تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     27-08-2025

بنگلہ دیش: محبتوں کی تجدید

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحق ڈار کا بنگلہ دیش میں نہایت پُرتپاک خیرمقدم ہوا۔ مدتوں کے بچھڑے بھائی جب آپس میں گلے ملتے ہیں تو ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے وہاں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد آخری بار وہاں سے واپس پاکستان آتے ہوئے شکستہ دلوں کی ترجمانی ایک غزل میں کی تھی۔ اس غزل کا یہ شعر تو بہت معنی خیز تھا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
واقعی بہت سی برساتوں کے بعد بے داغ سبزے کی بہار نظر آنے لگی ہے۔
جب ڈار صاحب سے ایک بنگلہ دیشی صحافی نے 1971ء کے حوالے سے سوال پوچھا تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ مسائل حل ہو چکے‘ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے برادرانہ دورے سے سقوطِ ڈھاکہ کے فوری بعد نصیر ترابی صاحب کی بھی ایک غزل ہمیں یاد آ گئی۔ ترابی صاحب نے دل لگتی بات کہی تھی‘ جو ڈار صاحب کے حوالے سے ایک بار پھر اظہر من الشمس ہو کر دلوں کو گرما گئی ہے۔
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ کہ جیسے آشنائی نہ تھی
عداوتیں تھیں‘ تغافل تھا‘ رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
نصف صدی کے بعد بچھڑے بھائیوں کے ملاپ نے ثابت کر دیا کہ بس حالات کی ستم ظریفی تھی مگر نہ ادھر بے وفائی تھی نہ ہی اُدھر بے وفائی تھی۔ درمیان میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین ملاقاتیں اور رابطے تو ہوتے رہے مگر ایسی گرم جوشی جدائی کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آئی۔ اس کا بڑا واضح سبب یہ بھی تھا کہ بنگالی قوم پر سبز باغ دکھانے والوں کے کالے کرتوت آشکار ہو چکے ہیں۔ اگر گزرے زمانے کی تلخیوں اور زخموں کا شمار کرنے لگیں گے تو رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہونے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ 1971ء کی جدائی کے بعد چین سے نہ وہ سوئے اور نہ ہم سوئے۔ چند سطروں میں پس منظر سامنے آ جانا چاہیے تاکہ حال اور مستقبل کو حقیقی معنوں میں سنوارا جا سکے۔ اس زمانے کے ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق شیخ مجیب الرحمن کو 1971ء کے انتخابات کے لیے فری ہینڈ دے دیا۔ عوامی لیگ مقبول ضرور تھی مگر دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بھی عوام کی بڑی تعداد وابستہ تھی۔ عوامی لیگ کی ڈنڈا بردار فورس نے کسی اور جماعت بالخصوص جماعت اسلامی کو جلسہ تک نہ کرنے دیا۔ جب عوامی لیگ سوائے دو کے‘ مشرقی پاکستان کی ساری سیٹوں پر کامیاب ہو گئی تب جنرل یحییٰ نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار سونپے کے بجائے مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن شروع کرا دیا۔ باقی سب تاریخ ہے۔
جب شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے پہلے صدر کی حیثیت سے برسر اقتدار آئے تو انہوں نے جمہوری بنگلہ دیش بنانے اور جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنے کے بجائے اسے ذاتی دائمی اقتدار کا قلعہ بنانے کی کوشش کی۔ پھر 1975ء میں اپنی ہی فوج کے چند افسران کے ہاتھوں شیخ مجیب الرحمن اور اُن کے اکثر اہلِ خانہ قتل کر دیے گئے۔ پھر بنگلہ دیش میں فوجی انقلابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ مدت کے لیے خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر برسر اقتدار آ گئی۔ اس کے بعد 2010ء سے لے کر 2024ء تک شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد برسر اقتدار رہیں۔
انہوں نے بنگلہ دیش کو جمہوری بنانے کے بجائے وہاں بدترین سول آمریت کے وہ ریکارڈ قائم کیے جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ گزشتہ دنوں بیرونِ ملک مجھے کئی بنگلہ دیشی ڈاکٹروں‘ صحافیوں اور دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا۔ انہوں نے انتخابی دھاندلیوں سے لے کر جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو ٹارچر کرنے کے ایسے ایسے واقعات بیان کیے جنہیں دہرانے کا مجھے یارا نہیں۔ حیران ہو کر سوچتا ہوں کہ کیا کوئی عورت اتنی سنگدل اور ظالم ہو سکتی ہے۔ 2013ء سے 2016ء تک حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے پانچ نہایت واجب الاحترام رہنماؤں کو جرمِ بے گناہی کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکا دیا۔
اسی طرح مغربی پاکستان میں یہاں کی اکثریتی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو آل پاور فل بن کر 1971ء میں برسر اقتدار آئے۔ دیگر تمام منتخب پارٹیوں نے بھٹو صاحب سے مکمل تعاون کیا اور 1973ء کا متفقہ اسلامی جمہوری دستور بن گیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو ایک سول ڈکٹیٹر کے روپ میں کھل کر سامنے آ گئے۔ انہوں نے 23 مارچ 1973ء کو نیشنل عوامی پارٹی کے لیاقت باغ میں پُرامن جلسے پر ایف ایس ایف سے بدترین فائرنگ کرائی۔ صوبہ سرحد سے آئے ایک درجن سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ پاکستان میں اگر ذوالفقار علی بھٹو دو تہائی اکثریت والے ذاتی اقتدار کے لیے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی نہ کرتے اور سیاسی مخالفین پر مظالم نہ ڈھاتے اور نہ ہی صوبہ سرحد وبلوچستان کی صوبائی حکومتیں ختم کر کے گورنر راج لگاتے‘ اس کے برعکس جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق پروان چڑھاتے تو پھر یہاں کبھی مداخلت کے ذریعے منتخب حکومتیں بزور بندوق نہ گرائی جاتیں۔ اس سول آمریت کی بنا پر بھٹو جیسے مقبول لیڈرکو ایک المناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ ابھی تک یہاں پاکستان میں قرار نہیں آیا۔ کبھی جمہوریت‘ کبھی آمریت اور کبھی دونوں کا ملغوبہ۔
جناب اسحق ڈار نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین چھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ان معاہدوں میں تعلیم‘ تجارت‘ میڈیا‘ پاک بنگلہ نالج کوریڈور وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم مجھے قوی امید ہے کہ ڈار صاحب نے مشیر اعظم ڈاکٹر محمد یونس‘ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا اور امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈاکٹر شفیق الرحمن سے ملاقاتیں کر کے کچھ اور بھی زبانی پیغام دیا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ جہاں تک سفارتکاری کی نزاکتیں اجازت دیتی ہوں گی ڈار صاحب نے بی این پی کی خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر شفیق الرحمن کو باہمی انتخابی برکات سے آگاہ کیا ہو گا۔ خالدہ ضیا کی سابقہ حکومت کے ساتھ میاں نواز شریف کی 1998ء والی وزارت عظمیٰ کے دوران بہت اچھے روابط تھے۔ ڈار صاحب نے بنگلہ دیش کے امیر جماعت اسلامی سے اُن کی عظیم قربانیوں پر اظہارِ ہمدردی بھی کیا ہوگا۔ شیخ حسینہ واجد کے خلاف طلبہ مہم کے روح رواں ناہید اسلام نے بھی اپنی سیاسی جماعت رجسٹر کروا لی ہے۔ نیشنل سٹیزن پارٹی! تاہم اس سیاسی جماعت کو عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ اگرچہ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے انسانی حقوق کو برُی طرح پامال کرنے کی پاداش میں عوامی لیگ کی رجسٹریشن معطل کر دی ہے۔ اب وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گی۔ تاہم عوامی لیگ کے مراعات یافتہ لوگوں کی ابھی تک اس پارٹی کے ساتھ ہمدردیاں ہیں۔ مشیر اعظم ڈاکٹر یونس نے اپریل 2026ء میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں پائیدار جمہوریت کی خاطر بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا کی بی این پی اور جماعت اسلامی کا انتخابی اتحاد ہو نا چاہیے۔ جماعت اسلامی کو کسی ایسے مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ نہیں‘ اگلا انتخاب اُن کا ہوگا۔ اسی طرح بنگلہ دیشی امیر جماعت ڈاکٹر شفیق الرحمن کو اس سراب سے بھی آنکھیں بچانا ہوں گی کہ ہم اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑیں گے۔ بنگلہ دیش کے جمہوری مستقبل کے لیے بی این پی اور جماعت اسلامی کا اتحاد ازبسکہ ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved