ایک وقت تھا جو تمام ہو چکا۔ آج پی ٹی آئی سے 9 مئی کی معافی کا تقاضا یا سنجیدہ‘ بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی توقع‘ جلتے بلتے ریگزاروں میں لالہ وگل کھلانے کی سعیٔ لاحاصل کے مترادف ہے۔ پے درپے غلطیوں اور بے حکمتیوں کی ماری یہ سوختہ بخت‘ ایک ایسے منطقے میں داخل ہو چکی ہے جہاں اُسے اپنے اعضا اور اعصاب پر قابو نہیں رہا۔ بے بال وپری کی یہ کیفیت اُسے کہاں لے جائے گی؟ پیش بینی محال ہے۔
'معافی‘ دو باتوں سے مشروط ہوتی ہے۔ پہلی 'اعتراف‘ اور دوسری 'تلافی‘۔ اعتراف‘ معافی سے پہلے کا مرحلہ ہے جب کوئی فرد صدقِ دل سے تسلیم کرتا ہے کہ ہاں واقعی مجھ سے غلطی کا ارتکاب ہوا ہے۔ اس اعتراف کے بعد لازم ٹھہرتا ہے کہ ہر نوع کی حیلہ سازی‘ بیانیہ بازی اور جواز تراشی کی ہلکی سے آلائش سے پاک‘ صاف‘ کھری اور واضح معافی مانگی جائے۔ معافی کے بعد 'تلافی‘ کا مرحلہ آتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ تائب ہو جانے والا فرد اپنی غلطی کے سبب قوم وملک کے اجتماعی نظم پر لگنے والے زخموں کی مرہم کاری کرے اور خود کو قانون کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔
کیا عمران خان یہ سب کچھ کر پانے کی سکت رکھتے ہیں؟ 'اعتراف، معافی اور تلافی‘ کی مثلث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عمران خان کے قبل از 9 مئی اور بعد از 9 مئی کے کردار اور رویوں پر نگاہ ڈالی جائے تو آج‘ سوا دو سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی ہوش مند شخص یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ موصوف کو اپنے کیے پر رتی بھر پشیمانی‘ ندامت یا پچھتاوا ہے۔ اس فتنہ گری کے دو دن بعد‘ 11 مئی کو‘ وہ اپنے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے‘ مرسڈیز میں سوار‘ ججوں کیلئے مخصوص دروازے سے گزرتے‘ جسٹس عمر عطا بندیال کی بارگاۂ عدل میں پہنچے تو 'گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر اُن کا استقبال کیا گیا۔ ابھی بھسم کر دی جانے والی دفاعی تنصیبات سے دھواں اُٹھ رہا تھا جب عالی مرتبت چیف جسٹس نے زیر حراست ملزم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ''آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ پولیس لائنز گیسٹ ہائوس میں رات گزاریں۔ گپ شپ لگائیں۔ سو جائیں اور صبح عدالت (اسلام آباد ہائیکورٹ) میں پیش ہو جائیں۔ آپ خاندان کے چھ ارکان بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ عدالت چاہتی ہے کہ آپ خود ملک میں فسادات کی مذمت کریں‘‘۔ خان صاحب نے فراخ دل عدلیہ کی تمام نوازشات سے فائدہ اٹھایا لیکن 9 مئی کے فسادات کی مذمت نہ کی۔
9 مئی پر عمران خان کا پہلا بے ساختہ ردِعمل یہ جملہ تھا کہ ''اگر رینجرز مجھے اس طرح گرفتار کریں گے تو عوامی ردِعمل بھی انہی کے خلاف ہو گا‘‘۔ پھر کئی پیرہن تبدیل کرتے ہوئے ''کارگاہِ بیانیہ ساز‘‘ نے اس مؤقف کا جامۂ زیبا پہنا کہ یہ سب کچھ فوج کا اپنا ''فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا ۔ عمران خان‘ ان کے سیاسی مقلدین اور پی ٹی آئی کے قائدین آج تک یہی بیانیہ لیے پھرتے ہیں۔ کچھ دن قبل قائم مقام چیئرمین بیرسٹر علی گوہر نے 9 مئی کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ہو گیا سو ہوگیا اب آگے بڑھنے کی بات کریں۔ اس پر سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص نے سرزنش نما گرفت کرتے ہوئے فوری ردِعمل دیا ''ہمارا 9 مئی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ فوج کا 'فالس فلیگ آپریشن‘ تھا جو ہمارے سر تھوپ دیا گیا‘‘۔ تین دن قبل ایک معروف ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی راہنما اسد قیصر نے دبنگ لہجے میں یہی موقف دہرایا۔ سو کہاں کا اعتراف‘ کون سی معافی اور کیسی تلافی؟
9 مئی سے پہلے بھی 9 مئی جیسے کئی سرکس لگ چکے تھے۔ توشہ خانہ کیس میں عدالت سے مسلسل غیر حاضر اور طلبی کے درجنوں نوٹسز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تو اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔ اسلام آباد پولیس کی ٹیم وارنٹ لیے لاہور پہنچی۔ مقامی پولیس کی معاونت سے‘ ملزم کی گرفتاری کے لیے زمان پاک کا رُخ کیا تو پی ٹی آئی کارکنوں کے جتھے بارود خانہ بنے بیٹھے تھے۔ عین اُس وقت عمران خان نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا ''پولیس مجھے گرفتار کرنے کے لیے باہر آ گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان جیل میں چلا جائے گا تو قوم سو جائے گی۔ آپ نے اس بات کو غلط ثابت کرنا ہے۔ آپ نے اپنے حقوق اور حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی ہے اور باہر نکلنا ہے۔ اگر میں جیل چلا جاتا ہوں یا یہ مجھے مار دیتے ہیں تو بھی آپ نے ثابت کرنا ہے کہ عمران خان کے بغیر بھی قوم جدوجہد کرے گی‘‘۔ اس پیغام نے کارکنوں کی رگوں میں چنگاریاں بھر دیں۔ وہ پولیس پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیوں‘ پتھروں‘ غلیلوں اور پٹرول بموں سے لیس سپاہ نے ایسا حصار کھینچا کہ پولیس ملزم کی رہائش گاہ میں داخل نہ ہو سکی۔ کئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ چونتیس زخمی ہسپتال پہنچے۔ ان میں سے بتّیس پولیس اہلکار اور دو عام شہری تھے۔
کیا یہ بھی فوج کا ''فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا؟ کیا پولیس پر حملہ کرنے والے بلوائی دراصل فوجی تھے؟ کیا آتشیں وڈیو بیان آئی ایس پی آر نے جاری کیا تھا؟
'معرکۂ زمان پارک‘ کے چار دن بعد‘ کم وبیش ایسا ہی میدانِ کارزار‘ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے سجا۔ خان صاحب ایک بھاری بھرکم قافلہ لیے توشہ خانہ کیس میں حاضری کیلئے اسلام آباد آئے۔ پہلے تو عمائدین اور وکلا نے واویلا کیا کہ ایف 8 کچہری میں بہت بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ خان صاحب سیشن کورٹ میں پیشی کیلئے وہاں نہیں آ سکتے۔ چنانچہ ملزم کی دلداری کیلئے عدالت‘ جوڈیشل کمپلیکس منتقل کر دی گئی۔ خان صاحب نے کہا کہ ''میری جان کو خطرہ ہے‘ میں گاڑی سے نیچے نہیں اتروں گا‘‘۔ سینکڑوں کارکن نعرے لگاتے‘ گالیوں کی بوچھاڑ کرتے‘ گاڑی کے گرد جمع رہے۔ ناچار عدالتی اہلکار حاضری رجسٹر لے کر گاڑی میں گیا جہاں ملزم نے حاضری لگائی۔ بپھرے ہجوم میں سے جانے کون یہ رجسٹر بھی اُڑا لے گیا۔ اس معرکے میں بھی نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ایک پولیس چیک پوسٹ‘ درجنوں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔ کیا 18 مارچ کی یہ غارت گری بھی فوج کا ''فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا؟
اسی طرح کا ایک تماشا 27 مارچ کو بھی لگا۔ اب کے بھی عمران خان ایک 'عظیم الشان‘ جلوس لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔ چیف جسٹس عمر فاروق نے وکیل سے پوچھا ''آپ لوگ ٹرائل کورٹ چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے ہیں؟‘‘ جواب ملا ''سر وہاں بہت ہجوم ہوتا ہے۔ میرے موکل کی جان کو خطرہ ہے‘‘۔ چیف جسٹس بولے ''جب آپ ہزاروں لوگ ساتھ لے کر آئیں گے تو امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہو گا‘‘۔ یہ سلسلہ اسی طور چلتا رہا۔ کارکنوں کی جنگی مشقیں بھی جاری رہیں۔ عمران خان کو ''ریڈ لائن‘‘ قرار دے ڈالا گیا۔ جذبات پر پیہم بارود پاشی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ 9 مئی کو عمران خان گرفتار ہوئے اور آتش فشاں پھٹ پڑا۔
سوا دو سال بعد بھی‘ پی ٹی آئی اعتراف سے کوسوں دور کھڑی‘ سارا الزام فوج کے سَر تھوپ رہی ہے۔ ایسے میں معافی کا تقاضا اور تلافی کی توقع‘ خوابِ پریشاں کے سوا کچھ نہیں۔ رہے سنجیدہ‘ بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات تو پی ٹی آئی کسی ایسی 'مشقِ بے آب ورنگ‘ کے لیے بنی ہی نہیں۔ سو انتظار کیجئے اور دیکھیے کہ تُند موجوں میں گھری‘ چرچراتے چوبی تختوں‘ پھٹے بادبانوں اور شکستہ پتواروں والی اس ناتواں کشتی پر کیا گزرتی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved