تحریر : سلمان غنی تاریخ اشاعت     23-08-2025

نئے صوبے ناگزیر کیوں؟

پاکستان میں نئے صوبوں کی گفتگو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ماضی میں بھی بہت سی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان نئے صوبوں کی تشکیل کو وقت کی ضرورت قرار دیتے رہے ہیں۔پاکستان میں گورننس کا بحران سنگین صورت اختیار کر چکاہے۔ہم سب اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس وقت وطنِ عزیز کو گورننس کے شدید بحران کا سامنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اختیارات کو نچلی سطح پر تقسیم نہیں کیا جس سے عام آدمی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اگرچہ ہم نے ملک میں 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی تھی اور اس ترمیم کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مرکز سے اختیارات صوبوں کو اور صوبوں سے اضلاح تک جائیں گے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور صوبوں نے اختیارات کو اپنی حد تک مرتکز کر لیا ہے۔ صوبوں نے نہ صرف سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے بلکہ مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام سے بھی انحراف کیا ہے۔اس وجہ سے ملک کے چاروں اطراف میں یہ بحث عام ہے کہ شاید ہمارے مسائل کا حل نئے صوبوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔سیاسی جماعتیں اور حکمران طبقات انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر جب وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں تو نئے صوبوں کی تشکیل سے گریز کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے معروف ماہر تعلیم اور میڈیا انڈسٹری کی ایک معتبر شخصیت میاں عامر محمود نے بھی نئے صوبوں کی بحث کا آغاز کیا ہے۔ وہ اس اہم کام پر طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں اور اس موضوع پر اسلام آباد اور لاہور میں اہلِ دانش کیساتھ مل کر گفتگو کو آگے بڑھایا ہے۔ ملک عزیز میں نئے صوبوں کی ضرورت و اہمیت پر انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا جو شائع ہو چکا ہے۔اس مقالے میں انہوں نے نئے صوبوں کی تشکیل کی اہمیت اور ضرورت پر گیرائی سے بحث کی ہے اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نئے صوبوں کی بحث کو علمی بنیادوں پر آگے بڑھائیں۔ یہ تحقیق سیاسی جماعتوں‘سیاستدانوں‘میڈیا اوردانشوروں کیلئے صلائے عام ہے کہ اس موضوع پر نہ صرف بحث کو آگے بڑھائیں اور ملک میں گورننس کے بحران کے حل میں نئے صوبوں کی تشکیل اور اہمیت پر زور دیں تاکہ پاکستان اپنی موجودہ حالت میں گورننس کے درپیش چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔
دنیا بھر میں اچھی گورننس اور حکمرانی کیلئے چھوٹے یونٹس پر مشتمل صوبوں پر زور دیا جاتا ہے ‘ اس مقصد سے پاکستان میں بھی نئے صوبے تشکیل دیے جانے چاہئیں۔اس کیساتھ ساتھ ہمیں مضبوط مقامی حکومتی نظام کی بھی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی حکومتوں نے کبھی بھی مضبوط مقامی حکومتی نظام پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی یہ ان کی ترجیحات کا حصہ نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقامی سطح پر لوگ اپنے مسائل پر پریشان ہیں اور سب اپنے مسئلوں کے حل کیلئے اسلام اباد اور صوبائی دارالحکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورننس کے بحران کے حل کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ہماری حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتی ہیں اور اختیارات کی تقسیم کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ آج آپ پاکستان میں ریفرنڈم کروا لیں یا رائے عامہ کو جاننے کیلئے کوئی بھی نظام اختیار کر لیں تو آپ کویہی جواب ملے گا کہ لوگ موجودہ نظام اور طرزِ حکمرانی سے خوش نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام میں ان کے مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک نئے نظام کی طرف دیکھتے ہیں۔ نئے صوبوں کی تشکیل ہی بنیادی طور پر وہ نیا نظام ہو سکتا ہے جو لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ‘ نہ ہی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنا چاہیے کیونکہ قیام پاکستان کے وقت ہمارا انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ مختلف تھا اور آبادی بھی بہت کم تھی‘ لیکن وقت کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو ہمیں اپنے انتظامی یونٹ میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی‘لیکن سیاسی جماعتوں نے نئے یونٹس بنانے پر یا نئے صوبوں کی تشکیل پر سنجیدہ کام نہیں کیا۔ میاں عامر محمود ایک دور میں لاہور کے ضلع ناظم بھی رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں بلدیاتی نظام کے مقابلے میں مقامی حکومتوں کا نظام سامنے لایا گیا۔ اس نظام میں کہا گیا تھا کہ اس میں بنیادی اہمیت عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گی اور عوامی مسائل کو اختیارات کی تقسیم کیساتھ حل کیا جائے گا۔ اس لیے بطور ناظم وہ سمجھتے ہیں کہ گورننس کے بحران کو کیسے حل کیا جانا چاہیے۔ اپنے اسی تجربے کی بنیاد پر انہوں نے نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے اور وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں نئے صوبوں کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل اور مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ ہم اپنے نظام کی بہتر طور پر اصلاح کر سکتے ہیں اور یہ اصلاح عوامی مفادات کو سامنے رکھ کر کی جا سکتی ہے کیونکہ نظام وہی چل سکتا ہے جس میں عوامی مفادات اہمیت رکھتے ہوں اور عوام کو نظام پر بھروسہ اور اعتماد ہو۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ نئے صوبوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے کے بجائے اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اس مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھائیں گی تو سیاسی جماعتوں اور سیاسی حکومتوں کی اپنی افادیت بھی غیر اہم ہو جائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو وقت کے ساتھ اپنے نظام حکمرانی کو بدلنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں گورننس کو بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔ ہم اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے نظام کو بہترکر سکتے ہیں۔ اس اہم موضوع پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ ارکان اسمبلی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تجاویز بھی دیں اور نئے صوبوں کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں۔ یہ بحث کسی فردِ واحد کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ یہ پاکستان کے سیاسی اور ریاستی مفاد سے منسلک ہے اور ہر آدمی کی بہتری اس سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں وفاقی خود مختاری کے ساتھ ساتھ صوبائی خود مختاری پر زور دیا جاتا ہے تو اس سے یہی مرادہوتاہے کہ یونٹ انتظامی بنیادوں پر جتنے چھوٹے ہوں گے یہ اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ اس اہم موضوع پر صوبوں اور اسلام آباد میں بحث ہونی چاہیے۔ یہ بحث سیاسی الجھاؤ پیدا کرنے کے بجائے علمی اور فکری حلقوں میں بھی ہونی چاہیے کہ گورننس کے بحران کو نئے صوبوں کی تشکیل کی مدد سے حل کر سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ انتظامی یونٹ یا صوبہ جتنا بڑا ہوگا اس سے ہمارے سیاسی ‘انتظامی اور معاشی بحران میں اضافہ ہوگا۔یہ فرض کرلینا بھی غلط ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے مالیات کا ایک بڑا بوجھ پڑے گا‘کیونکہ انتظامی یونٹ جتنا چھوٹا ہوگا اتنا ہی مالیاتی وسائل کی تقسیم آسان ہوتی جائے گی اور نہ صرف آسان ہوگی بلکہ اس تقسیم کی مدد سے ہم اپنے انتظامی یونٹ کے معاملات کو زیادہ بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔اس لیے وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نظام میں مختلف نوعیت کی تبدیلیاں لائیں جن میں نئے صوبوں کی تشکیل بھی شامل ہے۔ہماری ترجیحات گورننس کے بحران کے حل پر مبنی ہونی چاہئیں اور یہ سمجھنا چاہیے کہ گورننس کے بحران کا حل اور نئے صوبوں کی تشکیل کیسے آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ سیاست اور جمہوریت سمیت سیاستدان یا سیاسی جماعتیں عوام میں مقبول ہونا چاہتی ہیں یا اپنی مقبولیت بڑھانا چاہتی ہیں تو ان کو سمجھنا ہوگا کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے وہ عوام میں اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کی تشکیل کے خلاف ہیں وہ عملی طور پر گورننس کے بحران کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ موجودہ روایتی نظام ہی کی مدد سے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے لیکن اب لوگوں کو اندازہ ہو رہا ہے کہ روایتی سیاسی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے ۔ تبدیلی لائے بغیر نہ تو نظام چل سکتا ہے اور نہ ہی عوامی مفادات کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved