کراچی کا انتظام وانصرام کم وبیش ناممکن ہو چکا۔ جرم نڈر ہے اور ڈمپر بے مہار۔ آسمان برس پڑے تو شہر بے سائبان بھی ہے۔ شہر کی انتظامیہ میں اتنی سکت نہیں کہ ایک برسات کا سامنا کر سکے۔ ایک بارش سڑکوں کو دریا میں بدل دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
ماہرینِ سیاست ہوں یا اعلیٰ درجے کے منتظم‘ سب متفق ہیں کہ انتظامی ڈھانچہ جتنا بڑا ہو گا‘ گورننس اتنی ہی مشکل ہو گی۔ تاریخ اس نتیجۂ فکر کی پشت پر کھڑی ہے۔ یونان کی سٹی سٹیٹ گورننس کا ایک کامیاب ماڈل تھی۔ شیر شاہ سوری اور مغلوں کا دورِ اقتدار بھی ایسا ہی تھا۔ ملک چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس میں منقسم تھا۔ لاہور کے بارہ دروازے تھے۔ یہ معلوم کرنا مشکل نہیں تھا کہ کون شہر میں داخل ہوا اور کون نکلا۔ کسی غیر مقامی کا جرم کے بعد بچ نکلنا کم وبیش ناممکن تھا۔ سلطنتیں اس لیے ناکام ہوئیں کہ ایک نظم کے تحت‘ ان کا انتظام ناممکن ہو گیا۔ وہ اپنے ہی بوجھ تلے دب گئیں۔ آج کراچی اتنا بڑا ہو چکا کہ ایک نظم کے تحت‘ اس کا انتظام چلانا ممکن نہیں رہا۔ کوئی جرم کر کے چھپ جائے تو پولیس پناہ گاہ کا پتا نہیں لگا سکتی۔
غور کیجیے تو پورا ملک کراچی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں انتظامی یونٹ اتنے بڑے ہیں کہ وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں۔ عام شہری انصاف کے ایوانوں سے اتنا دور ہے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچے‘ اس کی جیب خالی ہو جاتی اور سانس اکھڑ جاتی ہے۔ اگر اسے ایک بار یہ تجربہ ہو جائے تو وہ دوسری بار یہ ہمت نہیں کرتا کہ انصاف کی طلب میں گھر سے نکلے۔ پاکستان کی آبادی اور رقبے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو گورننس کا موجودہ ماڈل‘ کسی طور عوامی مسائل کے حل کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ناگزیر ہے کہ ملک کو چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کر دیا جائے۔ بالفاظِ دیگر نئے صوبے بنائے جائیں۔ میاں عامر محمود صاحب نے اگر اس کے لیے آواز اٹھائی ہے تو انہوں نے دراصل عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس کے دلائل جمع کر دیے ہیں جن کا خلاصہ 'دنیا‘ کے ادارتی صفحے پر بیان ہو چکا۔ انہیں دہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ یوں بھی یہ مسئلہ اتنا واضح ہے کہ دلیل کا محتاج نہیں۔ میاں عامر محمود صاحب کی آواز عام آدمی کے کان میں پڑی تو وہ زبانِ حال سے یہی پکارے گا 'تری آواز مکے اور مدینے‘۔
یہ مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی اہلِ نظر اسے موضوع بناتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1983ء میں ملک کے انتظامی ڈھانچے کی تطہیر کے لیے ایک کمیشن بنایا۔ اس کے سربراہ مولانا ظفر احمد انصاری تھے۔ اس لیے اسے 'انصاری کمیشن‘ کے نام سے شہرت ملی۔ اس کمیشن کے سولہ اراکین تھے۔ ان میں پیر کرم شاہ صاحب‘ جسٹس تقی عثمانی صاحب‘ جسٹس افضل چیمہ صاحب‘ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب‘ بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحبہ اور ڈاکٹر ضیا الدین احمد صاحب جیسے افراد شامل تھے۔ اس کمیشن کی بہت سے سفارشات قابلِ اعتراض ہو سکتی ہیں مگر اس نے نئے صوبوں کی ضرورت کو جس طرح نمایاں کیا‘ وہ قابلِ غور ہے۔ اس کا باب ششم 'صوبوں کی تشکیلِ جدید‘ کے عنوان سے ہے۔
اس رپورٹ میں مذہبی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہوئے صوبوں کی تعداد میں اضافے کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی مثال بھی پیش کی گئی ہے جہاں آبادی میں اضافے کے باعث نئے صوبے قائم کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا: ''1951ء میں لیبیا آزاد ہوا تو اس کے تین صوبے قرار پائے اور وفاقی طرزِ حکومت اختیار کیا گیا۔ صوبوں کے مابین‘ نیز صوبوں اور مرکز کے مابین‘ بارہ تیرہ سال کی کشمکش اور پریشان کن تجربوں کے بعد‘ بالآخر 1963ء میں صوبوں کی تعداد تین سے بڑھا کر دس کر دی گئی۔ نائیجیریا میں کچھ عرصہ پہلے یہی صورتِ حال تھی اور وہ بھی اسی قسم کے بحران کا شکار تھا۔ نائیجیریا نے اس کے اسباب وعلل کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اصل سبب وہاں کے صوبوں کے حجم کی زیادتی اور صوبائی یونٹوں کی تعداد کی کمی ہے۔ انہوں نے صوبوں کی تعداد تین سے بڑھا کر انیس کر دی‘‘۔
پاکستان میں ایک طرف انتظامی مسائل لاینحل ہیں اور دوسری طرف صوبائیت کا زہر قومی وجود میں سرایت کر رہا ہے۔ عقلِ عام کا تقاضا ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ انتظامی یونٹس کی تعداد بھی بڑھنی چاہیے۔ آبادی پچیس کروڑ تک پہنچ چکی اور صوبوں کی تعداد آج بھی وہی ہے جو نصف صدی پہلے تھی۔ سوال یہ ہے کہ عقلِ عام کی بات خواص کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کو یہ بات خوب سمجھ آتی ہے۔ وہ دراصل کسی کو اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ یہاں صاحبانِ اقتدار بلدیاتی انتخابات پر آمادہ نہیں درآں حالیکہ اپنے انتخابی منشور میں وہ عوام سے اس کا وعدہ کر چکے ہیں۔
موجودہ انتظامی سکیم میں سماجی وسیاسی مضمرات کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب ایک ثقافتی شناخت ہے۔ جب ہم نے اسے ایک صوبہ بنا کر انتظامی شناخت دے دی تو اس شناخت کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کا ہدف اس کی ثقافتی شناخت بن گئی اور یہ تاثر ابھرا کہ لوگ 'پنجاب‘ کے خلاف ہیں۔ لوگوں کو پنجاب کی ثقافتی شناخت سے گلہ نہیں۔ انہیں شکوہ 'صوبہ‘ پنجاب سے ہے۔ اگر صوبے کا حجم چھوٹا ہو جائے اور پنجاب کئی صوبائی یونٹس میں تبدیل ہو جائے تو صوبائیت کا خاتمہ ہو جائے۔ یہی معاملہ سندھ کا ہے۔ کراچی کی صورتِ حال تقاضا کر رہی ہے کہ اس کے گورننس ماڈل کو بدل دیا جائے۔ موجودہ ماڈل ناکام ہو چکا اور اس پر مزید اصرار سندھ بھر کے لیے ایسے مسائل کو جنم دے گا جن کا حل شاید ہمارے پاس نہ ہو۔ اسی طرح ہزارہ صوبے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
جدید ریاست سو فیصد انتظامی بندوبست ہے۔ اس کو مذہب یا رنگ ونسل کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کے پیشِ نظر صرف ایک سوال ہوتا ہے: اس کی جغرافیائی حدود میں رہنے والوں کے بنیادی حقوق‘ کیا بلا امتیاز محفوظ ہیں؟ تہذیب‘ ثقافت‘ مذہب‘ اس کا تعلق سماج کے ساتھ ہے۔ ریاست ان میں کم سے کم دخل دیتی ہے۔ اس کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا شہریوں کے بنیادی مسائل حل ہو رہے ہیں؟ وہ اس لمحے مداخلت کرتی ہے جب کوئی گروہ اپنی مذہبی یا ثقافتی اظہار میں حدود سے تجاوز کرتا اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کو اگر ہم اسی نگاہ سے دیکھیں تو صوبوں کی تشکیل سراسر انتظامی معاملہ ہے اور اسے گورننس ہی کے پہلو سے سمجھنا چاہیے۔
میاں عامر محمود صاحب نے جو کہا‘ یہ ایک دیرینہ مسئلے کی نشاندہی ہے۔ اس کا موجودہ سیاسی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد مخاطب بنانا چاہیے تھا‘ جس طرح بھارت نے بنایا اور صوبوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔ یہ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے اور اس کے ساتھ عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ یہ1983ء کا انصاری کمیشن ہو یا 2025ء کا اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ‘ سب یہی بات کہہ رہے ہیں۔ جن کو شک ہے وہ کراچی کے حالات پر ایک نظر ڈال لیں۔ آج ضروری ہے کہ میاں عامر صاحب کی بات ایک عوامی تحریک کا عنوان بنے اور نئے صوبوں کی تشکیل میں جو آئینی‘ سیاسی‘ سماجی اور معاشی رکاوٹیں ہیں‘ انہیں دور کرنے کے لیے اہلِ دانش اپنا کردار ادا کریں۔ میاں صاحب ایک تھنک ٹینک بنا کر اس کے لیے ایک فورم فراہم کر سکتے ہیں۔ 'دنیا‘ اخبار اور ٹی وی چینل اس کے ابلاغ کی خدمت سر انجام دے سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved