اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں کئی مقامات پر ''خیر‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ''اسی (اللہ) کے ہاتھ میں (تمام) خیر ہے‘‘ (آل عمران: 26)۔ خیر کے بہت سارے معنی ہیں‘ تاہم اس کا جو اہم ترین معنی اور مفہوم ہے وہ انسانی بھلائی اور انسانوں کی خدمت ہے۔ اس بھلائی کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں پیغمبرانِ کرام ان خاندانوں میں منتقل ہوتے رہے‘ مبعوث ہوتے رہے جن کے اندر سب سے بڑھ کر خیر یعنی انسانی بھلائی تھی۔ اللہ کے رسولﷺ خود ارشاد فرماتے اور صحابہ کرامؓ کے ذریعے قیامت تک اپنی امت کو آگاہ فرماتے ہیں ''مجھے ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک ان نسلوں میں منتقل کیا جاتا رہا جن میں (سب سے بڑھ کر) خیر تھی۔ یہاں تک کہ میں اس زمانے کی نسل میں تشریف فرما ہوا جس میں مجھے ظاہر ہونا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے اجداد کو اولادِ آدم علیہ السلام میں انسانی بھلائی کے اعتبار سے ہر زمانے میں ممتاز اور مکرم ومحترم بنایا۔ جب انسانی تاریخ کے آخری زمانے کا آغاز ہوا تو اس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ کی مبارک زبان پر ''اصطفیٰ‘‘ کا لفظ جاری فرما دیا۔ اس کا معنی انتخاب اور چنائو ہے‘ یعنی ہزاروں سالوں کی تاریخ ایک لفظ میں سمٹ گئی۔ حضورﷺ نے فرمایا ''بلاشبہ عزت وجلال والے اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے (کئی صدیوں بعد) کنانہ قبیلے کا انتخاب کیا۔ پھر کنانہ کے بہت سارے قبائل میں سے قریش قبیلے کا انتخاب فرمایا اور قریش کے بہت سارے قبائل میں سے بنو ہاشم قبیلے کا انتخاب کیا اور میرا چنائو اسی بنو ہاشم قبیلے سے کیا۔ (صحیح مسلم)
اللہ اللہ! اسی لیے تو ہمارے حضور کریمﷺ کا ایک اسمِ گرامی ''مصطفی‘‘ ہے؛ یعنی وہ ہستی کہ جن کو اللہ نے منتخب کیا تو نسلوں اور خاندانوں کا انتخاب بھی خود فرمایا۔ اور اپنے انتخاب میں پاکیزگی‘ تطہیر اور اعلیٰ ترین صفات پر مشتمل خیر کو اس قدر عالیشان بنایا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: آدم علیہ السلام سے لے کر میرے والدین کے مجھے جنم دینے تک‘ میرا تمام نسب نکاح کے ساتھ چلتا رہا۔ نکاح کے علاوہ کسی دوسری سوچ کا شائبہ تک نہ تھا۔ میرا نسب (مبارک) جاہلی ادوار میں بھی پوری طرح محفوظ رہا۔ (صحیح الجامع الصغیر)
قارئین کرام! حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع کریں تو شام کے جس شہر کا نام حلب ہے‘ یہ نام اس وجہ سے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب عراق سے ہجرت کرکے نکلے تو حلب میں کچھ عرصہ گزارا۔ یہاں آج بھی وہ مقام موجود ہے‘ آباد ہے کہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے گزرنے والے قافلوں کے مسافروں کو اپنے ریوڑ کی بکریوں کا دودھ پلاتے تھے۔ حلب کا معنی دودھ ہی تو ہے۔ جی ہاں! دودھ کے ساتھ کھانے بھی چلتے تھے۔ جب فلسطین میں جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ڈیرے لگائے تو عام مہمان نوازی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب فرشتے انسانی شکل میں ان کے پاس آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سالم بھنا ہوا بچھڑا ان کے سامنے رکھ دیا۔ جی ہاں! معلوم ہوا بھیڑ بکریوں کے ساتھ ساتھ گائیوں کا ریوڑ بھی تھا۔ دودھ عام ملتا تھا اور ضیافتیں بڑی سطح کی تھیں۔ ہمارے حضورﷺ کی جد مبارک کا سلسلہ اب حضرت اسماعیل علیہ السلام میں آیا۔ وہ شکار کیا کرتے تھے۔ اس شکار میں ہرن وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا پرندے ہوتے تھے۔ یہی گوشت اور زم زم کا پانی زائرین کعبہ کھاتے پیتے تھے۔
صدیوں بعد حضرت عدنان کا زمانہ آیا تو اس وقت تک مکہ کی آبادی بڑھ گئی تھی۔ حضرت عدنان حکمران تھے۔ ہر طرح کی انسانی بھلائی یعنی خیر کی خیرات عام تھی اور خوب تھی۔ صدیاں بیت گئیں۔ قریش کا آغاز حضرت فہر سے ہوا۔ حضرت مُضَر کا حسن‘ چہرے کی رعنائی اور سیادت کا جلوہ جنابِ فہر میں در آیا تھا۔ ان سے یہ حضرت ہاشم میں منتقل ہوا۔ ان کی حشمت اور حسن و جمال آسمان کے تاروں کو چھوتا تھا۔ وہ خود مکہ کے حکمران اور کعبہ کے متولی تھے۔ مشرق وسطیٰ کے حکمران ہی نہیں تھے‘ حبشہ اور قیصر جیسے عالمی حکمرانوں کے درباروں میں بھی ان کا اکرام آسمان کی بلندی کو چھوتا تھا۔ خیر اسی قدر زیادہ تھا کہ بیت اللہ کے زائرین کو گوشت کے شوربے میں بھیگی ہوئی روٹیوں کا ثرید ملتا تھا اور شربت کے علاوہ خیرات کا بھی نظام تھا۔ وہ تجارت کرتے ہوئے غزہ جاتے تو انقرہ (مصر) اور دمشق تک جاتے۔ سورۃ القریش حضورﷺ کے اسی پڑدادا کے ہاتھوں خیرات کا تذکرہ کرتی ہے۔ حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب انسانوں ہی کو کھانا نہ کھلاتے تھے‘ وہ تو حیوانوں کی بھلائی کے ساتھ ساتھ آسمان میں اڑتے پرندوں کو بھی کھلاتے پلاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ان کے سب سے چھوٹے اور محبوب ترین بیٹے تھے۔ خیر اور خیرات ان کے ہاتھوں سے چھلکتی تھی۔ آخرکار! حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کے آنگن میں وہ پھول کھلا کہ پاک اور مطہر والدہ حضرت آمنہ کے وجود پاک سے نکلنے والا نور اب ایک عالمی نورانی گلدستہ تھا۔ دادا محترم نے نام نامی رکھا تو ''محمد‘‘ رکھا (ﷺ)۔
آپﷺ جبلِ نور کی غارِ حرا سے اترے تو قرآن مجید کا اولین پیغام لے کر آئے۔ حضرت خدیجہؓ نے یہ پیغام سنا تو سنتے ہی اولین مومنہ اور اُم المؤمنین بن گئیں۔ حضورﷺ نے اپنی جان کے خطرے کی بات کی تو مومنوں کی اماں جان نے کہا ''اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اللہ کریم آپﷺ کو کبھی رنجیدہ نہیں کریں گے۔ آپﷺ کی عزت پر حرف نہیں آنے دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ رشتوں کو ملا کر آپ رکھتے ہیں (یعنی ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے خیر بانٹتے ہیں)‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ فقیروں اور محتاجوں کی جیب بھاری کرتے ہیں‘ مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں (کھلاتے پلاتے اور آرام کی جگہوں پر سلاتے ہیں)۔ حق کے معاملے میں ان کی مدد کرتے ہیں‘ (فیصلہ عدل سے کرتے ہیں اور سچ کا بول بولا کرتے ہیں)۔ (صحیح بخاری)
وطن عزیز پاکستان کے بہت سارے شہری آج سیلاب میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ لوگ خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ بہت سے اللہ کے پاس جا چکے ہیں۔ کتنی ہی دولتیں سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ ہم سب کے کریم وشفیق آقا حضرت محمد مصطفیﷺ کا کلمہ پڑھنے والے دل کھول کر خیر کی راہوں پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ پاک افواج اور حکومت کے وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر خدمات انجام دے رہے ہیں‘ وہ حضور کریمﷺ کی کریمانہ یادوں کو تازہ کر رہے ہیں۔ رفاہی تنظیمیں بھی متعدد ہوں گی۔ شفیق وڑائچ کی نگرانی میں مرکزی مسلم لیگ کے کارکنان نے خدمت کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ دیگر کئی تنظیموں کی خدمت بھی لوگوں کی زبانوں پر ہے۔ وہ خیر اور خیرات والے تجّار کہ جن کا مال ان راہوں میں خیر اور خیرات کا راہی بن رہا ہے‘ ان سب کو اللہ تعالیٰ ہی اجر سے نوازیں گے۔ مجھ جیسے کمزور لوگ‘ جو دعائیں کر رہے ہیں‘ حوصلے بڑھا رہے ہیں‘ کالم لکھ رہے ہیں‘ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔ انہی کی وجہ سے عالمی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ دنیا میں پاکستانی ہی وہ قوم ہیں جو سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے پاک وطن سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved