تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     29-08-2025

نئے رنگ میں

ویسے تو یہ نئی بات نہیں کہ تاریخی طور پر آزادی اور آمریت کے درمیان کبھی کوئی خوشگوار تعلق نہیں رہا۔ جہاں انسانوں کو آزادی نصیب ہوگی‘ اور تحفے میں نہیں بلکہ قربانیوں اور جدوجہد کے بعد‘ وہاں سے آمریت دم دبا کر برف پوش قطب شمالی کی کسی غار میں مر کھپ جائے گی۔ آمریت کا دور دنیا میں کہیں بھی آیا اور جب تک وہ طاقت کے زور پر قائم رہا‘ آزادیاں معدوم یا محدود اور عملی طور پر بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ آمریت کا مزاج یہ ہے کہ عام آدمیوں کو ایک مضبوط لاٹھی ہاتھ میں رکھ کر قبضے میں رکھنا ان کے اپنے حق میں ہے کہ یہ اس قدر ذہنی طور پر پست ہیں کہ اپنے اچھے برے کی بھی تمیز نہیں رکھتے۔ حکمران‘ بادشاہ قدیم زمانے میں عوام کے لیے اپنے آپ کو رحمت کا فرشتہ‘ خدا کا سایہ‘ نائب اور اپنی مخصوص مملکتوں میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لیے اپنی حاکمیت کو مقدس اور ایک مذہبی فریضہ منوانے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ درباروں کی کسی بھی زمانے میں کمی نہیں ہوتی تھی۔ بڑے بڑے شاعر‘ فلسفی اور مذہبی رہنما بادشاہوں کے حلقۂ رفاقت میں موجود ہوتے‘ قصیدے لکھتے‘ انعام و اکرام پاتے اور شاہی اشرافیہ کا حصہ بنے رہنے پر فخر محسوس کرتے۔ مغرب ہو یا مشرق‘ ہر طرف بادشاہت کا راج تھا۔ اس تاریخ کا حوالہ صرف اس بنیادی دلیل کے لیے ہے کہ خدا کی مخلوق‘ انسان نہ برابر ہیں اور نہ برابر ہو سکتے ہیں۔ عام آدمی عقل و شعور کی دولت سے ہمیشہ محروم رہا ہے اور کسی بھی زمانے میں اس کی سوجھ بوجھ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں حکمران اور اشرافیہ ایک الگ مخلوق اور خدا کے پسندیدہ ہیں‘ اور اگر نہ ہوتے تو وہ اس مقام اور رتبے پر آخر کیوں فائز ہوتے۔ بادشاہوں نے اپنی حکمرانی کو مذہبی رنگ صدیوں دیے رکھا کہ وہ ظلِ سبحانی ہیں‘ اس لیے ان کے حکم سے روگردانی اور ان کے خلاف بغاوت خدائی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے لوگ اس دنیا میں اور آخرت میں گنہگار تصور ہوں گے۔
دنیا کی تاریخ ایسے بادشاہوں اور گزشتہ دو ہزار سال سے ہر نوع کے فاتحین اور سلطنت گروں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک ہی مذہب کے ایسے جنگجو اور مہم بازوں نے ایک دوسرے کے خلاف خونریزی کی اور ہر پل لشکر کشی کو قابلِ جواز قرار دیا۔ مقدونیہ کا سکندرِ سوم ہو یا مغل لشکر اور اس سے پہلے ترک‘ ایرانی اور افغانی‘ سب کا مقصد لوٹ مار‘ سونا چاندی‘ زر و دولت اور سلطنت سازی تھی۔ جنہیں ہم آج یورپی ممالک کہتے ہیں وہاں بھی سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں ایسے طالع آزما ابھرے‘ ایک دوسرے سے الجھتے رہے اور انسانوں کا خونِ ناحق برسات کی بارش کی طرح ندی نالوں میں بہتا رہا۔ اندرونی طور پر لوگوں کو خاموش رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا خوف۔ آپ نے ضرور پڑھا ہوگا کہ آنکھ اوپر اٹھائے بغیر بادشاہ کی نظر جہاں ہوتی‘ رہتی اور وہ سینکڑوں افراد کے گلے کاٹنے کا حکم دے دیتا اور زندہ مخالفین کو جانوروں کی کھالوں میں بند کر دیا جاتا۔ وقت کے ساتھ البتہ سزاؤں کی نوعیت تبدیل ہوئی۔ اگر آپ سوچ رہے ہوں کہ نرمی ہوئی ہے‘ ایسا نہیں۔ قید تنہائی‘ جزائر میں جلاوطنی‘ پنجروں میں بند اور جو اَب مغربی دنیا میں اذیت کے نئے طریقے دہشت گردی کی جنگ کے نام پر آزمائے گئے وہ ماضی کی تاریخ سے کہیں زیادہ قابلِ مذمت ہیں۔ آج کل جو دنیا کے سامنے غزہ میں انسانیت سوز سلوک فلسطینیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس کی تائید میں امریکی اور کچھ یورپی سیاستدانوں کی تاولیں دیکھ کر بادشاہت اور آمریت کی وہ سب مثالیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ کہنے کو تو ہم اسے جدید ''جمہوری‘‘ دور کہتے ہیں اور جس کے بارے میں اب مغرب میں بھی شدت سے تشویش پیدا ہو گئی۔ مگر یہ نئے رنگ میں وہی پرانا نظریہ ہے کہ سب انسان‘ سب نسلیں اور سب قومیں برابر نہیں۔ رنگ و نسل کی پرانی بحثیں اب اس انداز میں نہ ہوتی ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔ ان کا مکالمہ‘ زبان‘ کلام اور اندازِ گفتگو وقت کے ساتھ بدل گیا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کے خلاف مغربی اشرافیہ کا جو ردِعمل ہوا وہ آج کل کی نسل پرستی‘ رجعت پسندی اور قومی افتخار کی صورت میں نظر آتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کی بنیاد برابری‘ آزادی اور آپس داری (عوام کے مابین) نے بادشاہوں اور ان کے گرد اشرافیہ کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ بڑے بڑے فلسفے تراشے گئے اور نامور مفکر سامنے آئے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ اگر طاقت عوام کے ہاتھ میں آ جائے تو وہ ظلم و بربریت کی انتہا کر دیں گے۔ فرانسیسی انقلاب کی زیادتیوں کو قدامت پسندی کے حق میں ہمیشہ ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی روح وہی قدیمی ہے کہ یہ انسان برابر نہیں ہو سکتے‘ مگر اس کا اندازِ بیان مختلف ہے۔ آج کل کے آمروں نے‘ مغرب میں ہوں یا مشرق میں‘ مذہب‘ روایت‘ امن و سلامتی اور معاشرتی استحکام کو برابری اور انسانی حقوق پر اولیت دی ہے۔ اس تحریک کا آغاز تو 50سال پہلے ہو چکا تھا اور اس کے ذرا پہلے امریکہ میں جب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سماجی تحریک سیاہ فام لوگوں کو برابر کے حقوق دلانے میں کامیاب ہوئی۔ مغربی لبرلز نے ایک نئے معاشرے اور انسانی آزادیوں کا جو تصور گزشتہ صدی میں دیا اور کئی دہائیوں تک دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا ان کی گرفت میں رہی‘ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رجعت پسند‘ نسل پرست اور مذہبی گروہوں کی طاقت کے سامنے پسپائی پر مجبور ہیں۔ ظاہری طور پر مغرب میں ابھی صورتحال شاید آپ کو خوف ناک نظر نہ آئے‘ مجھ جیسے لوگ جو تقریباً نصف صدی پہلے وہاں کی جامعات میں طالب علم رہے ہیں اور بہت وقت ان ملکوں میں گزارا ہے‘ زیریں طبقات‘ نسلی اقلیتوں اور دانش گاہوں میں گہرے خوف کو سمجھ سکتے ہیں۔ کسی کو کہیں سے بھی‘ کسی بھی بہانے سے نوکری سے نکالنا اب اتنا آسان ہو گیا ہے جیسے چودھری اپنے ملازم کو حقے کا کش لگاتے‘ گالی دے کر سامنے سے دفع ہو جانے کا حکم صادر کرے۔ پرسوں امریکہ کے سب سے بڑے مالیاتی‘ خود مختار اور ریزرو بینک کی گورنر کو جس طرح نکال دیا گیا‘ اس کی مثا ل کچھ ایسے ہی ہے۔ حضور! وہ سیاہ فام ہے۔
مغربی جمہوریت کا بہرحال کمال یہ ہے کہ جب بھی ماضی میں ایسے ادوار آئے‘ مزاحمت نئے رنگوں میں سامنے آئی۔ ہمارے ہاں بھی قابلِ فخر روایت ایسی ہے کہ مزاحمت‘ شاعری‘ ادب اور طرزِ تحریر اور اندازِ گفتگو اشاروں کنائیوں کی صورت جاری رہی۔ آمرانہ مزاحمت رجعت پسندی پوری دنیا میں نئے انداز میں سر اٹھا چکی ہے۔ ضیا الحق مرحوم کا ایک فقرہ ہمیشہ یاد رہتا ہے جو انہوں نے بھارت کے معروف سکالر اور دانشور اور ہمارے دوست آنجہانی بھابھانی سین گپتا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کو اچھی حکومت اور خوشحالی نہیں‘ کہتے ہیں کہ جمہوریت چاہیے۔ پرانی سوچ پوری دنیا میں اب داخلی استحکام‘ معاشی تر قی اور خوشحالی کے نام پر تھوک کے حساب سے بیچی جا رہی ہے۔ بادشاہوں کے دربار میں قصیدہ گو شاعروں کی مشقت پر ہمیشہ دل میں ترس آتا رہا ہے مگر آج کل کے درباریوں پر ترس نہیں‘ عبرت حاصل کرنے کو بہت کچھ نظر آتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ طاقتور حلقے جو قتدار‘ وسائل اور ملکی معیشت کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیتے ہیں‘ وہی حق و ناحق‘ سچائی اور جھوٹ کے بیانیے تراشنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ جس ملک میں بھی ہوں‘ ان کی خبر کے لیے برابری اور حقوق کا جذبہ بھی تو اسی دیو کی طرح ہے جو کئی دفعہ جلائے جانے‘ تہِ تیغ ہونے کے باوجود اپنے خون کے ایک قطرے سے کھڑ ا ہو کر آنکھیں دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ خیر کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved