تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-08-2025

صفائی سے ہونے والی واردات…(آخری )

اس ریاست کے تقریباً تمام ادارے اور ان کی زیرِنگرانی کام کرنے والے افراد اور پرائیویٹ کمپنیاں اس ملک کے وسائل کو مل بانٹ کر انجمنِ امداد باہمی کی طرز پر لوٹ کھسوٹ رہے ہیں۔ تعمیرات اور سروسز کے شعبہ میں ٹھیکیداروں یعنی کنٹریکٹرز نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے ہیں کہ اگر ان طریقوں کے حقوق محفوظ کر کے ان پر رائلٹی وصول کرنے کا قانون بن جائے تو ہمارے ٹھیکیدار اس مد میں بھی اربوں روپے کما سکتے ہیں۔
شاید پنجاب حکومت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ملک کے سرکاری محکمے‘ جو اپنا ہی پھیلایا ہوا گند صاف کرنے سے عاری و قاصر ہیں‘ ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ دوسروں کا پھیلایا ہوا گند صاف کر سکیں۔ سو اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بوجھ سرکار کے کندھے سے اتار کر پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ حکمرانوں کی خرابیاں اپنی جگہ تاہم اگر کسی کام کی درست سمت متعین کر دی جائے تو اس کی توصیف تو بنتی ہے۔ میں دنیا کے درجنوں ممالک پھرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہاں اس قسم کے سارے کام تھرڈ پارٹی کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔ ہاں! البتہ فرق یہ ہے کہ وہاں سرکاری سطح پر تھرڈ پارٹی کے کام کی مانیٹرنگ اور معاہدے سے روگردانی کے معاملے میں قوانین بہت سخت ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی پوری ریاستی طاقت سے کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اول تو نااہل سرکاری افسر اپنی تمام تر نالائقی اور بے ایمانی کے باوجود یہ کام کسی اور کے سپرد کرنے کی راہ میں مزاحم ہیں اور اگر ان کا کام آؤٹ سورس کر دیا جائے تو پہلے اگر اس کام سے ایک ادارہ کھانچہ لگا رہا ہوتا ہے تو پھر اس کھانچے کے دو حصے دار بن جاتے ہیں اور غتربود ہونے والی رقم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
پنجاب حکومت نے صحتِ عامہ اور شہری صفائی کی ناگفتہ بہ صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ستھرا پنجاب کے نام سے صوبہ بھر کی صفائی کا انتظام و انصرام اپنی بنائی ہوئی سالڈ ویسٹ کمپنیوں کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا اور جہاں سالڈ ویسٹ کمپنیاں موجود نہیں تھیں وہاں ان کو قائم کرتے ہوئے اپنے ویژن کو آگے بڑھایا اور بارہ پندرہ تحصیلوں کے علاوہ دیگر 151 تحصیلوں میں پرائیویٹ کنٹریکٹرز کی صورت میں نجی کمپنیوں کے ذریعے صوبے کی صفائی کا بیڑہ اٹھایا۔
جب میں لکھتا ہوں کہ صوبائی حکومت نے صفائی کی مد میں تین سو ارب روپے کا سالانہ بجٹ مختص کیا تو ایمانداری کی بات ہے مجھے خود یقین نہیں آتا کہ صرف اس صوبے میں پھیلا ہوا گند اٹھانے پر اتنا خرچ ہو سکتا ہے؟ لیکن یہی حقیقت ہے۔ اتنی بڑی رقم دیکھ کر بہت سے کاریگر میدان میں آ گئے۔ ایسے ایسے غیر متعلق لوگ اس کام میں کود پڑے ہیں جن کے پاس اس کام کا رتی برابر بھی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اس سے پہلے اس قسم کا کام پرائیویٹ سیکٹر میں کرنے کا کوئی رواج ہی نہیں تھا تو تجربہ کار لوگ کہاں سے آتے؟ تحصیل کی سطح پر صفائی کے نظام کو چلانے کے لیے سینکڑوں صفائی والے ورکرز‘ صفائی کے آلات‘ لوڈر رکشے‘ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے لینڈ فل کا اہتمام اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق اس کا ڈسپوزل۔ یہ کام بہرحال آسان بھی نہیں اور مسلسل نگرانی کا متقاضی بھی ہے۔ مجھے پنجاب کے دیگر شہروں اور تحصیلوں میں صفائی کی حقیقی صورتحال اور اس کی نگرانی کے معیار کا تو زیادہ علم نہیں؛ البتہ گزشتہ دنوں ملتان ڈویژن کی دو تحصیلوں میلسی اور بورے والا کی صفائی پر مامور کمپنی کا کنٹریکٹ کینسل ہونے کی خبر پڑھی اور اس سلسلے میں دوستوں اور باعلم لوگوں سے رابطہ کر کے تفصیلات معلوم کیں تو بڑے چشم کشا حقائق سے آگاہی ہوئی۔ ان دونوں تحصیلوں کی صفائی کا ٹھیکہ ایک ہی کمپنی کے پاس تھا‘ بلکہ صرف یہی دو تحصیلیں نہیں‘ اس کمپنی کے پاس پنجاب بھر میں 22تحصیلوں کی صفائی کا کنٹریکٹ ہے۔ اس کمپنی کا کل تجربہ ایک بس سروس چلانے کا ہے اور آج کل اس کی بسوں کی اپنی صفائی کی صورتحال بھی قابلِ فخر نہیں ہے۔
میلسی اور بورے والا کے دوستوں سے پوچھا تو علم ہوا کہ ان تحصیلوں میں صفائی پر مامور اس کمپنی کا کنٹریکٹ منسوخ کرنے کے پیچھے ناقص کارکردگی اور عوامی شکایات کے علاوہ اور کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔ کمپنی کا خیال تھا کہ سب کچھ امدادِ باہمی سے چلا لیا جائے گا مگر آج کے دور میں جبکہ سوشل میڈیا آزاد ہے‘ سرکاری پورٹل شکایات کے لیے میسر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سلسلے میں کمشنر ملتان ڈویژن ‘ اس سارے نظام کو خود مانیٹر بھی کر رہا تھا اور اس معاملے میں ملتان ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بھی صوبائی حکومت کے اس نئے نظام کو پورے خلوص کے ساتھ چلانے کا ارادہ کیے بیٹھی تھی۔ کمشنر ملتان ڈویژن اس سلسلے میں نہ صرف خود کسی دباؤ میں نہیں آیا بلکہ اس نے سالڈ ویسٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اصولی مؤقف کا مکمل ساتھ دیا۔
ایک واقفِ حال نے بتایا کہ یہ صرف دو تحصیلوں کا معاملہ نہیں۔ یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے اور ان دو تحصیلوں کے ٹھیکوں کی منسوخی ایک ایسا ابتدائیہ ہے جس کو مثال بنا کر اور بہت سی جگہوں پر یہ سب کچھ دہرایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں بورڈ اور کمشنر ملتان پر اتنا سفارشی دباؤ تھا کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میں نے پوچھا آخر ان دو تحصیلوں کی صفائی کا بجٹ ہی کتنا تھا جس پر اتنا شور و غوغا ہے کہ ایک ٹی وی چینل نے کمشنر ملتان کے خلاف پورا پروگرام کرڈالا۔ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا: شاید آپ کو علم نہیں کہ ان دو تحصیلوں میں ٹھیکہ منسوخ ہونے والی کمپنی اور پروگرام کرنے والے اندر خانے ایک ہی ہیں۔ اب آپ کو اس پروگرام کی حقیقت بھی سمجھ آ گئی ہو گی۔ رہ گئی بات ان دو تحصیلوں کے صفائی کے بجٹ کی تو میلسی میں کمپنی نے روزانہ کم از کم 330 ٹن کوڑا کرکٹ اٹھانا تھا اور اس کو عوض چار سال میں سات ارب چالیس کروڑ روپے کی ادائیگی طے تھی‘ یعنی سالانہ ایک ارب پچاسی کروڑ روپے جو پچاس لاکھ روپے روزانہ بنتے ہیں۔ اسی طرح بورے والا میں کم از کم 396 ٹن روزانہ کی سالڈ ویسٹ اٹھانے کے عوض چار سال میں سات ارب پچاس کروڑ یعنی سالانہ ایک ارب ستاسی کروڑ پچاس لاکھ‘ جو روزانہ کے اکیاون لاکھ چھتیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ اب آپ کو اس ساری صورتحال کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔
معاملہ یہ تھا کہ کمپنی نے معاہدے کے مطابق طے شدہ افرادی قوت‘ مشینری و آلات اور ڈسپوزل کے معاملات اور صفائی کے معیار کے بجائے خود ساختہ اعداد و شمار کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی۔ شہروں کے مرکزی علاقوں‘ وی آئی پی روٹس اور رہائشی علاقوں کی صفائی کے علاوہ صرف ان علاقوں کی صفائی ہوتی تھی جہاں سے شکایات آتی تھیں۔ باقی ساری عوام اور علاقے اللہ کے سپرد تھے۔ شکر ہے کہ کوئی ابتدا ہوئی ہے اور خدا کرے یہ توفیق سب کو عطا ہو کہ وہ ہمارے ٹیکس کی رقم کے ضیاع کو روکیں۔ باقی تحصیلوں کی نگرانی پر متعین بورڈز اور افسروں کے لیے یہ معاملہ چراغِ راہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کام پرائیویٹ کنٹریکٹرز نے ہی کرنا ہے تو پھر سرکاری افسروں کی فوج ظفر موج کا کیا جواز ہے؟ بلکہ صرف صفائی کا معاملہ ہی کیوں؟جو ادارہ‘ محکمہ‘ شعبہ اور کام تھرڈ پارٹی کے حوالے ہو رہا ہے اس کے سرکاری افسروں میں کمی کیوں نہیں ہو رہی۔ سارا نظام پرائیویٹ کرنا ہے تو سرکاری افسروں کی فوج کا کیا جواز ہے؟ جب کام نہیں صرف نگرانی کرنی ہے تو صرف اتنے ہی لوگ درکار ہیں جتنے دیگر ممالک میں ہوتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ تھرڈ پارٹی نظام تو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہو جبکہ محکمے اور افسروں کی فوج حسب سابق والی ہو۔
بیورو کریسی کی یہ واردات بھی صفائی کی مانند ایسی واردات ہے جو نہایت صفائی سے کی جا رہی ہے۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved