تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     24-08-2025

نئے صوبوں کا قیام ہی حل ہے

پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت پر ایک عرصے سے زور دیا جا رہا ہے۔ اب چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا اس موضوع پر لکھا گیا مقالہ ''Pakistan 1947-2025, Why it Continues to Fail its people?‘‘ پڑھ کر جانا کہ نئے صوبوں کے قیام کے ملک کو کیا کیا فائدے ہو سکتے ہیں۔ پہلے ایک نظر اس مقالے پر ڈالتے ہیں اس کے بعد بات کو آگے بڑھائیں گے۔ میاں صاحب کا مؤقف ہے کہ اگر ہر ڈویژن کو ایک صوبہ بنا دیا جائے تو اس سے مالی اخراجات کم ہو جائیں گے اور عوامی مسائل کے حل کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ مقالے کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام سے ملک میں 33ہائیکورٹس بنیں گی۔ یوں لوگوں کیلئے انصاف کا حصول آسان ہو جائے گا۔ بچوں کے لیے تعلیم کا حصول بے حد آسان ہو جائے گا۔ برازیل میں ایک کروڑ 30لاکھ کی آبادی ہے اور اس کے 36صوبے ہیں‘ بنگلہ دیش کی 16کروڑ 40لاکھ آبادی ہے اور انہوں نے یونیٹری سٹیٹ بنایا ہوا ہے جس میں ہر ڈسٹرکٹ کو پاور دی گئی ہے۔ روس کی آبادی بھی ساڑھے چورہ کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر اس کے 46صوبے ہیں۔ دوسری جانب ہمارا بلوچستان رقبے میں دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی آبادی بہت سے ملکوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ بھارت جب آزاد ہوا تو اس کی نو ریاستیں تھیں مگر اب بھارت میں صوبوں کی تعداد 28ہو چکی ہے‘ مرکز کے زیر اہتمام علاقے اس کے علاوہ ہیں۔ 1951ء میں پنجاب کی آبادی دو یا تین کروڑ تھی‘ اب صرف لاہور کی آبادی اُس وقت کے پورے پنجاب کے برابر ہے۔ سندھ کی 60لاکھ آبادی تھی‘ اب اکیلے کراچی شہر کی آبادی اس سے زیادہ ہے۔
ملک حکومت کی پالیسیوں سے چلتے ہیں‘ حکومت کی ہر پالیسی آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہمیں فی الوقت چھوٹے صوبے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بہاولپور‘ ڈی جی خان اور ملتان کو الگ الگ صوبہ بننا چاہیے‘ سندھ میں کراچی کو الگ صوبہ بنا دینا چاہیے‘ کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو اس شہر کے حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان میں نصیر آباد‘ سبی‘ ژوب‘ قلات‘ مکران اور کوئٹہ کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ نئے صوبوں سے بلوچستان میں شورش کے خاتمے میں بہت مدد مل سکتی ہے ۔ اسی طرح ڈی آئی خان‘ کوہاٹ‘ مالا کنڈ‘ مردان اور پشاور کو صوبہ بننا چاہیے۔ صوبوں میں محکموں کی تعداد بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں 16محکمے ہونے چاہئیں۔ ہمارے ہاں ایک درخواست کے لیے عدالت کے سالوں چکر لگانا پڑتے ہیں۔ ایک معمولی کیس کو حل ہونے میں 17سے 18سال لگ جاتے ہیں۔ ایک جج کے پاس ایک دن میں ایک ہزار سے زائد کیس آتے ہیں۔ 33صوبے بننے سے 33ہائیکورٹس وجود میں آئیں گی جس سے مقدمات کے فیصلے بھی جلد ہو سکیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے صوبوں کا پھیلاؤ جتنا کم ہو گا اتنا ہی انتظامیہ کی نظر میں ہو گا۔ وفاقی حکومت دفاع اور تجارت کے نظام کو دیکھے‘ نچلی سطح پر مسائل کے حل کے لیے صوبے کام کریں۔ صوبے کم ہونے سے گورننس کے مسائل بے پناہ پھیل چکے ہیں۔ صوبے زیادہ ہوں گے تو گورننس آسان ہو گی۔ نظام حکمرانی کی تیسری پرت میں بلدیاتی ادارے گلی محلے کی سطح پر عوام کے مسائل حل کریں تو گڈ گورننس کا ماڈل خود بخود بن جائے گا۔
پاکستان میں مسائل کیوں زیادہ ہیں اور کیوں حل نہیں ہو پاتے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے صرف 12ملک آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے زیادہ ہیں۔ ان میں چین‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ جاپان‘ روس‘ مصر‘ بنگلہ دیش‘ امریکہ‘ نائجیریا‘ برازیل‘ میکسیکو‘ ایتھوپیا شامل ہیں۔ اس طرح دنیا کے صرف 31ممالک کی آبادی صوبہ سندھ سے زیادہ ہے اور صرف 41ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی صوبہ خیبر پختونخوا سے بڑھ کر ہے۔ بلوچستان کا رقبہ تین لاکھ 47ہزار 190مربع کلو میٹر ہے اور اتنے بڑے رقبے کے ساتھ صوبہ بلوچستان دنیا کے 172ممالک سے بڑا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان رقبے (سات لاکھ 96ہزار 95مربع کلومیٹرز) کے لحاظ سے دنیا کا 36واں بڑا ملک ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ یہ اعداد و شمار یہی اشارہ دیتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ گورننس کے چھوٹے یونٹس بہتر کارکردگی کے لیے ناگزیر ہیں۔
سنجیدہ فکر محفلوں میں اکثر اس موضوع پر بحث کی جاتی ہے اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان آزادی کے 78برسوں میں وہ ترقی کیوں نہیں کر پایا جس کا خواب کوئی بھی محب وطن دیکھتا رہا ہے؟ آپ کے خیال میں اس ناکامی کی بنیادی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ گورننس کے بڑے یونٹس کو اس ناکامی کی بڑی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم اکثر جب جمہوریت کی کامیابی کی بات کرتے ہیں تو بھارت کی مثال دیتے ہیں۔ بھارت نے اپنے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی نہ صرف نئے انتظامی یونٹس یعنی نئے صوبے جنہیں بھارت میں سٹیٹس یا ریاستیں کہا جاتا ہے‘ قائم کر لیے تھے بلکہ راجواڑوں کو بھی ختم کر دیا۔ پاکستان میں اس معاملے میں تاخیر کی گئی۔ اب اگر موقع مل رہا ہے تو اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات اور جامع منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
سوچنے کی ضرورت ہے کہ غربت‘ خوراک کی فراہمی‘ صحت کی صورت حال‘ انسانی ترقی‘ سوشل سیکٹر سروسز کے معیار اور ان سروسز تک عام آدمی کی رسائی‘ شفافیت‘ خواندگی‘ قانون کی حکمرانی‘ لوگوں کو انصاف کی فراہمی اور گورننس کے لحاظ سے ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ اگر ان معاملات پر کوئی انٹرنیشنل سروے کرایا جائے تو ہو سکتا ہے کہ ہم دنیا کے آخری دس ممالک کی فہرست میں شامل ہوں۔ ریاست اپنے ہر شہری کو صاف پانی اور صحت بخش خوراک کی فراہمی سے قاصر نظر آتی ہے۔ پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable Development Goals) میں بھی ہم دنیا سے پیچھے ہیں۔ ہماری معیشت مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اتنی کمزور کہ آزادی کے 78برسوں میں 24بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ان مسائل کا حل نئے صوبوں کے قیام میں مضمر ہے۔
جہاں ہم اپنی قومی زندگی میں اور بہت سے تجربات کرتے رہے وہاں نئے صوبوں کے قیام کے ایشو پر اتفاقِ رائے کا تجربہ کر لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ امید ہے کہ اس سے پاکستان کی ترقی کی وہ راہیں نکل آئیں گی جو حقیقی ترقی کی منزلوں کی طرف جاتی ہوں۔ معاشی تھنک ٹینک ''اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ‘‘ نے بھی نئے صوبوں سے متعلق منصوبے پیش کیے ہیں اور ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی وکالت کی ہے۔ تھنک ٹینک نے تقریباً وہی باتیں دہرائی ہیں جن کا ذکر میاں عامر محمود نے اپنے مقالے میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں چھوٹے صوبے قائم کرنے سے ہر صوبے کی آبادی ایک کروڑ 20لاکھ سے ایک کروڑ 60لاکھ افراد تک ہو سکتی ہے اور صوبائی بجٹ600 سے 994ارب روپے تک ہو جائے گا۔
ان اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ میاں عامر محمود صاحب نے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ چھوٹے صوبوں میں محدود آبادی کے مسائل حل کرنا‘ وسیع رقبے اور زیادہ آبادی والے صوبوں کے مسائل حل کرنے کی نسبت نہایت آسان ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved