بظاہر تو مسئلہ اتنا سا ہے کہ پھول میں پنکھڑیاں کتنی ہونی چاہئیں؟ چھ‘ سات یا اس سے زیادہ۔ کیسے یہ پھول حسین تر بنایا جا سکے گا؟ پاکستان کی انتظامی اکائیوں کی پرانی بحث تازہ ہوئی ہے۔ کالم نویسوں نے اپنی اپنی آرا ء پیش کی ہیں جن میں مہربان دوست جناب خورشید ندیم کا وقیع کالم بھی شامل ہے۔ اس وقت اس معاملے کو اٹھانے پر بھی شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس بار اس معاملے کو پنجاب کی ایک طاقتور آواز نے اٹھایا ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ میاں عامر محمود تعلیمی اداروں کے ایک وسیع سلسلے کے بانی ہیں‘ بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ ہیں اور 2001ء سے 2009ء تک ضلع ناظم لاہور کی حیثیت سے بلدیاتی نظام کا اہم حصہ بھی رہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ان کیلئے احترام موجود ہے؛ چنانچہ ان کی تجاویز اور تجزیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میاں عامر محمود نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (APSUP) سے خطاب کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کہیں جن میں پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام ہی کو بہترین راستہ اور آئین پر مکمل عملدرآمد کی صورت قرار دیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان صوبوں کی تشکیل کردہ ایک فیڈریشن ہے جبکہ اسے ایسی فیڈریشن ہونا چاہیے جو صوبے تشکیل دے۔ انہوں نے صوبوں کی تشکیل کی تجاویز بھی دیں۔انہی دنوں ایک معاشی تھنک ٹینک 'اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ‘ نے بھی نئے صوبوں سے متعلق تجاویز پیش کی ہیں۔
میں انہی صفحات میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما جناب ظفر احمد انصاری‘ جنہیں 1983ء میں انصاری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا تھا‘ میرے والد مرحوم زکی کیفی کے عزیز دوست تھے اور لاہور میں ہمارے گھر ہی میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح میرے عم مکرم مولانا جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی بھی اس انصاری کمیشن کے رکن تھے۔ چنانچہ اس دور میں ہمارے گھر میں جو میٹنگز اور بحثیں ہوا کرتی تھیں‘ مہمان نوازی کے دوران آتے جاتے بہت سی باتیں کان میں پڑتی تھیں‘ یا بطور سامع ان میں شرکت کا موقع مل جاتا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ملک میں بہت سے لسانی اور انتظامی مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ سب اکابرین کا متفقہ نظریہ یہی تھا کہ ان سب انتظامی‘ لسانی مسائل کا حل زیادہ صوبوں اور طاقتور وفاق میں ہے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے جب انصاری کمیشن بنایا تو اس میں ان حضرات نے یہی رائے پیش کی تھی اور موجودہ صوبوں کوغالباً 12چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی‘ جو انتظامی اکائیاں ہوں‘ لسانی یا ثقافتی بنیاد پر نہ ہوں۔ ایسے کمیشنوں کا مقدر‘ جن کے پاس قوتِ نافذہ نہ ہو‘ ایک سا رہا۔ بدقسمتی سے انصاری کمیشن کی تجاویز بھی سرکاری سرد مہری کی نذر ہو کر رہ گئیں۔ اس وقت افغانستان کی جنگ اور دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے‘ جن کی وجہ سے جنرل ضیا کی حکومت نے اس معاملے کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا ہوگا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت صوبوں کے بارے میں ان تجاویز پر عمل کر لیا جاتا تو بیشمار مسائل جو بعد میں پیدا ہوئے‘ جنم ہی نہ لیتے۔ اس دور میں یہ فیصلہ اور اس پر عملدرآمد نسبتاً آسان ہوتا جو بعد میں مشکل ہوتا چلا گیا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کچھ صوبے بڑے ہیں اور کچھ چھوٹے۔ بڑے صوبوں کے پاس زیادہ طاقت ہے اور آبادی کے تناسب سے وفاق سے زیادہ وسائل بھی انہیں ملتے ہیں۔ اس میں جو چھوٹے صوبوں کو شکایات ہوتی ہیں‘ وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور انہی سے بے شمار مسائل جنم لیتے رہے ہیں۔ میں اس تفصیل میں نہیں جا رہا لیکن ایک اور صورت تصور کیجیے۔ فرض کر لیجیے کہ یہ سب صوبے برابر طاقت کے حامل ہوتے اور ان کے سامنے وفاق کمزور ہو کر رہتا تو کیا یہ آئیڈیل صورت ہوتی؟ کیا صوبوں کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ وفاق اور مرکز سے زبردستی اپنی بات منوا سکیں۔ اگر انتظامی یونٹ ایک وفاق کے تحت ہیں تو وفاق ہی کو مضبوط ہونا چاہیے اور کسی صوبے کو سیاسی‘ افرادی اور مالی لحاظ سے اتنا طاقتور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ وفاق کو اپنی مرضی پر چلا سکے۔ لیکن اس وقت انتظامی یونٹس میں آبادی کی تقسیم اس طرح ہے کہ طاقت بڑے یونٹوں کے پاس مرتکز ہو جاتی ہے۔ یہ ختم ہونی چاہیے۔
مجھے دہلی کے بادشاہ گر بھائی یاد آتے ہیں۔ سید عبداللہ خان اور سید حسین خان‘ آخری مغلیہ دور کے وہ دو امیر تھے جو نہایت طاقتور ہونے کی وجہ سے دربار کے اصل حاکم بن چکے تھے اور فوج پر بھی کنٹرول رکھتے تھے۔ ان بھائیوں نے یکے بعد دیگرے چھ بادشاہوں کو تخت پر بٹھایا اور معزول کیا۔ ان بادشاہوں کی قسمت میں کبھی اپنے ملازموں کے ہاتھوں قتل ہونا‘ کبھی اندھے ہونا اور کبھی معزول ہونا تھا۔ جب صوبے اور ادارے اتنے طاقتور ہو جائیں کہ مرکز کو آنکھیں دکھانے لگیں تو انتشار اور افراتفری اسی طرح پھیلتی ہے جیسی مغل حکومت میں پھیلی تھی۔ کمزور بادشاہ‘ محمد شاہ رنگیلے کی دلّی پر اگر نادر شاہ نے قبضہ کرکے قتل عام کیا تھا تو ایک سبب یہ بادشاہ گر بھی تھے جنہوں نے ملک کو کمزور کیا۔ اس لیے کسی انتظامی یونٹ اور کسی ادارے کو اتنا طاقتور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی ملک پر مسلط کر سکے۔ ہمارے ہاں بھی صوبے مرکز پر چڑھائیاں کرتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا خدشہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ سب ہوتا رہا ہے لیکن آئندہ کے لیے اس کا انتظام لازمی ہے۔
اس کا بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جتنا بڑا صوبہ‘ جتنی زیادہ آبادی اتنے ہی زیادہ مسائل‘ اتنی ہی زیادہ کرپشن اور اتنا ہی برا نظم ونسق۔ اس وقت کوئی ایک صوبہ بتا دیں‘ جو مثالی نظم ونسق رکھتا ہو؟ جہاں کسی نہ کسی طرح کی محرومیاں نہ ہوں اور جو کرپشن سے بے داغ ہو؟ کوئی ایک بھی نہیں! پنجاب 13کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے۔ لاہور میں ترقیاتی کام ہوں‘ لاہور سے پنڈی بلٹ ٹرین کی باتیں ہوں‘ الیکٹرک بسیں اور ٹرامزگردش کریں‘ لیکن ڈیرہ غازی خان کے آدمی کو ہر کام کیلئے گھنٹوں کا سفر کرکے لاہور آنا پڑے‘ دفتروں‘ عدالتوں میں خواری کا سامنا کرنا پڑے تو کیا وہ لاہور کی ترقی سے خوش ہو سکتا ہے؟ صوبہ ایک شہر یا علاقے کا نام نہیں ہو سکتا‘ چاہے اس میں سیاسی جماعتوں کے کتنے ہی فوائد ہوں۔ اسی طرح کراچی کا حال آپ کے سامنے ہے۔ کون سی گورننس‘ کون سا انتظام اور کون سی حکومت؟ لوگوں سے پوچھئے‘ شہر کے حالات دیکھئے۔ لوگ بددعائیں دیتے نہیں تھکتے۔ یہ ملک کے ہر شہر‘ ہر صوبے کا حال ہے۔ تو کب تک اسی طرح گھسٹتے جائیے گا؟ کبھی اہم فیصلے بھی کریں گے یا نہیں؟
صوبے کتنے ہوں؟ حدود اربعہ کیا ہو؟ اختیارات کیا ہوں؟ ان میںوسائل کی تقسیم کیسے ہو؟ موجودہ آئین کے تحت یہ کس طرح تشکیل دیے جائیں؟ صوبوں میں نظم ونسق کا کیا انتظام ہو؟ اس کا انفراسٹرکچر کس طرح بنے؟ اس کے وسائل کہاں سے آئیں؟ یہ سب سوال یقینا اہم ہیں اور مشکل بھی۔ لیکن ٹھان لی جائے کہ یہ کام کرنا ہے تو سب ہو سکتا ہے! نہ کرنا ہو تو محض بحثوں‘ مکالموں‘ رپورٹس‘ کانفرنسز پر مزید وقت اور پیسہ برباد کرتے رہیں۔ ملک وہیں کھڑا رہے گا اور مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ فیصلے وقت پر نہ کیے جائیں تو یہی ہوتا ہے۔ ایک بار فیصلہ کرلیں کہ پھول کی پنکھڑیاں زیادہ ہوں گی اور یہ اسے حسین تر بنائیں گی۔
رہی بات یہ کہ یہ وقت ان فیصلوں کا ہے یا نہیں‘ میں سمجھتا ہوں یہ بہتر وقت ہے۔ ملک بہتر معاشی حالات کی طرف بڑھا ہے۔ بین الاقوامی ساکھ اوپر گئی ہے۔ مقتدر طاقتیں ملک کی بہتری کیلئے فکرمند نظر آتی ہیں۔ تینوں بین الاقوامی طاقتیں اس وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ چین انفراسٹرکچر کیلئے سرمایہ دینے کو تیار ہے‘ اسے صرف نتائج چاہئیں۔ انصاری کمیشن کے رکن‘ عم مکرم مفتی محمد تقی عثمانی الحمدللہ موجود ہیں۔ دیگر دردِ دل رکھنے والے لوگوں اور ملک کے خیر خواہوں کو جمع کیجیے اور اسے ایک تحریک کی شکل دیجیے۔ اس کام کیلئے میاں عامر محمود صاحب سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ تحریک بنائیے‘ سنہری تاریخ بنائیے اور اس میں اپنا نام لکھوائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved