علم کی بڑھوتری‘ اس کے آگے کی منزلیں اور فکری گہرائی کا سیاق وسباق اگر مقامی تہذیب نہ ہو یا نہ رہے تو اس کا فطری عمل جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ سامراجیت کے دور سے پہلے ایسا نہ تھا۔ علم کا فروغ‘ اس کی تحصیل اور علمی مکالمہ مقامی زبانوں میں ہوتا۔ سب حوالے علاقائی تاریخ اور ثقافت سے ہوتے‘ یوں طالب علموں کے لیے بات سمجھنا اور اس کی گہرائی میں جانا اور دل میں بٹھا لینا آسان تھا۔ ہماری تاریخ نویسی اور تاریخ دانی کا زیادہ تر بلکہ یکسر تعلق انگریز دور کی آمد سے ہے۔ انگریزوں نے ہمارے معاشروں‘ سیاست اور معیشت کی ازسرنو تشکیل کی تاکہ سامراجی مقاصد کے حصول میں آسانی ہو اور ان کے خلاف فکری مزاحمت میں کوئی جان نہ رہے۔ طاقت کا مرکز وہ تھے‘ سب کچھ اُن کے ہاتھ میں تھا اور سامراجیت کا مغرب کا پورا تجربہ بھی‘ تو راستہ صاف کر کے مستحکم سامراجی ریاست کی تعمیر کوئی مشکل کام نہ تھا۔ نیا قانون‘ نئے تعلیمی ادارے‘ نئی سرکاری زبان اور صنعتی دور کی معیشت اور اسے چلانے کے لیے ریاستی اور نجی اداروں کی تشکیل‘ یہ سب کچھ ایک نئے نظام کی جائزیت اور عوامی سطح پر پذیرائی کے لیے تھا۔ سامراج کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ ہر جگہ اور دنیا کے ہر خطے میں انہوں نے معاونت کے لیے ایک وفادار مراعات یافتہ طبقہ پیدا کیا‘ جسے ہم اشرافیہ یا بالائی طبقہ کہتے ہیں۔ ان کے مفادات اپنی سامراجی حکمت عملی سے اس طرح جوڑے کہ وہ کسی دوسرے راستے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے مغلوں اور اس سے پہلے ادوار کا جاگیرداری نظام اس طبقے کی وفاداری کو مضبوط کرنے کے لیے جدید خطوط پر استوار کیا۔ جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انتظامی اور عدالتی عہدے بھی عنایت کیے تاکہ عوام پر ان کا خوف طاری رہے۔ آج بھی ان کی اولادیں اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ ان کے دادا یا پردادا انگریزی دور میں عہدیدار تھے۔
اشرافیہ کا مزاج بھی انہوں نے سامراجیت کے نئے زاویوں اور سیاسی افادیت کے نظریے کے مطابق ڈھالا۔ سامراجیوں کا سب سے بڑا اور مہلک ہتھیار زبان کا استعمال اور تعلیمی انداز تھا۔ اس کے بغیر وہ ہزاروں سالوں سے قائم ثقافت‘ فلسفوں‘ علم ودانش کے خزانوں اور عوامی سطح پر قائم تعلیمی نظام کو ختم نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے دو حربے استعمال کیے۔ پہلے تو یہ فلسفہ جمایا کہ جنوبی ایشیا نے تو کوئی علم پیدا ہی نہیں کیا۔ وہ جو میکالے نے کہا تھا کہ پورے ہندوستان کا علم اس کی لائبریری کے چند شیلفوں سے زیادہ نہیں‘ نسل پرستی کی بدترین مثال ہے۔ یہاں کی سامراجی اشرافیہ اور ان کے اتحادی دانشور بھی اس قسم کی خرافات پر یقین کرنے لگے۔ انہوں نے ایک منظم طریقے سے مقامی تعلیمی نظاموں کی بیخ کنی ایسے کی کہ اگلی دو نسلوں تک صرف کہیں کہیں کوئی علامتی نشان سا باقی رہ گیا۔ ہمارے ہاں مغرب کی طرح علم کی سینہ بہ سینہ روایت تھی۔ یہ سب کچھ تو پندرہویں صدی میں پرنٹنگ پریس کے بعد تبدیل ہوا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ۔ مگر وہ دور انگریزوں کی آمد کے ساتھ آ چکا تھا اور درسی کتابوں کی وسیع پیمانے پر چھپائی اور تعلیمی نظام کی تعمیرِ نو ممکن ہو گئی تھی۔ ہر جگہ انگریزی سکول‘ انگریزی تھانے‘ انگریزی قانون اور انگریزی سرکار کے افسر کمشنر سے لے کر پٹواری تک نئی سامراجی معیشت کا سہارا بن گئے۔ ہمارے تاریخ دان اور دانشور آج تک اس دور کے فیوض وبرکات‘ جسے کسی حد تک میں خود بھی تسلیم کرتا ہوں‘ اور اس کے جدید اثرات کی ہر نوع کی تحریکوں کے اسیر ہیں۔ ہم نے کبھی انگریزی دور سے پہلے کے ادوار کا کھوج لگانے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ کہیں قدامت اور روایت پسندی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔ مکالمے ہی ایسے تراشے گئے کہ کوئی ماضی کے علم وہنر کے موتی وقت کے صحرا میں سے نکال کر لے بھی آئے تو مغربیت کی چمکدار ترقی کے سامنے نہایت ہی حقیر نظر آئے۔
جس طرح انگریز سماجی مقام‘ معاشی ترقی‘ فرد کی جدید شناخت اور حیثیت کو اپنے تعلیمی نظام کے ساتھ مربوط کر کے حکمران اشرافیہ کے ٹولے ہمارے جیسے ملکوں میں چھوڑ گئے‘ اسی طرح نسل در نسل سیاسی اقتدار‘ صنعتی اور تجارتی میدانوں میں غالب طبقات نے اسی نظام کو قابلِ جواز اور قابلِ احترام ٹھہرا کر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ انگریز نے واضح طور پر دو مختلف نظام ترتیب دیے تھے۔ ایک حکمران اشرافیہ کے بچوں کے لیے اور دوسرا عام آدمی کے لیے۔ پہلے کا مقصود حکمران پیدا کر کے انگریزوں کی حمایت میں وفاداری کے رشتوں کو قائم رکھنا تھا۔ عوامی نظام‘ جسے وہ ورنیکولر کا نام دیتے تھے یعنی دیسی‘ وہ اشرافیہ کے تابع ریاستی نظام کے کل پرزوں اور معیشت کے ذیلی شعبوں میں کام کرنے کی صلاحیت سے زیادہ پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا تھا۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ اس نظام سے محنتی‘ ہو نہار اور متحرک طلبہ کالجوں اور جامعات میں اپنی جگہ بنا کر آگے نکلنے کے لیے راستہ بنا سکتے تھے۔ ہماری آزادی کے بعد بھی یہی طبقاتی نظام جاری رہا۔ تیسرے نظام کی بات کرنا بھی ضروری ہے‘ مدرسی علما کا وہ طبقہ جو انگریزی نظام کے مخالف تھا‘ اس نے الگ اپنا نظام مزید پختہ کر لیا۔ یہ پہلے سے موجود تو تھا مگر مدارس میں سکھ‘ ہندو‘ مسلمان اکٹھے تعلیم حاصل کرتے اور جو زیادہ مذہبی رنگ کے ہوتے‘ ان میں بھی ہنر اور حکمت کے شعبوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔ آزادی کے بعد بھی ہنر مندی کچھ مدارس میں موجود رہی مگر اکثریت بلکہ سب فرقہ وارانہ مذہبی تعلیم کا گڑھ بن گئے۔ یہاں غریب ترین لوگوں کے بچے نہایت ہی تکلیف دہ حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ معاشی نقظہ نظر بالکل مفقود ہے‘ مزید کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں۔
میری اپنی آدھی سے کچھ سال کم تدریسی زندگی کا تعلق ایک نجی جامعہ سے رہا ہے‘ تقریباً بائیس سال۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگوں کے بچے سرکاری جامعات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نجی شعبے میں کچھ معیاری تعلیم کے جزائر نما ادارے بھی وجود میں آ چکے ہیں۔ یہاں سامراجی دور سے ایک بنیادی چیز مختلف ہے۔ وہ یہ کہ عام آدمی کے بچے بھی وہاں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں کہ چند ایسی خیراتی جامعات میں ان کے لیے وظائف کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اصل بات تو اور ہے کہ ہم جدید جامعات میں جدید شعبوں اور علمی دھاروں کے ساتھ اپنی تہذیب‘ زبانوں اور ثقافتی رنگوں کو کیسے شامل کر سکتے ہیں۔ وہ جامعہ جہاں آخری بائیس سال گزرے‘ ایک مثالی ادارہ ہے کہ وہاں پنجابی‘ بلوچی‘سندھی اور پشتو زبانوں کے علاوہ عربی‘ فارسی‘ فرانسیسی اور اردو زبانوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ کاش آج کل کی سرکاری جامعات‘ جہاں بھی ہیں اور جس صوبے میں بھی ہیں‘ سب قومی زبانوں‘ اس کے تخلیقی ادارے‘ علاقائی تاریخ اور رنگا رنگ ثقافت کو بھی تعلیم کا حصہ بنائیں۔ ایسا بالکل ممکن ہے‘ اور اس جامعہ نے کر دکھایا ہے۔ بہترین بین الاقوامی کانفرنسیں جن میں شرکت کی اور لطف آیا‘ وہ قومی زبانوں پر تھی اور دوسری پنجابی عالمی کانفرنس۔ اس حوالے سے لاہور کھلے دل کے ساتھ آج بھی وہی لاہور ہے جس میں سب کے لیے اپنائیت ہے اور یہی اس کے دانشور کا مزاج بھی ہے۔ جدید تعلیم اور نئے ابھرتے علمی میدان ترقی کے لیے بے حد ضروری مگر ہمیں اپنی تہذیب اور ثقافتوں میں رنگے سماجی علوم کو کبھی بھی سائنس کے نام پر نظر انداز کرنے کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح جو سامراجی دور میں ہم نے کھویا‘ وہ ہم جدید علوم کے ساتھ مربوط کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved