تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-08-2025

تشدد اور عدم برداشت کی روک تھام

ہمارا معاشرہ دیگر کئی عصری معاشروں کی طرح تشدد اور عدم برداشت کی لپیٹ میں ہے۔ معاشرے میں کئی مرتبہ معمولی تنازعات پر لوگ لڑائی جھگڑا کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اس عدم برداشت اور تشدد کا مظاہرہ کئی مرتبہ گھریلو سطح پر مارپیٹ اور تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے‘ لیکن اس کا بدترین اور افسوسناک پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب معمولی تنازعات اور جھگڑوں کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو جان سے مار ڈالتے ہیں۔ چند روز قبل رائیونڈ میں ایک پھل فروش اور گاہکوں میں ہونے والا تنازع اس وقت سنگین صورت اختیار کر گیا جب پھل خریدنے والے دو نوجوان بھائیوں پر تشدد کرکے ان کو قتل کر دیا گیا۔ اس سانحے کی وجہ فقط تیس روپے کا لین دین بتلایا جاتا ہے۔ انسانی جان کی قدر ومنزلت اس قدر زیادہ ہے کہ کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی سورۃ المائدہ کی آیت: 32 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جس نے کسی انسان کو خون کے قصاص کے بغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کسی مومن کے قتل کی سنگینی کو بھی بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت: 93 میں ارشاد ربانی ہے ''اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے‘ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی ایک انسان یا مسلمان کی جان کو تلف کرنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جب لوگ عدم برداشت کے راستے پر چل نکلتے ہیں تو تمام باتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جب ہم ان رویوں پر غور وخوض کرتے ہیں تو اس کی متعدد وجوہات سامنے آتی ہیں‘ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1۔ معاشی ناہمواری: ہمارا معاشرہ معاشی طور پر ناہمواری کا شکار ہے اور لوگوں کو اپنی جائز ضروریات کو پوراکرنے کیلئے بھی سخت محنت کرنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد احساسِ محرومی کا شکار رہتی ہے۔ اس احساسِ محرومی کی وجہ سے انسان کئی مرتبہ بغیر وجہ کے بھی لڑائی جھگڑا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ معاشی ناہمواری کو دور کرنے کیلئے حکومتی سطح پر مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے اور معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کاروبار اور ملازمت کے ذرائع کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی مؤثر حکمت عملی کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 2۔ حد سے بڑی ہوئی اَنانیت: ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر انانیت حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے اور مساواتِ بنی آدم کا تصور انتہائی کمزور پڑ چکا ہے۔ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر کالوں‘ گوروں‘ عربیوں‘ عجمیوں الغرض پوری انسانیت کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا تھا۔ آج اگر کسی کے پاس وسائل یا مادی قوت زیادہ ہو جائے یا اس کو شہرت‘ دولت یا منصب حاصل ہو جائے تو وہ دوسرے انسانوں کو انسان سمجھنے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ حد سے بڑی ہوئی انانیت کو کم کرنا اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر سمجھنا‘ یہ انتہائی ضروری ہے جس کیلئے معاشرے میں علماء‘ اساتذہ‘ والدین‘ عزیز واقارب اور سرپرستوں کو اپنے ماتحتوں اور عزیزوں کی ذہن سازی کے لیے مؤثرکردار ادا کرنا چاہیے۔
3۔ شرعی تعلیمات سے دوری: ہمارے معاشرے میں لوگوں کی بڑی تعداد شرعی تعلیمات سے صحیح طور پر آگاہ نہیں جس کی وجہ سے لوگ صبر اور برداشت کے اجر کو بالعموم نہیں سمجھ پاتے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی مقامات پر صبر کرنے والوں کی عظمت اور ان کے فضائل کو واضح کیا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں لوگ بے صبری اور عجلت پسندی کا شکار ہیں۔ ہر شخص اپنے حقوق کے حصول کیلئے جلد بازی سے کام لیتا اور دوسرے انسانوں کی حق تلفی کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ صبر کے فضائل اور اجر کے ساتھ ساتھ اخوت اور ایثار کی اہمیت کو بھی شریعت نے بڑی صراحت کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا اور ایک دوسرے کے کام آنے کی بڑی وضاحت کے ساتھ تلقین کی گئی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس حوالے سے ہمارے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انصاری صحابہ کرامؓ نے مہاجرین کیلئے اپنے گھر بار اور وسائل کو پوری طرح وقف کرکے اس بات کو پوری طرح ثابت کر دیا تھا کہ وہ مہاجرین کو اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ اگر معاشرے میں اخوت اور ایثار کو فروغ حاصل ہو جائے تو یقینا معاشرے میں لوگ دوسرے انسان کی عزت اور جان ومال کے بارے میں جارحیت کا ارتکاب کرنے سے باز رہ سکتے ہیں۔ 4۔ جرم وسزا کا کمزور نظام: ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے فروغ کی ایک بہت بڑی وجہ لوگوں کے قانون کے بارے منفی تاثرات ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون کا اطلاق اگر یکساں ہو تو معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہر ظلم وزیادتی کرنے والا فرد قانون کی مضبوط گرفت کے خوف سے دوسرے شخص پرزیادتی کرنے سے باز رہ سکتا ہے۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے اس طرح کی مثالیں بڑی کثرت کے ساتھ مل سکتی ہیں کہ آپﷺ نے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثرسزائیں دیں۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذ یل ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریمﷺ کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے دودھ کا انتظام کر دیجیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں دودھ فراہم نہیں کر سکتا‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جائو اور ان کا دودھ وغیرہ پیو تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں چلے گئے اور پھر جب تندرست ہو گئے تو بعد میں اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر کیا۔ ایک شخص نے اس کی خبر آنحضرتﷺ کو دی تو آپﷺ نے ان کی تلاش کیلئے سوار دوڑائے۔ دوپہر سے پہلے ہی وہ انہیں پکڑ کر لے آئے۔ ان افراد کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے گئے‘ پھر آپﷺ کے حکم پر ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی گئی اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں پھینک دیا گیا۔یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی۔ اس کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! بالآخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺ کو بہت عزیز ہیں‘ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت اسامہؓ نے آپﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ ! کیا تُو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں فرمایا:) پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
اگر مذکورہ نکات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو معاشرے سے تشدد اور عدم برداشت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ معاشرے کے تمام طبقات کو اس مقصد کیلئے کام کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved