہوتا ہے‘ یہ بھی عوامی پیسے کے ضیاع کے مترادف ہے۔
سیاستدان اپنے مخالفین کو آزادی سے کاروبار بھی نہیں کرنے دیتے‘ جس سے کاروباری مسابقت کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ حکمران جماعت سیاسی مخالفین کے کاروبار کو بند کرنے کی کوشش کرتی ہے‘ ان کے خلاف انتظامیہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بھٹو نے بھی سیاست کی آڑ میں پورے ملک میں کاروبار ہی کا بھٹہ بٹھا دیا تھا۔پاکستان میں قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے پندرہ سو کے قریب اراکین ہیں‘ جو تنخواہوں کے ساتھ رہائش‘ پٹرول اور دیگر الائونسزکی مد میں ماہانہ اربوں روپے اڑا دیتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر بیٹھی خواتین کی کیا کارکردگی ہے؟ یہ بھی خزانے پر کسی بوجھ سے کم نہیں۔ ایوانِ صدر‘ وزیر اعظم ہائوس‘ گورنر‘ وزرا‘ مشیران اور کمیٹیوں کے 500 کے قریب عہدیداروں کے خرچے الگ سے ہیں۔ حکمرانوں کے دفاتر اور گھروں کی تزئین وآرئش‘ گاڑیاں اور پٹرول‘ کھانا پینا‘ میڈیکل اور ملازمین‘ سب کچھ انہیں مفت میسر ہے اور یہ طبقہ مفت کے مال کو بے رحم دل کے ساتھ اڑا رہا ہے۔گویا ملک کے تمام وسائل ان کے تصرف میں ہیں۔ایسے افراد سے‘ جو خود مسئلے کی جڑ ہیں‘ ملکی مسائل کے حل کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ اس امر میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ سیاست کے مسلسل بحران ہی کے سبب اب دیہاڑی دار اور مزدور پیشہ افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات نے متوسط اور سفید پوش طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان تمام حالات کی ذمہ داری اشرافیہ کے انہی طبقات پر ہے‘ جن میں سیاستدان سرفہرست ہیں۔
برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میںوزرا کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد 122 ہے ۔19 اپریل 2024ء کو گورنمنٹ کار سروس(GCS) نے ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ اس کے زیر اہتمام122 گاڑیوں کا پُول ہے۔ دوسری طرف ہمارے ایک صوبے میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد کو مفت پٹرول کی سہولت میسر ہے۔ ایک افسر اگر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو حکومت کو دسیوں لاکھ لیٹر پٹرول کیلئے ماہانہ کروڑوں ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ گزشتہ ماہ کی ایک خبر کے مطابق اراکینِ قومی اسمبلی کو گزشتہ تین سال کے دوران ایک ارب 16 کروڑ روپے کے فری سفری واؤچرز جاری کیے گئے۔ اسی طرح گزشتہ سال اگست میں سیکرٹری پاور ڈویژن نے انکشاف کیا تھا کہ بجلی کمپنیوں کے ایک لاکھ 90 ہزار ملازمین کو سالانہ 15 ارب روپے کی مفت بجلی دی جاتی ہے۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اشرافیہ کا یہ فری پٹرول بند ہونا چاہیے۔ فری بجلی کے یونٹس بند ہونے چاہئیں‘ مفت ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔
ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے‘ اس کے باوجود حکمرانوں کی شاہ خرچیاں جاری ہیں‘ جنہیں پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کو کون لگام ڈال سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت سے یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرے۔ پاکستان جیسے ملک میں 70 سے 80 رکنی کابینہ کس کام کی ہے؟ کیا آئی ایم ایف کا کام صرف غریبوں پر ٹیکس لگانا ہے؟ آئی ایم ایف مگر ایسا کیوں کرے گا‘ وہ تو انہی کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ وہ تو ایک بینک کی طرح کام کرتا ہے‘ جس کاکام منافع حاصل کرنا اور سود سمیت اپنے پیسے واپس لینے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ 32 برس میں جس شعبے نے پاکستان کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے وہ 90 آئی پی پیز ادارے ہیں۔ یہ بجلی گھر پاکستان کی کل ضرورت کا 125 فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے مگر ملکی ضرورت کی صرف 48 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں اور قیمت 125 فیصد کی وصول کرتے آ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برس میں بغیر بجلی پیدا کیے اربوں روپے وصول کرنے کے باوجود یہ ملک ان کا 2900 ارب روپے کا مقروض ہے۔ ان بجلی معاہدوں کی قاتلانہ شرائط سے آپ واقف ہی ہیں لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ ان کے مالک کون ہیں؟ اس میں اکثریت سیاستدانوں ہی کی ہے۔ جن سیاسی جماعتوں یا سیاستدانوں نے یہ ظالمانہ معاہدے کیے‘ شکنجہ اُن پر کسا جانا چاہیے۔ اس سے بھی آگے کا المیہ سن لیجیے۔ یہی وہ 90 لوگ یا گروپس ہیں جس کے پاس پاکستان کی تمام شوگر ملیں‘ سٹیل ملیں‘ سیمنٹ‘ کھاد‘ کپڑے‘ بینک‘ ایل پی جی اور گاڑیاں بنانے کے کارخانے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کیلئے پاکستانی قوم کو ان نام نہاد سیاسی رہنمائوں نے کچھ اس انداز میں تقسیم کیا ہے کہ اب ایک قوم کا تصور بھی محال ہے۔ حیرت ہے کہ اس ملک میں کوئی حقیقی اور قابل سیاسی رہنما موجود نہیں۔ ہرمالدار آدمی سیاسی رہنما ہے یا رہنما بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر پاکستان کی موجودہ سیاسی ومعاشی صورتحال کا بے لاگ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان سیاست اور سیاستدانوں نے پہنچایا ہے۔ وطن عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔
مختصراً یہ کہ ہمارے سیاستدانوں نے شروع دن سے ملک و قوم کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ اس کے سماج‘ کلچر‘ روایات‘ معیشت‘ صنعت اور سیاست کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اسی باعث یہ ملک دولخت ہوا۔ اُدھر تم اِدھر ہم کی سیاست شروع ہوئی‘ پھر کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر آیا‘ انہوں نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا سبز باغ دکھایا اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہ لوگ از خود ملک پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ لوٹ مار کا نظام اور بدعنوان سیاستدان موجود رہیں گے‘ ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved