تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-08-2025

صفائی سے ہونے والی واردات… (1)

قارئین! کالم کے آغاز پر ہی میں اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر کسی نے سبز رنگ کے شیشوں والی عینک لگائی ہو تو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے اور دو تین ماہ قبل تک میری بھی یہی حالت تھی۔ میری گلی‘ جو سب سے صاف ستھری اور مثالی گلی تھی‘ اس گلی کا رہائشی ہونے کی بنیاد پر میں سمجھتا تھا کہ سارے شہر میں ایسی شاندار صفائی نہ سہی‘ مگر بہتر صفائی کی صورتحال ہو گی لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔
دو تین ماہ پہلے تک تو گلی نہایت صاف ستھری‘ جسے انگریزی میںneat and cleanکہتے ہیں‘ تھی۔ لیکن گزشتہ دو ماہ سے گلی کی صفائی کی صورتحال نہایت ناگفتہ بہ ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پہلے یہ گلی اپنے رہائشیوں کی قائم کردہ ایک چھوٹی سی سوسائٹی کے تحت چل رہی تھی۔ یعنی یہ گلی پرائیویٹ انتظامات کے تحت چل رہی تھی۔ اس گلی کے سارے رہائشی اپنی قائم کردہ اس سوسائٹی کو طے شدہ ماہانہ رقم دیتے تھے اور اس کے عوض رات کو ایک عدد سکیورٹی گارڈ اور گلی کی صفائی کے علاوہ دیگر ضروری سہولتیں از قسم ہر گھر کے ساتھ کوڑے دان کی تنصیب‘ روشنی کا انتظام اور گلی کی دونوں طرف گرین بیلٹ کا قیام اور اس کی غور وپرداخت شامل تھی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے چند گھروں کے مسلسل عدم تعاون کے باعث کئی عشرے تک کامیابی کے ساتھ اپنا فرض نبھانے والی سوسائٹی اپنے اختتام کو پہنچی۔ گلی کی صفائی کا انتظام پرائیویٹ سے دوبارہ سرکار کے کندھوں پر پڑا تو اس صاف ستھری گلی کی حقیقی شکل بھی دکھائی دینے لگ پڑی۔
میں معذرت خواہ اس بات پر ہوں کہ اپنی گلی میں صفائی کے پرائیویٹ انتظام کے باعث مثالی صورتحال کے زیر اثر میں خواہ مخواہ اس خوش فہمی کا شکار رہا کہ ہر طرف صفائی کی ایسی ہی صورتحال ہو گی‘ خاص طور پر جبکہ حکومت پنجاب نے صاف ستھرے پنجاب کی مہم نہ صرف شروع کر رکھی ہے بلکہ اس پر اربوں روپے خرچ بھی کر رہی ہے تو پھر اس کے وہ اثرات کیوں دکھائی نہیں دے رہے جو صوبے کی صفائی کا انتظام پرائیویٹ کمپنیوں کو دینے کے بعد نظر آنے چاہئیں تھے۔ میری گلی کا معاملہ جب تک سوسائٹی کے زیرانتظام پرائیویٹ صفائی کے بندوبست کے تحت چل رہا تھا مثالی تھا۔ اگر ایک گلی کا معاملہ درست ہو سکتا ہے تو سارے شہر کا معاملہ درست کیوں نہیں ہو سکتا‘ جبکہ اب شہروں کی صفائی سرکاری ذمہ داری سے نکل کر پرائیویٹ کمپنیوں کو منتقل ہو چکی ہے۔
اور اس بنیاد پر اس عاجز کا خیال ہے کہ معاملات آئیڈیل نہ سہی‘ مناسب حد تک تو بہتر ہونے چاہئیں مگر ادھر صفائی کی پرائیویٹ کمپنیاں بھی حکومت اور عوام کو اسی طرح چونا لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں جس طرح میونسپل کمیٹیوں‘ میونسپل کارپوریشنوں اور میٹروپولٹین کارپوریشنوں کے سرکاری افسر اور اہلکار اس نظام کے ساتھ کھلواڑ کر رہے تھے۔ میرا مؤقف ہے کہ شروع میں ہی گربہ کشتن روزِ اول کے اصول کے مطابق اگر اس نظام کو لگام نہ ڈالی گئی تو صاف ستھرے پنجاب کے لیے مختص تین سو ارب روپے جو ہمارے ٹیکسوں کے پیسے ہیں ٹھیکیدار مل بانٹ کر کھا جائیں گے۔
کیا دن تھے جب اسی شہر ملتان میں ایک عدد میونسپل کمیٹی ہوا کرتی تھی جس کا دفتر گھنٹہ گھر میں ہوتا تھا۔ شہر میں خاکروب صفائی کرتے ہوئے‘ جمعدار کوڑا اٹھاتے ہوئے‘ بہشتی چھڑکاؤ کرتے ہوئے اور سینیٹری انسپکٹرز صفائی کی صورتحال کی نگرانی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ قصہ لمبا ہے جس پر کبھی پھر سہی۔ فی الحال تو حالیہ منظر نامہ دیکھ کر ٹھنڈا سانس بھرنے کے علاوہ اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
ملتان میونسپل کمیٹیوں سے کارپوریشن بن گیا۔ صفائی کا عملہ دو چار سو سے بڑھتے بڑھتے چودہ پندرہ سو تک پہنچ گیا۔ ان چودہ پندرہ سو سینیٹری ورکرز میں سے چھ سات سو لوگ تو افسروں کے گھروں میں گم ہو گئے اور دو تین سو سیاسی اشیر باد کے پردے میں ڈیوٹی سے غائب ہو گئے۔ باقی بچ جانے والے پانچ سات سو سینیٹری ورکرز بھی کام کو ''چٹی‘‘ سمجھ کر کرتے تھے‘ لہٰذا شہر کا برا حال تھا۔ قارئین! ملتان کے نام پر آپ یہ مت سمجھیں کہ یہ صرف ملتان کا قصہ ہے۔ یہ شہر شہر کی کہانی ہے اور اس میں کہیں سرمو فرق نہیں ہے۔ اس ملک کے ہر شہر میں سو فیصد یہی صورتحال تھی۔ دنیا بھر میں یہ کام تھرڈ پارٹیاں سرانجام دے رہی ہیں۔ لہٰذا ادھر بھی اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر یہ فریضہ صفائی کی پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ سوائے تعلیم اور صحت کے سارے کام تھرڈ پارٹی کو‘ یعنی پرائیوٹ کمپنیوں کو دے دینا چاہیے۔ یہ کام نہ حکومت پہلے کر سکی ہے اور نہ اب ہو سکے گا۔
اس قسم کے معاملات اب باقاعدہ اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سرانجام دیے جاتے ہیں۔ شہر کی آبادی کو بنیاد بنا کر ساری کیلکولیشن کی جاتی ہے۔ روزانہ ردی اور کوڑا پیدا کرنے کی فی کس مقدار کو تحصیل کی آبادی پر منطبق کرکے ایک روز میں پیدا ہونے والے کوڑے کرکٹ اور ردی کے وزن کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ پھر اس سالڈ ویسٹ کو اکٹھا کرنے‘ اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا ایک طے شدہ میکانزم ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اتنے کوڑا کرکٹ کو اٹھا کر لینڈ فل کی منزل تک پہنچانے کیلئے کتنے افراد اور کتنی مشینری درکار ہے۔ اس سارے نظام کی بنیاد سرا سر حساب کتاب کے مطابق ہے۔ تحصیل کی کل آبادی‘ اس کی بنیاد پر پیدا شدہ سالڈ ویسٹ‘ اس سالڈ ویسٹ کے وزن کے مطابق طے شدہ افرادی قوت اور مشینری کی دستیابی یقینی بناتے ہوئے اعلیٰ معیار کی صفائی کرتے ہوئے اسے ٹھکانے کے عوض فی ٹن کوڑے کی بنیاد پر ادائیگی کے میکانزم میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ ہاں البتہ صفائی کا معیار ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اور یہی سب سے اہم شے تھی۔
پنجاب کی صفائی کا سارا انتظام سالڈ ویسٹ کمپنیوں کے بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کرنے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے اخبار میں اشتہارات دیے گئے اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق پنجاب کی تمام تحصیلوں کی صفائی کا ٹھیکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کردیا گیا۔ یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا اور پنجاب میں تحصیل کی سطح پر دیے جانے والے ان ٹھیکوں کی بولی لگانے والی تقریباً تمام کمپنیاں ہی اس کام میں بالکل نئی تھیں اور ان کو صفائی وغیرہ کا پہلے سے کوئی تجربہ نہ تھا۔ اللہ مجھے بدگمانی پر معاف کرے۔ ٹھیکہ حاصل کرنے والی تمام نہ سہی مگر اکثر کمپنیوں کا خیال تھا کہ اربوں روپے کا کام ہے‘ اوپر نیچے دے دلا کر تھوڑی صفائی اور تھوڑے بہت میک اَپ سے کام چلا لیا جائے گا۔ ایسی ایسی کمپنیوں نے یہ ٹھیکے حاصل کیے جن کا صفائی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بقول شاہ جی اس بہتی گنگا میں ایسی ایسی کمپنیوں نے ٹھیکے حاصل کر لیے جن کے چیف ایگزیکٹو نے شاید کبھی ڈھنگ سے اپنامنہ بھی نہیں دھویا تھا۔
جونہی اربوں روپے پر مشتمل یہ کام مارکیٹ میں آیا یار لوگوں نے راتوں رات صفائی کی کمپنیاں رجسٹرڈ کروائیں اور میدان میں کود پڑے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ عرصہ ہوا لاہور میں میونسپل کارپوریشن کی لیٹرینز کا ٹھیکہ نیلام ہوا تو ایک خاصی بڑی کنسٹرکشن کمپنی‘ جسے نہ صرف یہ کہ اس کام کا کوئی تجربہ نہ تھا بلکہ اسے ضرورت بھی نہیں تھی‘ نے لاہور کی لیٹرینز کا ٹھیکہ لے لیا۔ پنجاب کی کل 151 تحصیلوں کی صفائی کے ایک سال کے ٹھیکے کی رقم مبینہ طور پر 300 ارب روپے سے زیادہ تھی۔ ظاہر ہے اتنی بڑی رقم دیکھ کر بڑوں بڑوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور رال ٹپک پڑی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved