میں ابھی ابھی سید علی ہجویریؒ (المعروف داتا گنج بخش) کی تصنیف ''کشف المحجوب‘‘ کی اشاعت (یا تکمیل) کے ہزار سال مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی ایک تقریب سے واپس آیا ہوں۔ اس کا اہتمام محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے بالغ نظر سیکرٹری ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے ایکس سروس مین سوسائٹی اور میر خلیل الرحمن سوسائٹی کے اشتراک سے کیا تھا۔ برادرم واصف ناگی اس کے روحِ رواں تھے۔ پاکستان کے ایک انتہائی ممتاز محقق اور شاعر جناب افتخار عارف کلیدی مقرر تھے جبکہ وزرائے محترم شافع حسین‘ بلال یاسین اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نبیل جاوید سٹیج کی رونق کو دوبالا کر رہے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی اور صاحبِ حال بابا یحییٰ‘ ممتاز شاعر تنویر تابش‘ خواجہ قطب الدین فریدی‘ حماد غزنوی‘ مولانا حافظ ظفر اللہ شفیق‘ ڈاکٹر سرور نقشبندی‘ ضیا الحق نقشبندی بھی مرکزِ نگاہ تھے۔ فارسی اور اردو کی ممتاز شاعرہ اور استاد ڈاکٹر زرین فضا کو معطر کیے ہوئے تھیں۔ جناب افتخار عارف نے ''کشف المحجوب‘‘ کی ہزار سالہ داستان چند لمحات کے کوزے میں بند کر دی۔ سید علی ہجویریؒ سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں نمایاں ہوئے‘ کئی ممالک کی سیر کرتے لاہور پہنچے اور اسی کو مسکن بنا لیا۔ یہیں ''کشف المحجوب‘‘ لکھی اور لاہور ہی کی مٹی اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔ سید صاحب کی اس کتاب کا شمار اسلامی تصوف کی انتہائی اہم کتابوں میں ہوتا ہے۔ افتخار عارف بتا رہے تھے کہ اس کی فارسی اتنی سادہ اور سلیس ہے کہ ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود اس کا لطف کم نہیں ہو پایا۔ اس کتاب کے کئی قلمی نسخے دنیا کے مختلف ممالک کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے‘ اردو میں بھی کئی صاحبانِ علم نے یہ مشق فرمائی۔ ابو الحسنات‘ سید محمد احمد قادری کا ترجمہ‘ ڈاکٹر خالق داد ملک اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی تحقیق‘ تخریج اور تدوینِ جدید کے ساتھ محکمہ اوقاف نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ تقریب کے دوران اسے مقررین اور خاص مہمانوں کو عطا کیا گیا۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کے بقول: دس صدیاں گزر چکی ہیں۔ افکار و نظریات کے فکری اور فنی ارتقا اور جانے کیا کیا پیرائے اور زاویے اختیار کر چکے لیکن ''کشف المحجوب‘‘ نے فقر و تصوف کے حوالے سے جو نظام مرتب و مدون کیا وہ ایک ہزار سال کی مسافت طے کرنے کے باوجود آج بھی حرفِ آخر ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ تدوینِ نو کرنے والے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری (اور ڈاکٹر خالق داد ملک) کا یہ بھی کہنا ہے کہ سید علی ہجویریؒ نے سرزمین ہند میں حرفِ حق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت‘ نبی اکرمﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا جو بیج بویا وہ ایک ایسا تنا آور درخت بن گیا جس کی جڑیں نہایت مضبوط ہو گئیں اور شاخیں وسیع فضاؤں میں پھیل گئیں۔ علامہ محمد اقبالؒ اسی شجرِ طیبہ کا حیات بخش ثمر تھے جنہوں نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اس خطۂ ارض کے حصول کا راستہ مسلمانانِ ہند کو دکھایا۔ آج مرشدِ لاہور حضرت علی ہجویریؒ کے عطا کردہ اس خطۂ پاک کی حفاظت و استحکام کے لیے بھی آپ ہی کے محبت آمیز اور ایمان افروز افکار و نظریات سے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
سید علی ہجویریؒ اپنی تصنیف کی وجہ تسمیہ اور غایتِ تصنیف یوں تحریر کرتے ہیں: ''اس کتاب کو جو کشف المحجوب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے‘ اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ کتاب کا نام ہی اس کے موضوع اور مطالب کو عیاں کر دے۔ اہلِ بصیرت اس کا نام سنتے ہی جان لیں کہ اس میں کیا ہے۔ یہ کتاب سیدھی راہ بتانے اور عارفانہ کلمات کی تشریح و توضیح اور بشریت کے حجاب رفع کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے لہٰذا اسے کسی اور نام سے منسوب کرنا مناسب نہیں سمجھا‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سید علی ہجویریؒ ان اولیا اور صوفیا میں ممتاز ترین ہیں جنہوں نے برصغیر ہند میں اسلام کا پیغام عام کیا۔ انہوں نے عفوانِ شباب میں سلطان محمود غزنوی کو دیکھا اور اس سے ملاقاتیں بھی کیں۔ کئی اسلامی ممالک کی سیر کی لیکن لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں گئے اور اہلِ علم سے ملاقاتیں کیں۔ برصغیر پاک و ہند میں تصوف کے سب سے بڑے سلسلے چشتیہ کے بانی خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے ان کے مزار پر چلہ کشی کی‘ ان ہی کا شعر آج زبان زد خاص و عام ہے:
گنج بخش‘ فیضِ عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل‘ کاملاں را رہنما
جناب افتخار عارف کا کہنا تھا کہ ''فیض عالم‘‘ کے بجائے ''ہر دو عالم‘‘ کہا گیا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے بھی جناب سید کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر رات کے پچھلے پہر ان کے مزار پر ایصالِ ثواب کے لیے آتے تھے۔ ان کے خادمِ خاص علی بخش کا بیان کردہ ایک واقعہ بھی بڑی شہرت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم کے بقول ان تک یہ اوریا مقبول جان کے ذریعے پہنچا۔ انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں علامہ اقبالؒ کی بیٹی منیرہ اور ان کے دو بیٹوں کی موجودگی میں اسے سنایا تھا‘ اور کسی نے اس کی تردید نہیں کی تھی: ایک روز رات کے تین بجے علامہ صاحب نے علی بخش کو اٹھایا (آواز دی) وہ ان کے کمرے میں گئے تو دیکھا وہاں ایک بہت نورانی بزرگ بھی موجود ہیں۔ علامہ صاحب نے علی بخش سے کہا کہ دو گلاس لسی لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیا: اس وقت تو سب دکانیں اور بازار بند ہوں گی۔ علامہ نے کہا: باہر جا کر دیکھو شاید کوئی دکان کھلی ملی جائے۔ علی بخش گھر سے باہر نکلے تو دور ایک دکان میں روشنی نظر آئی‘ وہ دودھ دہی کی دکان تھی۔ ایک پُرنور اور باریش دکاندار موجود تھا۔ علی بخش نے اس سے دو گلاس لسی بنانے کو کہا‘ جو اس نے بنا دی۔ دکاندار نے اس لسی کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ علی بخش نے پوچھا تو اس نے جواب دیا: علامہ صاحب سے ہمارا حساب چلتا ہے۔ علی بخش واپس گھر آئے اور علامہ کی خدمت میں پیش کر دی۔علی بخش کے بقول اس واقعہ نے تجسس کی آگ لگا دی تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ وہ کئی برس علامہ سے پوچھتے اور علامہ ٹالتے رہے۔ بالآخر ایک روز انہوں نے یہ وعدہ لے کر کہ یہ راز میری زندگی میں افشا نہیں ہو گا‘ بیان کر دیا کہ جو بزرگ میرے کمرے میں تشریف رکھتے تھے وہ خواجہ اجمیرؒ تھے اور جس شخصیت سے تم لسی لے کر آئے وہ حضرت علی ہجویریؒ کی تھی۔ اس واقعہ سے قطع نظر علامہ اقبالؒؒ نے اپنے اشعار میں سید ہجویر کو مخدومِ اُمم اور ''پاسبانِ عزت اُم الکتاب‘‘ جیسے القاب سے یاد کر رکھا ہے اور ان کے مزار کو ''مرقدِ او پیر سنجر را حرم‘‘ کہا ہے یعنی حضرت خواجہ کے نزدیک وہ حرم کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبال حضرت ہجویریؒ کو کفرستانِ ہند میں اسلامی شجر کا بیج بونے والا قرار دیتے ہیں۔
حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر دن رات زائرین کا ہجوم رہتا ہے لیکن وہاں چادریں چڑھانے‘ قوالی کرنے یا لنگر جاری کرنے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کی تعلیمات کی طرف توجہ کی جائے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں شریعت کی پیروی پر جس طرح زور دیا ہے‘ اسے یاد رکھا جائے۔ بے علم حاکم‘ بے عمل عالم اور بے صبر فقیر ان کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ ہزار سال سے زندہ سیدِ ہجویر کی زندہ کتاب کے زندہ الفاظ آج بھی زندگی بخش سکتے ہیں۔ کوئی عمل کا آغاز تو کرے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved