کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر بھارت کے پاس پاکستان اور ہمارے ہاں بھارت کا بہانہ نہ ہوتا تو ہمارے لیڈروں کا کیا بنتا؟ دونوں ملکوں کے حکمران اپنے اپنے عوام کو کیا گولی بیچتے۔ دونوں ملکوں کے لیڈروں نے ایک دوسرے کے عوام کو دشمن بنا دیا ہے اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بند ہے بلکہ کچھ ماہ پہلے تو دونوں ایک دوسرے پر میزائل اور گولے برسا رہے تھے۔ میں اکثر اپنے بھارتی دوستوں کو کہتا تھا کہ آپ کے ہاں کوئی باتھ روم میں گیلے فرش پر سے پھسل کر گرے اور اپنا نقصان کرا بیٹھے تو اس کا دھیان اپنی حماقت کی طرف نہیں جاتا بلکہ اسے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا کام ہو گا۔ پاکستان نے ہی اس کے گھریلو ملازم کو کچھ دے دلا کر واش روم کا فرش گیلا کرایا ہے تاکہ اس کا جانی نقصان ہو۔ وہ باہر نکل کر ٹی وی پر پہلا بیان یہی دے گا کہ اس کے گرنے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور اتنی دیر میں ممکن ہے اس کا گھریلو ملازم پولیس کی حراست میں بھی جا چکا ہو۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگ رہا ہو کہ میں کچھ زیادہ ہی بول گیا مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کسی دن انڈین چینل اور اس پر بیٹھے ڈیڑھ سیانوں کو سنیں۔ وہ اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ اس طرح کا کلچر ہمارے ہاں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ اگرچہ اس کی نوعیت اور سنگینی بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن ہے ضرور۔ ہمارے ہاں بھارت کو تو چند بڑے مسائل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے لیکن امریکہ کو ہر مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مجھے یہ سب باتیں سن اور پڑھ کر تاریخی فلاسفی سمجھ آتی ہے کہ ہر قوم اور قبیلے کو اپنا وجود برقرار رکھنے اور جڑ کر کیلئے ایک بیرونی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بیرونی دشمن نہ ملے تو کسی نہ کسی کے ساتھ سینگ اڑا کر اسے دشمن بنا لو اور اس کی طاقت اور خوف سے اپنے لوگوں اور قبیلے کو ڈراتے رہو۔ وہ قوم ڈر کے مارے متحد رہے گی اور ملک بھی اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا۔ اگر آپ کی ریاست کا بیرونی دشمن نہ ہوا تو پھر آپ کی ریاست کے اندر ہی توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی اور ملک کے اندر موجود قبیلے اور قومیں ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے‘ ریاست کمزور ہوتی جائے گی اور کسی دن اس سے زیادہ تگڑی ریاست اس پر قبضہ کر لے گی۔ اس لیے بہت سوچ سمجھ کر ریاستیں اپنے دشمن بناتی ہیں تاکہ عوام کو اس بیرونی خطرے سے ڈرا کر اکٹھا رکھا جائے۔
بھارت اور پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں دشمن ڈھونڈنے نہیں پڑے۔ دونوں کو ایک ہی دن بنے بنائے دشمن مل گئے اور ایسے ملے کہ 78برس بعد بھی ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا‘ بول چال اور کاروبار سب بند ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دشمنی بڑھ رہی ہے۔ ہمارا جغرافیہ ہی ایسا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہ سہولت امریکہ کو چین کے ساتھ دشمنی کیلئے میسر نہ تھی کہ ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور تھیں۔ لیکن پھر بھی امریکہ نے ہزاروں میل دور ہی سے چین‘ روس‘ شمالی کوریا‘ ایران اور دیگر چند ملکوں کے ساتھ دشمنی ڈال لی بلکہ آج تک ڈالی ہوئی ہے۔ ان ملکوں کے ساتھ امریکہ کی سرحدیں ایسے نہیں ملتیں جیسے پاکستان اور بھارت کی سرحدیں ملتی ہیں کہ ان میں کوئی سرحدی جھگڑا ہوتا۔ اس لیے امریکہ نے اپنی قوم کو متحد رکھنے کیلئے کمیونزم اور سوشل ازم سے ڈرایا کہ اگر ہم نے چین‘ روس‘ شمالی کوریا یا کیوبا کو نہ روکا تو ہمارے بہت سارے دوست ملکوں پر کمیونسٹ قبضہ کر لیں گے اور امریکہ پر بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ یوں آج بھی چین‘ روس اور امریکہ کی لڑائی چل رہی ہے۔ اس لڑائی میں سب کا فائدہ ہے چاہے ایران ہو‘ شمالی کوریا‘ کیوبا‘ چین یا روس کیونکہ ان اقوام کو امریکہ کے کیپٹل ازم یا فوج نے ڈرا کر بلکہ دبا کر اکٹھا رکھا ہوا ہے۔
اتنی لمبی تمہید کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ آپ کہیں گے کہ پورے ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور آپ ہمیں تاریخی فلاسفیاں سمجھانے پر جت گئے ہیں۔ کہہ آپ بھی ٹھیک رہے ہیں لیکن سوچ میں بھی غلط نہیں رہا۔ ہمارے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا سیلاب پر دیا گیا بیان سن لیں۔ کہتے ہیں کہ یہ سب بھارت کی آبی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ مطلب ہمارا اور ہماری حکومتوں اور بیوروکریسی کا کچھ قصور نہیں ہے۔ اگر بھارت یہ پانی نہ چھوڑتا تو ہمارے ہاں سیلاب نہ آتا۔ کچھ دن پہلے ہم بھارت کو دھمکی دے رہے تھے کہ اگر ہمارا پانی روکا تو یہ اعلانِ جنگ ہو گا اور ہم تمہارے ڈیموں پر بم اور میزائل ماریں گے تاکہ پانی پاکستان آ سکے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ پانی کیوں چھوڑا۔ اس وقت بھارت میں بھی شدید بارشیں ہورہی ہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں بڑی تعداد میں لوگ سیلاب کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بھارت کے سرحدی علاقے جو ستلج‘ بیاس اور راوی سے ملحق ہیں‘ وہاں بھی سیلاب نے تباہی مچائی ہے‘ وہاں بھی ڈیم ٹوٹے ہیں اور اپنے ساتھ سب انفراسٹرکچر بھی بہا کر پاکستان کی طرف لے آئے ہیں۔ ایسے حیران کن وڈیو کلپس بھی دیکھنے کو ملے کہ بھارتی کسانوں کی بھینسیں اور گائیں بھی سیلاب میں بہہ کر پاکستان کے اندر تیرتی ہوئی نظر آئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات اس وقت بڑی عجیب لگے لیکن اگر ممکن ہو تو ان بھینسوں اور گائیوں کو ریسکیو کرکے بھارتی کسانوں کو واپس کر دیں۔ میں خود ایک کسان کا بیٹا ہوں لہٰذا مجھے احساس ہے کہ کسی کسان گھرانے میں گائے یا بھینس کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ خیر یہ الگ کہانی ہے کہ پاکستانی کسانوں کا بھی اس طرح جانوروں کا نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اگر بھارت اپنے کسانوں اور دیہات کو نہیں بچا سکا تو وہ پاکستان کو کیسے بچاتا؟ اگر بھارت یہ پانی روک سکتا تو روک نہ لیتا۔ پانی روکنے میں اس کا زیادہ فائدہ ہے نہ کہ آبی جارحیت میں۔ پانی چھوڑنے سے ہمارے سوکھے ہوئے دریائے راوی اور ستلج کو برسوں بعد پانی نصیب ہوا اور ان علاقوں کے شہروں اور دیہات میں زیر زمین پانی کی سطح بہتر اور زمین مزید زرخیز ہو گی۔
سیلاب سے تباہی‘ بربادی اور انسانی المیہ اپنی جگہ لیکن بعض دفعہ قدرت کی طرف سے ایک طرح سے ان زمینوں اور دریاؤں کو کچھ برسوں بعد ری فِل جیسی سہولت بارش یا سیلاب کی شکل میں عطا کی جاتی ہے ورنہ تو پانی کی سطح جتنی نیچے چلی گئی ہے اس کے بعد تو خشک سالی سے انسانی بستیاں برباد ہو جائیں۔ یہ کہانی اپنی جگہ لیکن داد دیں اُن سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور ٹھیکیداروں کو جنہوں نے مل کر دریائی بیڈ پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر اربوں روپے عوام سے ہتھیا لیے۔ یہ وہی راوی ہے جس کے کنارے کھڑے ہو کر وزیراعظم عمران خان نے لمبی تقریر کی تھی کہ راوی سوکھ گیا ہے‘ اب یہاں نیا شہر بسے گا۔ حالانکہ ان کی اس تقریر میں بھی پیچھے راوی کا پانی بہتا نظر آرہا تھا۔ خان صاحب کو لگا کہ شہباز شریف نے اگر لاہور کو کھود کھود کر سموگ سے زہر آلودہ کر دیا ہے تو میں راوی کنارے کو کھلا کیوں رہنے دوں۔ سپریم کورٹ نے مداخلت کی تو خان صاحب نے عدالت پر بھی تبریٰ پڑھا۔ آج تصور کریں کہ راوی میں نیا شہر بس چکا ہوتا تو اس وقت کیا مناظر ہوتے۔ شہباز شریف صاحب کی حکومت میں آج کل اسلام آباد میں درختوں اور پہاڑوں کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ خان صاحب کی تو حسرت ہی رہی کہ راوی کے اندر وہ نیا شہر بساتے۔ ہمارے ہاں جو ماحولیاتی تباہی ہوئی ہے اس پر وہی گانا یاد آتا ہے:
دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے
عمر بھر کا غم ہمارے نام کیا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved