پاکستان کی حالیہ سفارتی کامیابیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی میں ایک نئی اور مثبت تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ حکمت عملی صرف دفاعی نہیں بلکہ فعال اور دور اندیش ہے‘ جس کا مقصد علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینا اور عالمی سطح پر وطنِ عزیز کے کردار کو مضبوط کرنا ہے۔ حالیہ اعلیٰ سطحی دوروں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کا کلیدی کردار سفارتی سطح پر ہماری پختگی اور اہمیت کا عکاس ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے تحت ہم نے اپنے پڑوسیوں اور اہم عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز اور افغانستان و بنگلہ دیش جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان خطے میں استحکام اور ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ یہ فعال سفارت کاری نہ صرف ملکِ عزیز کی ساکھ کو بہتر بنا رہی ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر نئے مواقع بھی فراہم کر رہی ہے۔
کابل میں پاکستان‘ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی کانفرنس ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے جو پاکستان کی فعال اور دور اندیش خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ کانفرنس محض ایک سفارتی ملاقات نہیں تھی بلکہ ایک نئے علاقائی اتحاد کا آغاز ہے جس کا مقصد خطے کے سب سے بڑے چیلنجز کا مشترکہ حل تلاش کرنا ہے۔ اس کانفرنس میں سب سے اہم پیش رفت دہشت گردی کے خاتمے پر تینوں ممالک کا متفق ہونا تھا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے برسوں سے خطے کی ترقی اور امن کو متاثر کیا ہے۔ اس معاہدے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تینوں ممالک دہشت گردی کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے اور اس کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ اس کانفرنس کا دوسرا اہم پہلو اقتصادی تعاون پر زور دینا تھا۔ پاکستان‘ چین اور افغانستان کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا خطے کی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں مدد دے رہا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں امن قائم کرنے اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔
اُدھر چینی وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت اور اس کے فوراً بعد پاکستان کا دورہ چین کی علاقائی ترجیحات کی ایک واضح مثال ہے۔ یہ سفارتی سفر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین کے نزدیک پاکستان کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت کے فوری بعد پاکستان کا رخ کرنا دراصل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے ساتھ چین کے تعلقات ایک الگ اور اعلیٰ سطح پر قائم ہیں۔ یہ صرف روایتی دوستی نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک شراکت داری ہے جس میں دونوں ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس دورے کا سب سے اہم نتیجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے ایک گیم چینجر ثابت ہو گا۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے جیسے سڑکوں اور توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی گئی تھی‘ لیکن دوسرے مرحلے میں صنعتی تعاون اور زراعت جیسے کلیدی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس سے ملکی معیشت کو پائیدار ترقی اور استحکام حاصل ہو گا۔ چین کا یہ فیصلہ اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ امر نہ صرف پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی پاکستان کے حق میں مزید مضبوط کرتاہے۔
دوسری جانب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کا 13سال کے طویل وقفے کے بعد بنگلہ دیش کا دو روزہ دورہ محض ایک سفارتی سفر نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی علاقائی حرکیات کا ایک واضح اشارہ ہے۔ یہ دورہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ملک اپنی ماضی کی تلخیوں اور سرد مہری کو بھلا کر ایک نئے اور تعمیری دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ پیش رفت خاص طور پر بھارت کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست ہے جو طویل عرصے سے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت نے طویل عرصے تک اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر نہ بنا سکے۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دی اور بنگلہ دیش کو اپنے اثر و رسوخ میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی‘ تاہم وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ دورہ ثابت کرتا ہے کہ بنگلہ دیشی عوام اور حکومت اب اس دباؤ سے نکل کر آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ علاقائی سیاست میں ایک اہم تبدیلی ہے جو مستقبل میں مزید سفارتی کامیابیوں کا باعث بنے گا۔ اس دورے سے محض دو روز قبل پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال خان نے بھی بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے راہ ہموار کی۔ اس سفارتی پیش قدمی کا مقصد تجارت‘ زراعت‘ تعلیم اور ثقافت جیسے اہم شعبوں میں تعاون کو بڑھانا ہے۔ بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی معیشت اور پاکستان کی وسیع مارکیٹ دونوں ملکوں کے لیے نئے مواقع فراہم کر سکتی ہیں۔ پاکستان کا یہ اقدام نہ صرف بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہو گا بلکہ یہ ملک عزیز کو مشرقی ایشیا میں نئے اور اہم شراکت داروں کے ساتھ روابط قائم کرنے میں بھی مدد دے گا۔
جہاں ایک طرف وطنِ عزیز اپنی سفارتی کامیابیاں منوا رہا ہے‘ وہیں دوسری جانب بھارت کو عالمی سطح پر تنہائی اور دباؤ کا سامنا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا آپریشن سندور کے دوران امریکہ اور دیگر ممالک سے فون کالز موصول ہونے کا اعتراف اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت جنگِ مئی کے دوران دباؤ میں تھا۔ ان کا یہ بیان کہ یہ کوئی خفیہ بات نہیں‘ اور فون کالز کے بارے میں تفصیلات کا عوامی طور پر ذکر کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اب ان حقائق کو تسلیم کر رہا ہے جنہیں وہ پہلے چھپانے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ اعتراف بھارتی خارجہ پالیسی کے تضادات اور اس کی سفارتی ناکامی کو نمایاں کرتا ہے جس کے نتیجے میں بھارت عالمی برادری میں اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔
پاکستان کی حالیہ سفارتی کامیابیاں ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہیں جہاں عالمی طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ان کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تنہائی کا شکار نہیں ہے بلکہ اپنے سٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بناتے ہوئے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں اسے اپنے روایتی اتحادیوں سے دوری کا سامنا ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارتی قیادت غرور کے ساتھ خود کو خطے کا ٹھیکیدار سمجھتی تھی‘ لیکن اب یہ غرور خاک میں مل چکا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا اپنی سفارتی کمزوریوں کا عوامی اعتراف اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ آج کا پاکستان سفارتی محاذ پر ایک پختہ اور کامیاب کردار ادا کر رہا ہے جبکہ بھارت اپنی ہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved