پہلا خفیہ اجلاس ایک محل میں ہو رہا تھا۔ بہت بڑے محل میں! اس محل میں کمرے لاتعداد تھے۔ ہر کمرے میں بیش بہا فرنیچر تھا۔ بیسیوں تو گیراج تھے۔ لان اتنے بڑے تھے کہ ہزاروں کا مجمع سما جائے۔ رہداریوں میں قیمتی قالین بچھے تھے۔ جھاڑ اور فانوس ایسے ایسے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ جائیں۔ سنہری وردیوں میں ملبوس خدام اور خوش شکل خادمائیں ہر طرف چل پھر رہی تھیں۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے بینڈ‘ ڈھول‘ شہنائیاں بجائی جا رہی تھیں۔ مسلح پہریدار چاروں طرف گھوم رہے تھے۔ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ ظہرانوں اور عشائیوں کے لیے درجنوں ماہر باورچی مامور کیے گئے تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے تیار کیے جا رہے تھے۔ صرف شربت ہی ایک سو سے زیادہ اقسام کے تھے۔ پنیر فرانس سے اور شہد آسٹریلیا سے منگوایا گیا تھا۔ پِزا تیار کرنے والے اٹلی سے آئے تھے۔ دنیا بھر کے پھل حاضر کیے گئے تھے۔
صدارتی مسند پر لاہور متمکن تھا۔ سٹیج پر کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور تشریف فرما تھے۔ سامنے حاضرین میں ان چاروں کے افسر‘ امرا‘ عمائدین اور قریبی حواری بیٹھے تھے۔ درباری مسخرے اور پیشہ ور نسلی خوشامدی صفیں باندھے‘ دست بستہ کھڑے تھے۔ ایک طرف پسندیدہ‘ چیدہ‘ گرگ ہائے باراں دیدہ‘ صحافی اور اینکر بیٹھے تھے۔ یہ وہ تھے جن پر پیہم نوازشات ہوتی تھیں۔ جو ابروؤں کے اشاروں پر چلتے تھے۔ ان کے قلم سونے کے تھے۔ زبانیں لمبی تھیں۔ انہیں جو لائن دی جاتی‘ اس پر اتنی مہارت سے چلتے کہ مجال ہے لائن سے ذرا بھی ادھر ادھر ہو جائیں۔ احکام کی تعمیل کرنے میں ان کا جواب نہ تھا۔ بس اشارے کی دیر تھی۔ کسی کی پگڑی اچھال دیتے اور کسی کو نوشیروان عادل قرار دیتے۔
اجلاس کی کارروائی لاہور کے خطاب سے آغاز ہوئی۔ لاہور غصے میں تھا۔ لاہور کی پیشانی شکن آلود تھی۔ لاہور کی آواز میں گھن گرج تھی۔ لاہور کے لہجے میں رعب اور جلال تھا۔ شکوہ اور دبدبہ تھا۔ شاہانہ طمطراق تھا۔ خاندانی افتخار تھا۔ لاہور نے واضح کیا کہ یہ جو نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ شاہی خاندانوں کی اجارہ داری کے خلاف ایک سازش ہے‘ ایک ہولناک سازش! کہ بقول شورش کاشمیری:
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ!
تختِ لاہور ایک مقدس تخت ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس پر بیٹھنے والے ہمیشہ شاہی خاندانوں کے چشم و چراغ رہے ہیں۔ آخر جو خاندان کئی عشروں سے اس تخت پر متمکن ہے‘ اسے ہٹانے کی سازش کیوں کی جا رہی ہے؟ تختِ لاہور کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ لاہور کی سلطنت دریائے سندھ سے لے کر واہگہ بارڈر تک اور کوہستانِ مری سے لے کر بہاولپور کی جنوبی سرحد تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ اتنی ہی رہے گی۔ اس میں وسعت تو ہو سکتی ہے‘ کمی نہیں ہو سکتی! یہ دلیل کہ دور افتادہ اضلاع کے لوگوں کو یہاں پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے‘ ایک مہمل دلیل ہے۔ فاصلہ کم ہو یا زیادہ‘ لاہورکا اور تختِ لاہور پر متمکن شاہی خاندان کا نام ہی مشکلات حل کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ ہمارے عمّال سلطنت کا کام بالکل درست اور اطمینان بخش طریقے سے چلا رہے ہیں۔ موجودہ سیٹ اَپ بہترین سیٹ اَپ ہے۔ لاہور اور تختِ لاہور زندہ‘ پائندہ اور تابندہ رہے گا۔
لاہور کے بعد مائیک کراچی کے ہاتھ میں دیا گیا۔ کراچی نے نئے صوبے بنانے کی تحریک کی دل کھول کر مذمت کی۔ اس نے اسے کراچی اور سندھ کے خلاف سازش قرار دیا اور عہد کیا کہ اس سانپ کا سر کچل دے گا۔ کراچی سندھ کا محافظ ہے۔ سندھ ایک اکائی ہے اور ہمیشہ اکائی ہی رہے گا۔ شاہی خاندان لاڑکانہ سے لے کر نواب شاہ اور کراچی تک پھیلا ہوا ہے۔ سندھ کو اس خاندان سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ کوئٹہ آیا تو اس نے سرداری نظام کی قسم کھا کر عہد کیا کہ بلوچستان ایک ہی انتظامی اکائی ہے اور ایک ہی رہے گا۔ پشاور نے بھی انہی جذبات کا ذکر کیا۔ ان چاروں کی ایک مشترکہ دلیل یہ تھی کہ آئین میں چاروں کا ذکر نام لے کر کیا گیا ہے۔ گویا مسئلے کو ختم کرکے سر بمہر کر دیا گیا ہے۔ اب اسے کھولا نہیں جا سکتا۔
دوسرا اجلاس ایک محلے کے اندر ایک بیٹھک میں ہو رہا تھا۔ یہاں ہٹو بچو کا کوئی ہنگامہ نہ تھا۔ قالینیں تھیں نہ فانوس۔ بکرے تھے نہ مرغے۔ پہریدار تھے نہ خدام کی صفیں! شرکا سادہ لباس تھے۔ چادریں اوڑھے تھے۔ ان کے جوتے پھٹے پرانے تھے۔ لباس بوسیدہ تھے۔ اس اجلاس میں شکار پور‘ گھوٹکی اور دادو تھے۔ جیکب آباد اور کشمور تھے۔ اس میں کوہستان اور چترال شریک تھے۔ مانسہرہ اور بٹ گرام تھے۔ ایبٹ آباد تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک تھے۔ لکی مروت اور بنوں تھے۔ اس میں ژوب اور موسیٰ خیل تھے۔ گوادر اور لسبیلہ تھے۔ حب اور پنجگور تھے۔ رحیم یار خان اور راجن پور تھے۔ ڈیرہ غازی خان اور بہاولنگر تھے۔ لودھراں اور ملتان تھے۔ مظفرگڑھ اور بھکر تھے۔ میانوالی اور اٹک تھے۔ راولپنڈی‘ مری اور چکوال تھے۔ یہ سب تختِ لاہور‘ تختِ کراچی‘ تختِ کوئٹہ اور تختِ پشاور کے ستائے ہوئے تھے۔ اپنے دور افتادہ گھروں سے لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ کی طرف چل چل کر یہ سب آبلہ پا‘ تشنہ لب اور خاک بر سر ہو چکے تھے۔ جب صوبے کا رقبہ ماپا جاتا تھا تو انہیں شامل کیا جاتا تھا مگر جب فنڈز‘ سہولتوں اور حقوق کا وقت آتا تھا تو انہیں بارہ پتھر باہر سمجھا جاتا تھا۔ وزرا اعلیٰ ان علاقوں کا رخ کبھی کبھی ہی کرتے تھے۔ ان اضلاع میں جو افسر تعینات ہوتے تھے‘ وہ لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور کے نمائندے ہوتے تھے۔ ان کا مقامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اجلاس میں ان اضلاع نے‘ اور ان شہروں نے‘ اس عزم کا اظہار اور اعادہ کیا کہ وہ اب مزید سفر نہیں کر سکتے۔ انہیں لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکنا ہے۔ انہیں ان کے مسائل کا حل اپنے دروازوں پر مطلوب ہے نہ کہ دوسروں کے دروازوں پر! لاہور کو اندازہ ہی نہیں کہ راجن پور‘ بہاولپور‘ اٹک اور میانوالی کن مسائل اور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاہور کی اکثریت کو تو شاید ان مقامات کا محلِ وقوع ہی معلوم نہ ہو۔ کراچی کے محلات میں رہنے والے گردن بلندوں کو کیا معلوم کہ گھوٹکی‘ شکار پور اور دادو کس چڑیا کا نام ہے۔ اس اجلاس میں مانسہرہ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان نے اپنی دریدہ قمیصیں اور تار تار پگڑیاں شرکا کے سامنے رکھ دیں اور سوال کیا کہ آخر وہ کب تک کشکول پکڑے پشاور کے دروازے پر کھڑے رہیں گے!
دونوں اجلاسوں میں فرق یہ تھا کہ پہلے اجلاس کی کارروائی خفیہ تھی! ہزار پردوں کے اندر! جب کہ دوسرے اجلاس کی کارروائی اعلانِ عام تھی اور ڈنکے کی چوٹ پر تھی!
پس نوشت۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے شہر لاہور کے مکینوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاہور سے نکل کر پشاور اور کراچی دیکھ کر آئیں‘ انہیں فرق پتا چل جائے گا۔ سعد رفیق صاحب دوسرے لیڈروں سے خاصے مختلف ہیں۔ اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ محنتی ہیں۔ ڈوبتی ہوئی ریلوے کی سانسیں بحال کرنے میں ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ مگر افسوس! جب تختِ لاہور کا معاملہ آتا ہے تو ان کی نظر بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ کم از کم ان جیسے اچھی شہرت رکھنے والے لیڈروں کو تو عینک کا شیشہ بدلوا لینا چاہیے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ لاہور والوں کو پشاور اور کراچی جانے کی ضرورت نہیں۔ لاہور والوں کو میانوالی‘ اٹک‘ چکوال‘ بہاولنگر‘ لودھراں‘ بہاولپور‘ بھکر اور ملتان دیکھ کر ہی لاہور کی قدر آجائے گی!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved