تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     18-11-2013

کراچی آپریشن

ستمبر کے اوائل سے کراچی میں جاری پولیس اور رینجرز کے کامیاب آپریشن سے ایک حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اگر سیاسی قیادت فیصلہ کر لے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنی ہے اور سماج دْشمن عناصر کا خاتمہ کرنا ہے،تو ایسا عین ممکن ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر جب اس آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا تھا توکچھ حلقوں کی طرف سے اس پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا،بلکہ صوبائی حکومت،پولیس اور رینجرز پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن بیشتر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شہرمیں فوج کو بْلانے کی مخالفت کے پیشِ نظر حکومت نے کراچی میں امن وامان کے قیام اور قاتلوں، بھتہ خوروں اور اغواء کنندگان کے خلاف رینجرز اور پولیس کو کارروائی کا حکم دیا تھا۔وقت نے ثابت کر دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا فیصلہ درست تھا۔ کراچی میں اگرچہ مکمل طور پر امن وامان قائم نہیں ہوا اور اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں جہاں سے روزانہ لاشیں گرنے کی اطلاعات آرہی ہیں لیکن صورتِ حال میںکافی بہتری آئی ہے اور بیشتر جرائم پیشہ افراد یا تو جیلوں میں بند ہیں یا پھر راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، سٹریٹ کرائم اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کافی کمی آئی ہے۔تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پانے میں جہاں رینجرزاور پولیس کے باہمی تعاون اور کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا ہے وہاں وفاقی اور سندھ کی حکومت کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراک بھی بہت مدد گار ثابت ہوا ہے۔ حالانکہ دونوں حکومتیں الگ الگ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابتداء میں جب مسلم لیگ (ن)کی وفاقی حکومت کراچی کے عوام کی طرف سے ایس اوایس پیغامات کے جواب میں آپریشن کے بارے میں سوچ رہی تھی،تو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اس پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ بات یہاں تک پہنچی کہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس آپریشن کی آڑ میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طرف سے صوبائی انتظامیہ،پولیس بلکہ رینجرز کے خلاف ایک زبردست مہم بھی شروع کی گئی اور اس بات پر اصرار کیا کہ سابق کارکردگی کی روشنی میں نہ تو سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت سے کوئی توقع رکھی جا سکتی ہے اور نہ پولیس اور رینجرز امن وامان کے قیام میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کراچی کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ شہر کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔لیکن وفاقی حکومت نے نہ صرف فوج بلانے کا مطالبہ مسترد کر دیا بلکہ صوبائی حکومت کو آپریشن کا انچارج بنا کر پوراپورا تعاون فراہم کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تمام تر اشتعال انگیزیوں اور الزام تراشیوں کے باوجود آپریشن میں وفاقی حکومت اور وفاقی قانون نافذ کرنے والی فورسز کے ساتھ تعاون کیا اور آپریشن کو بلا امتیاز جاری رکھنے کی اجازت دی۔حالانکہ اس آپریشن میں خود پیپلز پارٹی کے کئی اراکین کے خلاف بھی رینجرزاور پولیس نے کارروائی کی تھی۔وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی آپریشن فوج کی بجائے پولیس اور رینجرز کے حوالے کرنے سے جہاں پاکستان میں جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی ہے،وہاں دو مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوںکے درمیان تعاون اور اشتراک سے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو بھی تقویت ملی ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اس تعاون اور اشتراک کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔کراچی میں صوبائی حکومت کی سرکردگی میں آپریشن کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے مکمل تعاون اور تمام ممکنہ وسائل کی فراہمی پاکستان میں سیاسی استحکام،قومی اتحاد اور معاشی ترقی کیلئے ایک اچھا شگون ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ آپریشن کی مدت برسوں نہیں بلکہ مہینوں پر محیط ہوگی۔اس سے کراچی کے مسئلے کی پیچیدہ نوعیت اور اہمیت کم نہیں ہوتی۔بلکہ بیشتر مبصرین کی رائے میں کراچی میں رینجرز اور پولیس نے جس بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت سے کامیابی حاصل کی ہے،وہ اگرچہ اپنی جگہ ایک لائق تحسین کارنامہ ہے،لیکن اس کامیابی کو مکمل اورمستقل امن و امان کی جانب ابتدائی قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔کراچی کا مسئلہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی گمبھیر ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں لیکن سب سے زیادہ سنگین پہلو شہر میں ناجائز اسلحہ کی بھرمار اور سیاسی پارٹیوں کے مسلح اور تربیت یافتہ گروپوں کی موجودگی ہے۔سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق کراچی میں جدید ترین اسلحہ کے نہ صرف ڈھیر لگے ہیں بلکہ خشکی اور سمندر کے راستے شہر میں مزید اسلحہ کی بلاروک ٹوک آمد جاری ہے۔ جب تک شہر میں اسلحہ کی سمگلنگ کو بند نہیں کیا جاتا اور ناجائز اسلحہ کو ضبط نہیں کیا جاتا، کراچی میں مستقل امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ فائرنگ، قتل اور بم بلاسٹ کا امکان ہر وقت موجود رہے گا۔ جرائم پیشہ افراد اتنے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہیں کہ وہ جہاں چاہیں جس وقت چاہیںاپنی مذموم کارروائیوں سے کراچی کے امن کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے شہری خصوصاً تاجر اور کاروباری طبقہ آپریشن کے جلد خاتمے کا حامی نہیں بلکہ اسے مزید موثر بنا کر اس وقت تک جاری رکھنے کے حق میں ہے جب تک شہر کو ان جرائم پیشہ افراد سے مکمل طور پر پاک نہیں کر لیا جاتا۔ اس ہدف کا حصول صرف اس صورت ممکن ہے کہ کراچی کو ناجائز اسلحہ سے پاک کر دیا جائے۔ جس طرح پولیس اور رینجرز کے موجودہ آپریشن پر تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے متفق ہو کر کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو مزید بگڑنے سے بچایا ہے، اسی طرح مستقل امن کے قیام کی خاطر ضروری ہے کہ کراچی میں ناجائز اسلحہ کی برآمدگی اور مزید اسلحہ کی درآمد کو روکنے کیلئے ایک دفعہ پھر قومی اتفاق ِرائے پیدا کیا جائے۔ جس طرح کراچی میں مستقل قیامِ امن کی خاطر ناجائز اسلحے کا خاتمہ ضروری ہے‘ اْسی طرح کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپوں کو غیر مسلح کرنا لازمی ہے۔ آئین کے تحت کسی سیاسی پارٹی کو مسلح گروپ یا پرائیویٹ آرمی قائم کرنے کی اجازت نہیں لیکن پے درپے فوجی حکومتوں کے قیام اور اْن کی طرف سے مخصوص مقاصد کیلئے مسلح گروپوں کے قیام کی حوصلہ افزائی نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے نام کی کوئی چیز نہیں رہنے دی۔ کراچی میں سیاسی پارٹیاں اپنے مسلح گروپوں کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ اس کی نشان دہی ملکی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ادارے بھی کر چکے ہیں۔ خود سپریم کورٹ میں ثبوت کے ساتھ اعدادوشمار پیش کیے جا چکے ہیں کہ شہر میں جرائم کی وارداتوں میں سیاسی پارٹیوں کے مسلح گروپ ملوث ہیں۔ موجودہ آپریشن میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی ہے اس کے لیے بہت سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف انتظامی کارروائی ہی درکار نہیں بلکہ عدلیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved