تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     29-08-2025

دریا این او سی نہیں مانتا

اخبارات کے پلندے سے جھانکتی چھوٹی بڑی سرخیوں سمیت شہ سرخیاں اور ٹی وی چینلز کی اَپ ڈیٹس گورننس کا منہ چڑا رہی ہیں تو کہیں سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز کیسے کیسے پول کھول رہی ہیں۔ مملکتِ خداداد کرۂ ارض میں شاید واحد خطہ ہو گا جہاں دن‘ تہوار کے علاوہ قدرتی آفات و حادثات کے بھی ''سیزن‘‘ ہوتے ہیں۔ کیا عوام‘ کیا حکام سبھی حصہ بقدر جثہ برابر وصول کرتے ہیں۔ ماضی کے تباہ کن سیلاب ہوں یا زلزلے جیسی ناگہانی آفات‘ کیسے کیسے شرمناک اور لرزا دینے والے واقعات کے باوجود زندہ قوم بنے پھرتے ہیں۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان سبھی گری ہوئی حرکات کی بدعت کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں تازہ ترین سیلاب کی ہولناک تباہی کے بعد بے گوروکفن لاشوں کو ٹٹول کر گھڑیاں‘ زیورات اور نقدی سمیٹنے والوں کے علاوہ قیمتی لکڑی کی لوٹ مار پر بھی لڑائی جھگڑے زوروں پر ہیں۔ گھروں اور دکانوں کے علاوہ سیلابی پانی میں تیرتے ہوئے قیمتی ساز و سامان سمیت مال مویشی اور نوٹوں کو مال غنیمت سمجھنے والے قدرتی آفت کو قدرت کا موقع جان کر جی جان سے لوٹ مار میں مگن ہیں۔ پہاڑوں سے شروع ہونے والا تباہ کن سیلاب میدانی علاقوں کو دریا برد کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کی حدوں کو چھو چکا ہے‘ قریبی آبادیوں میں خطرے کے سائرن بجائے جا چکے ہیں‘ نقل مکانی کا عمل جاری ہے اور کالم کی اشاعت تک حدوں کو چھوتے سیلابی ریلے شہر لاہور میں کہاں تک جا پہنچتے ہیں‘ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔
قارئین! مملکت خداداد میں موٹرویز‘ رنگ روڈز کے علاوہ بین الاضلاعی رابطے کے لیے سڑکوں کا جال بچھانے کے منصوبے سبھی حکمرانوں کی اوّلین ترجیح رہے ہیں‘ ان پر اپنے ناموں کی افتتاحی تختیاں لگا کر آتے جاتے دیکھتے اور فراٹے بھرتی گاڑیوں سے باہر جھانک کر اپنے منصوبوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن تواتر سے آتے جان لیوا سیلابوں کی تباہ کاریوں اور ہلاکتوں کے باوجود ان کے تدارک کے لیے کبھی کسی کو کوئی خیال نہ آیا۔ بھاری مقدار میں بارش کے پانی جیسی نعمت کو مسلسل ضائع کرنے کے علاوہ دریاؤں‘ ندی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہوں میں ہاؤسنگ پروجیکٹ کے نام پر بستیاں بسانے کی مجرمانہ وارداتوں کی ہر دور میں کھلی چھٹی رہی ہے۔ دریا کا کنارا ہو یا دریا کی چھوڑی ہوئی زمین‘ مل بانٹ کر کھانے والوں نے اجازت نامے لینے کے ساتھ ساتھ قانون اور ضابطے بھی مصلحتوں اور ضرورتوں کی فائلوں میں دفن کر ڈالے۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دورِ حاضر تک حکمرانوں نے اپنے اپنے برانڈڈ جھانسوں سے عوام کو الجھائے اور بیوقوف بنائے رکھا۔ مسیحاؤں اور نجات دہندوں کے روپ میں کیسے کیسے بہروپیے روپ بہروپ بدلتے اور آتے جاتے رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان المعروف بابا رحمتے نے از خود نوٹسز کے سبھی ریکارڈ چٹکیوں میں توڑ ڈالے۔ جن بدعتوں اور برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سٹیج لگایا گیا تھا وہ سبھی کئی اضافوں کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہیں۔ ڈیم بنانے کے لیے خطیر رقوم تو اکٹھی ہوتی رہیں لیکن پھر کیا ہوا؟ قوم کو کیسی کیسی اُمید اور آس دلائی گئی تھی کہ ڈیم بنا کر سیلاب کی روک تھام کے علاوہ سستی انرجی بھی حاصل کی جا سکے گی۔ اتنا بڑا نام اور مقام‘ ڈیم کی برانڈنگ میں لپٹا ہوا وعدہ اور دعویٰ بھی جھانسا ہی نکلا جبکہ مہنگے کیسوں میں پکڑے جانے والے سبھی خاص و عام کے سستے چھوٹنے کا کریڈٹ بھی بابا رحمتے کو اس لیے جاتا ہے کہ سبھی کیسز عجلت میں اور تیاری کے بغیر بنانے کے علاوہ صرف مخصوص اہداف اور ایجنڈوں تک ہی محدود رہے۔ احتساب کے نام پر ایسے ایسے حساب کھلے کہ محمود و ایاز میں فرق مٹتا چلا گیا۔ کون کس کے لیے اورکیا کیا کر رہا ہے‘ یہ سبھی عقدے کھلنے کے باوجود پس پردہ عوامل اور عزائم بھی کھلتے چلے گئے۔ اسی تسلسل میں تبدیلی کا سونامی برسرِ اقتدار آیا تو وزیراعظم عمران خان کے بنی گالا میں واقع گھر کی تعمیر پر کڑے اعتراضات اٹھنے شروع ہوئے تو ضابطوں اور قانون کو تھپک کر سلانے کے بعد چند لاکھ جرمانے کے عوض غیر قانونی تعمیر کو ریگولیٹ کر دیا گیا۔ اپنا گھر بچانے کے بعد عمران خان نے اپنے ایسے ساتھی کے ہاؤسنگ پراجیکٹ پر سوالیہ نشان اٹھا دیا جو دھرنوں اور جدوجہد کے دنوں میں ان کے شانہ بشانہ اور مالی صدمات برداشت کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے‘ آج وہ ہاؤسنگ پراجیکٹ بھی سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔
دریا کے کناروں پر بستیاں آباد ہونے کے ساتھ ساتھ دریا کی چھوڑی ہوئی زمین پر سوسائٹیوں کی منظوری دینے والے ہوں یا ان پراجیکٹس سے ترقی اور خوشحالی کے کوہِ ہمالیہ پر جا پہنچنے والے‘ سبھی اس کارِ بد میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ اپنی چھت اور گھر کے خواب سجائے ان سوسائٹیوں کے مکین بننے والے پُرکشش تشہیری مہم سے کھنچے چلے آئے اور ماہر مارکیٹنگ ٹیم کے ہنی ٹریپ میں آگئے۔ آج دریا غضبناک ہوکر اپنی زمینوں کا قبضہ واپس لینے کیلئے بپھرا ہوا ہے کیونکہ زمین کا اصل مالک تو دریا ہے۔ پراجیکٹس کی منظوری دینے والے ہوں یا منظوری لینے والے اور دستاویزات و اکاؤنٹوں میں لین دین کرنے والے سبھی فریقین تو بس بینی فشری ہیں‘ دریا نے کسی کو این او سی یا منظوری نہیں دی۔ اسی طرح قرب و جوار میں میل ہا میل تک پھیلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے والوں کے سماجی و مالی پس منظر سے لے کر سہولت کاری کرنے والے سرکاری بابوؤں اور حکمرانوں کی دیدہ دلیری تک سبھی کے نام اور کارنامے چھپائے نہیں چھپ رہے۔ اپنا گھر اپنی جنت کی خواہش نے جنہیں ان بستیوں کا مکین بنا ڈالا ہے ان سبھی کا کیا قصور ہے؟ سیلابی ریلے تو ان کے پاس موجود کسی انوائس‘ فائل‘ یا این او سی کو نہیں مانتے۔ ان سبھی کے خوابوں کے ساتھ ساتھ ان کی عمر بھر کی جمع پونجیاں اور پورا کنبہ تو بپھرے ہوئے پانی کے رحم و کرم پر ہے۔ کب کون سی لہر کسے بہا لے جائے‘ کل کون کس کا پرسانِ حال ہوگا۔ گویا:
کون پرسانِ حال ہے میرا
زندہ رہنا محال ہے میرا
وزیراعلیٰ پنجاب جاپان کے دورے سے لوٹ آئی ہیں۔ انتظامی مشینری ریسکیو کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ وزرا اور سرکاری بابوؤں کی بھاگ دوڑ قابلِ دید ہے‘ تسلیاں اور تشفیاں بھی جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ جس بے خوفی سے اونچے درجے کے سیلاب اور گہرے پانیوں میں فلڈ ریلیف آپریشن کی نگرانی کر رہی ہیں خدارا اسی جرأت کے ساتھ ان ہاؤسنگ پراجیکٹس کے مالکان اور ان کے سہولت کار سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے نام بھی منظر عام پر ضرور لائیں تاکہ عوام آئندہ ان کے کسی نئے جھانسے اور اگلی گھات میں ان کا شکار نہ بنیں۔ ویسے تو ان سب کو سبھی جانتے ہیں‘ سرکاری سطح پر نام شائع ہونے سے نہ صرف تصدیق کی مہر ثبت ہو جائے گی بلکہ ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے والے بے نقاب ہو جائیں گے۔ وزیراعظم نے بھی ماحولیاتی تبدیلی پر دنیا سے مدد تو طلب کی ہے لیکن حضور والا! اس ناگہانی صورتحال کو فقط قدرتی آفت قرار دینے کے بجائے اس عذاب کے اسباب کی طرف توجہ کریں تو آئندہ دنیا سے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ زمینی قوانین جب بے بس اور سرنگوں ہو جائیں تو فیصلے آسمانوں سے اترتے ہیں اور آسمانی فیصلوں کے آگے وکالتیں اور وضاحتیں نہیں چلتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved