تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     18-11-2013

نفرت اور انتہا پسندی

دہشت گرد تنظیمیں، جیسا کہ نائیجیریا کی باکو حرم، مالی کی انصار دین اور پاکستان کے طالبان وغیرہ، مختلف ممالک میں کام کرتی ہیں لیکن اُن میں کچھ معاملات میں مشترکہ قدریں پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں تشدد اور انتہا پسندانہ رویوں پر یقین رکھنے کے علاوہ غیر شرعی تعلیم اور جدت پسندی کو ناپسند کرتی ہیں۔ اس انتہا پسند تنظیم نے آبادیوں اور گرجا گھروں پر حملے کر کے ہزاروں عیسائیوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان گنت نوجوان طلبہ کو ذبح کیا ہے۔ مالی میں جب تارج (Tuareg) اور غیر ملکی جہادیوں نے گزشتہ سال ٹمبکٹو کے قدیم قصبے پر یلغار کی تو اُن کا پہلا نشانہ بزرگان ِ دین اور علما کے مزارات بنے۔ اس قصبے میں قدیم عربی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ تھا جو دنیا بھر کے اسلامی سکالرز کے لیے باعثِ کشش تھا۔ القاعدہ اور انصار دین کے جنونیوں نے بیسیوں مسودات کو جلا دیا جبکہ کچھ کو مقامی افراد نے چرا کر بیرونی ممالک میں سمگل کر دیا۔ ’’نیویارک ری ویو‘‘ میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں جوشا ہیمر (Joshua Hammer) بیان کرتے ہیں کہ جب پاکستان، سعودی عرب، صومالیہ اور مالی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں نے ٹمبکٹو پر قبضہ کیا تو وہاں کیا قیامت ڈھائی۔۔۔’’عورتوں اور نوجوان لڑکیوں، جو حجاب کے بغیر نظر آتی تھیں، کو پکڑ کر بینک کے اے ٹی ایم بوتھ میں کئی دن کے لیے بند کر دیا جاتا تھا۔لا میسن ہوٹل میں شرعی عدالت قائم کی گئی ۔ اس کے سامنے چوروں کو لایا جاتا اور سر ِ عام کوڑے مارے جاتے۔۔۔ یا جرم کے مطابق ہاتھ یا سر کاٹے جاتے۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب فرانس کے فوجی دستوں نے ان کو وہاں سے مار بھگایا تو ٹمبکٹو کے عوام نے سکون کا سانس لیا۔ پاکستان میں جو لوگ طالبان کو اسلام کے مجاہد ( اور مرنے والوں کو شہید ) سمجھتے ہیں وہ ٹمبکٹو کے حالات کا جائزہ لیں کہ جب ان شدت پسندوں کو کسی معاشرے پر کنٹرول حاصل ہوجائے تو پھر یہ کتنے سفاک ثابت ہوتے ہیں۔ باکوحرم کے لیڈر محمد یوسف نے 2009ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا گول نہیں ہے، ڈارون کا ارتقا کا نظریہ درست نہیںہے اور بارش سمندر وں سے آبی بخارات اٹھنے کی وجہ سے نہیں برستی۔ دراصل سائنس کے مقابلے میں عقائد کو لانے کی غلطی تمام انتہا پسندوں اور ان کے لیے لڑنے والوں کا خاصا ہے۔ پاکستان بھی انتہا پسندی اور تنگ نظری کی اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں بھی ہماری نظروں کے سامنے ہزاروں سکولوں کو بموں سے اُڑا دیا گیا جبکہ شیو اور ڈی وی ڈی کی دکانوں کو زبردستی بند کرا دیا جاتا ہے۔ اس پر انتہا پسند اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان کے حامی یہ کہتے ہیں کہ یہ سکول اور سافٹ وئیر مغربی اقدار کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں کے لیے یہ مساوات بالکل واضح اور سیدھی ہے۔۔۔ ’’جدیدیت کا مطلب مغربیت ہے اور اس کا انجام گناہ ہے‘‘۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے لوگ جو جدید تعلیم کو کفر سمجھتے ہیں، جدید تعلیم سے وجود میں آنے والی ایجادات کے استعمال کو گناہ نہیں سمجھتے۔ ان کے اپنے استعمال میں جدید موبائل فون ، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے اور وہ اپنے مقاصد کے لیے ان کا بلاجھجک استعمال کرتے ہیں اور مہنگی ترین گاڑیاں بھی چلاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی اور پھر عورتوں کو مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانے سے بھی روک دیا۔ اس طرح بے شمار خواتین سسک سسک کر مر گئیں لیکن ہماری بہت سی مذہبی جماعتیں طالبان کے دور کو ابھی بھی سنہرا دور قرار دیتی ہیں۔ خواتین سے نفرت جہادی سوچ کا ایک اہم پہلو ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خواتین کو چاردیواری کے اندر بند رکھنا چاہیے۔ انہیں دی جانے والی تعلیم اُن کے اندر آزادی کے جذبے کو بھڑکا دیتی ہے۔ پاکستان کے بہت سے دقیانوسی خاندان یہی سوچ رکھتے ہیں۔ صدام حسین اور حافظ الاسد جیسے رہنما اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود خواتین کی تعلیم اور ترقی کے حامی رہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی ریاستوں میں اقلیتوںکو بھی مساوی حقوق فراہم کیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند ان حکمرانوں کو ان کی ’’کافرانہ پالیسیوں ‘‘ کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔ آج عراق میں خواتین کو مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں جبر کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے خواتین کو صدام حسین کی بعث پارٹی (Ba\'ath Party) سے کوئی شکایت نہ تھی۔ لیکن آج عراق مذہبی عصبیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ خواتین کی آزادی سلب ہو چکی ہے، سینکڑوں عیسائی باشندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر بار چھوڑ کر جانیں بچانے کے لیے ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ اگر شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹا جاتا ہے تو وہاںبھی یہی صورت ِ حال پیش آنے کا خدشہ ہے۔ انتہا پسند تنظیمیں جدیدیت اور سائنسی تصورات سے اس لیے نفرت کرتی ہیں کیونکہ ان کا فائدہ صرف وہی اٹھا سکتا ہے جو تعلیم یافتہ ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تمام عالم اسلام میں مدارس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن وہ انہیں دنیاوی تعلیمی دینے پر آمادہ نہیں۔ یہ دراصل بھول گئے ہیں کہ دنیا جس جدید تعلیم سے آج فیض یاب ہو رہی ہے، اس کی بنیاد کچھ صدیاں قبل مسلمان سکالرز نے ہی رکھی تھی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جدید دور میں مسلمانوں نے سائنسی علوم کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیںکیا لیکن یہ ان کا اپنا قصور ہے۔ جب ہم ایک ہزار سال تک جدید علوم کو کفر قرار دے کر ا ن سے اجتناب کریں گے تو پھر ہمارا وہی حشر ہو نا چاہیے تھا جو ہو رہا ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر سائنسی علوم سے دوری اختیار کی ہے، ہم نے عقائد کے نام پر تنگ نظری کو خود ہی فروغ دیا ہے، اس میں کسی نے ہمارے خلاف سازش نہیں کی۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب یورپ میں صنعتی انقلاب آ رہا تھا تو مسلمان جدید علوم سے کنارہ کشی اختیار کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا زوال کا شکار ہو گئی۔ یورپ میں کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہوئیں، درسگاہیں تعمیر ہوئیں اور وہ لوگ منڈیوں اور خام مال کی تلاش میں دنیا میں نکلے۔ ان کے بعد پادری بھی دیگر ممالک میں تبلیغ کرنے لگے۔ پھر ان کی افواج نے بھی دیگر ممالک میں قبضہ جما لیا۔ اس سے نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا۔ بہرحال مغربی حکومتوںنے ان ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد جدید تعلیم رائج کرنے کی کوشش کی لیکن مقامی رہنمائوں نے جدید تعلیم کو مغربی قرار دے کر مستر د کردیا۔ اُنھوںنے ہر ممکن کوشش کی کہ عوام قدیم طرز ِفکر سے دستبردار نہ ہوں اور جدید تعلیم حاصل نہ کریں۔ اس رویے نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جدید تعلیم سے دوری کی وجہ سے نہ صرف وہ معاشی طور پر پسماندہ رہ گئے ہیں بلکہ ان کے ہاں انتہا پسندی کے عفریت نے بھی سراٹھا لیا ہے۔ اب ان ممالک کے انتہا پسند گروہ تشدد کے ذریعے مغربی ممالک کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ قدیم سوچ کی وجہ سے سائنسی اور صنعتی طور پر باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اس لیے اُنھوںنے آگ اور خون کا کھیل شروع کررکھا ہے تاکہ دنیا کو اُس قدیم دور میں واپس دھکیل سکیں جب قلم اور کتاب کی بجائے تلوار کی حکمرانی تھی۔ چونکہ آج کی دنیا میں جدید تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور ناممکن ہے اور پھر اس میں بقول مولانا حالی۔۔۔’’پڑتی ہے محنت زیادہ‘‘ اس لیے لاکھوں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ مسلمانوںکے لیے اچھی زندگی کا خواب بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ اپنا آگ اور خون کا کھیل جاری رکھیں اور کتابوں سے نفرت کی پالیسی پر کاربند رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved