تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     25-08-2025

ڈیجیٹل کرنسی کے معاشی اثرات

پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں اور کاروبار سے متعلق قوانین پر کام جاری ہے اور اس میں مرحلہ وار پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پاکستان کی ڈیجیٹل کرنسی میں عملی اقدامات 2021ء میں شروع ہو گئے تھے جب سٹیٹ بینک نے سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) کو بینکنگ ڈیجیٹائزیشن کے روڈ میپ میں شامل کیا تھا۔ اس کے بعد حکومتوں کی تبدیلی کے باعث معاملہ سست روی کا شکار رہا۔ جنوری 2025ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پوری دنیا میں کرپٹو کرنسی کو زیادہ سنجیدہ لیا گیا۔ پاکستان نے بھی مئی میں بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سنٹرز کے لیے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا اعلان کیا‘ جون میں بٹ کوائن ماہر اور ارب پتی مائیکل سیلر کو مشیر مقرر کیا گیا‘ جولائی میں صدرِ مملکت نے ''ورچوئل ایسٹس ایکٹ 2025ء‘‘ کی منظوری دی اور رواں ماہ جاپان میں قائم بلاک چین ٹیکنالوجی ڈویلپر سوار متسو کے ساتھ پاکستان میں CBDC پر کام کرنے کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے۔ دو روز قبل اسلام آباد میں بلاک چین اور ڈیجیٹل ایسٹس کے حوالے سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں کرپٹو کرنسی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے اداروں اور افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم بھی مدعو تھی۔ ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی (PVAR) کے آرڈیننس پر کام کرنے کے لیے پہلا اجلاس آج ہو رہا ہے جس میں پالیسی معاملات کے ایجنڈا آئٹمز کا جائزہ لیا جائے گا۔ شاید مستقبل میں پاکستانی حکومت سرکاری سطح پر ڈیجیٹل اثاثوں کی بڑی سٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ وزیرخزانہ نے بھی بیان دیا ہے کہ ڈیجیٹل سرمایہ کاری سستی‘ برق رفتار اور زیادہ شفافیت کی حامل ہے اور مستقبل میں ڈیجیٹل اثاثوں کا رجحان مزید بڑھے گا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان ڈیجیٹل کرنسی میں کس ماڈل کو فالو کر سکتا ہے اور کون سا ماڈل پاکستان کے لیے زیادہ مفید ہو سکتا ہے؟
دنیا میں اس وقت دو کوائنز مضبوطی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ بٹ کوائن اور ایتھریم۔ لیکن ان دونوں کے ماڈلز میں فرق ہے۔ بٹ کوائن کا مقصد ڈیجیٹل کرنسی اور آن لائن لین دین‘ پیئر ٹو پیئر (ایک سے دوسرے تک) ادائیگی کا نظام فراہم کرنا ہے جبکہ ایتھریم صرف ایک ڈیجیٹل کرنسی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ڈویلپرز کو سمارٹ کانٹریکٹس اور غیر مرکزی ایپلی کیشنز بنانے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ایتھریم کئی اعتبارسے بٹ کوائن سے بہتر سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس میں بٹ کوائن کی نسبت زیادہ لچک ہے اور یہ بٹ کوائن کی طرح صرف کرنسی کے لین دین تک محدود نہیں۔ ایتھریم کا نظام جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے جس میں کم کمپیوٹرز کی ضرورت ہوتی ہے اور توانائی کا استعمال بھی کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ بٹ کوائن سے زیادہ Energy Efficient سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان مستقبل میں ایتھریم ماڈل کو اپنانے کی کوشش کر سکتا ہے‘ جس میں اثاثوں کے بدلے ٹوکنز جاری کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت رئیل اسٹیٹ‘ گولڈ‘ پینٹنگز‘ آرٹ‘ بانڈز اور سٹاک کو ایتھریم کوائنز میں تبدیل کر کے ٹریڈ کیے جانے کا رجحان بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر کوئی شخص پکاسو کی پینٹنگ خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس پینٹنگ کے کوائنز خرید سکتا ہے اور اسے ٹریڈ کر کے منافع کما سکتا ہے۔ یہ کافی حد تک محفوظ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ روایتی مالیتی نظام میں بینکس‘ بروکرز اور ویئر ہاؤسز مڈل مین کے طور پر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے مکمل منافع اصل سرمایہ کار تک نہیں پہنچ پاتا۔ وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے اور خرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ٹوکن کے ذریعے اثاثوں کی تجارت 7/24 کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ رسپانس ٹائم بہت کم ہوتا ہے اور شفافیت بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ دنیا کے بڑے بینکس اس وقت ایتھریم ماڈل کو اپنا رہے ہیں۔ جے پی مورگن‘ بارکلیز‘ یو بی ایس‘ ایچ ایس بی سی‘ سٹیٹ سٹریٹ‘ ڈوئچے بینک‘ بی این وائے میلن ایتھرم ماڈل کو اپنا چکے ہیں۔ بلیک راک‘ سرکل‘ گلیکسی ڈیجیٹل‘ سکیورٹیز اینڈ کنسینسس جیسی بڑی ایسٹ مینجمنٹ کمپنیاں بھی ایتھریم نیٹ ورک پر کام کر رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ورلڈ بینک‘ کامن ویلتھ بینک آف آسٹریلیا‘ الہلال بینک اور جزال جیسے عالمی مالیاتی ادارے اثاثوں کو ٹوکنائزڈ کرنے کے لیے ایتھریم کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 900 ٹریلین ڈالرز رئیل اسٹیٹ‘ بانڈز اور دیگر اثاثوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اگر ان اثاثوں کا انتہائی معمولی حصہ بھی ٹوکنائز کر دیا جائے تو عام آدمی کی معاشی حالت تیزی سے بدلی جا سکتی ہے۔ اس نظام کے تحت پاکستان میں بیٹھا ایک بائیس سال کا عام نوجوان صرف ایک کلک سے کینیڈا کے سی این ٹاور کی ملکیت میں حصہ دار بن سکتا ہے۔ برج خلیفہ کے سلور کوائن خرید کر اس میں شراکت دار بنا جا سکتا ہے۔ انرجی فنڈرز نامی کمپنی نے ای این ایف ڈی نام کا ڈیجیٹل کوائن جاری کر کے یو ایس آئل اینڈ گیس کے کنوؤں کو ٹوکنائز کیا ہے جو کہ پہلے بڑے اداروں کے ذریعے خریدے اور بیچے جا سکتے تھے اور آج یہاں بیٹھے ایک عام آدمی کی دسترس میں بھی ہیں۔ سٹوکز نے پرانی اور نایاب گاڑیوں کو ایتھرم بیسڈ کوائنز کے ذریعے ٹوکنائزڈ کیا ہے۔ رولیکس ڈے ٹونا کو لکس کوائن کے ذریعے ٹوکنائز کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقی دنیا کے اثاثوں میں ملکیت حاصل کرنے کا آسان اور مؤثر طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی ڈیجیٹل کرنسی کو ایتھریم ماڈل پر آرگنائز کر سکتا ہے۔ یہ ایک اچھوتا تصور ہے جو آج کل کی نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً اڑھائی کروڑ پاکستانی بلاک چین سے منسلک کوائنز میں سرمایہ کاری سے جڑے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ لیکن اس معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ اگر اسے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریگولرائز نہ کیا جا سکا تو منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پاکستان ایک مرتبہ پھر فیٹف کی گرے لسٹ میں آ سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی چھ سالوں کی محنت کے بعد فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلا تھا۔ اب بھی آئی ایم ایف پاکستان میں منی لانڈرنگ سے متعلق تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ ان معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے پلان کے ساتھ سامنے آئیں گے جس سے دیگر ممالک بھی رہنمائی حاصل کر سکیں گے۔
پاکستان میں اس وقت لارج سکیل مینوفیکچرنگ بدحالی سے دوچار دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے سات سالوں سے اوسط گروتھ ایک فیصد سے بھی کم رہی جبکہ گزشتہ مالی سال میں 0.7 فیصد منفی گروتھ رپورٹ ہوئی جو سال 2001ء سے 2008ء تک تقریباً اوسط 10 فیصد تھی۔ 2008ء سے 2017ء تک کم ہو کر تقریباً 2.4 فیصد رہ گئی اور 2017ء سے 2024ء تک اوسط گروتھ 0.5 فیصد رہی۔ اس کی بڑی وجہ برآمدات میں اضافہ نہ ہونا ہے۔ مہنگی بجلی‘ زیادہ شرح سود‘ ایکسپورٹ سیکٹر پر 29 فیصد ٹیکس اور سیاسی عدم استحکام اس کی بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جی ڈی پی میں لارج سکیل مینو فیکچرنگ کا شیئر تقریباً 8 فیصد ہے لیکن ٹیکس میں اس کا شیئر تقریباً 19 فیصد ہے۔ 2007ء سے 2024ء تک بجلی کی قیمتوں میں سالانہ تقریباً 14 اور گیس کی قیمتوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جس سے منافع کم ہوا اور فیکٹریاں بند ہوئیں۔ اگر پاکستان میں بجلی بنگلہ دیش‘ بھارت اور ویتنام سے 59 فیصد‘ 25فیصد اور 104 فیصد مہنگی ہو گی تو پاکستان کا مال کون خریدے گا؟ اس کے علاوہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے قابو کرنے کی وجہ سے ایکسپورٹر اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ مئی کی آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق 2025-26ء میں ڈالر 315 روپے پر ہونا چاہیے۔ اس سے ایکسپورٹر کو فائدہ ہو سکتا ہے اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں گروتھ مثبت ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved