تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     30-08-2025

نئے صوبے ضروری ہیں

1993ء یا 1994ء کی بات ہے‘ پنجاب یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو ملکی حالات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بدانتظامی‘ کرپشن اور وسائل پر چند افراد کی اجارہ داری دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔ اسی دوران فرائیڈے ٹائمز میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سینئر صحافی نجم سیٹھی کا ایک مضمون پڑھا۔ میں نے اس حوالے سے کافی غور وخوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وطنِ عزیز پاکستان کو جہاں دس بڑے امراض لاحق ہیں‘ وہاں ایک بڑا مرض بلکہ امراض کی جڑ بدانتظامی ہے‘ جس کی وجہ آبادی کا بڑھنا اور نئے صوبوں کا نہ بننا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نئے صوبوں کے قیام سے تمام بڑے امراض بھلے ٹھیک نہ ہوں لیکن بدانتظامی والا مرض بڑی حد تک ضرور ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یہ مرض بڑھتے بڑھتے اب کینسر بن رہا ہے‘ اب بھی اس کا علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج ہو جائے گا۔ اگر بدانتظامی والا مرض ٹھیک ہو گیا تو باقی امراض کی طرف بھی توجہ دی جا سکے گی۔ نئے صوبوں کا قیام ایک دقیق موضوع ہے تاہم مختصراً بیان کر رہا ہوں۔
2003ء کی بات ہے‘ میں ڈسٹرکٹ ناظم لاہور میاں عامر محمود کی سربراہی میں ضلعی حکومت میں ریونیو کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ ایک دن میں نے نئے صوبوں کے عدم قیام کے حوالے سے میاں صاحب کیساتھ تذکرہ کیا تو گویا دبستان کھل گیا۔ انہوں نے اس حوالے سے کافی ریسرچ کر رکھی تھی‘ جو ایک خوبصورت اور دیدہ زیب کتابچے کی شکل میں تھی۔ تفصیلی مطالعہ کیلئے اس کی ایک کاپی انہوں نے مجھے بھی دی۔ اس موضوع پر بہت باریک بینی اور عرق ریزی سے ریسرچ کی گئی تھی۔ میاں عامر محمود کا دوررس ویژن اور بلدیاتی نظام میں ان کا مثالی دورِ حکومت بھی یاد رکھنے کے لائق ہے۔
تقسیم کے وقت پاکستان دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک مشرقی پاکستان‘ جو صوبہ بنگال اور دوسرا مغربی پاکستان‘ جو چار صوبوں؛ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد یونٹ سسٹم آیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک ایک یونٹ بنا دیا گیا۔ جولائی 1970ء میں یونٹ سسٹم کو ختم کر کے صوبوں کو بحال کر دیا گیا اور مغربی پاکستان کو دوبارہ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں‘ گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیر کی اپنی الگ حیثیت تھی۔ 1973ء کے آئین میں ان چاروں صوبوں کی تقسیم کو آئینی تحفظ دیا گیا اور آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی‘ جب پاکستان کی آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے‘ صوبے چار کے چار ہی ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے نئے صوبوں کے قیام پر جان بوجھ کر توجہ نہیں دی‘ جس سے حکمرانوں کی تو موجیں لگی ہوئی ہیں لیکن ملک وقوم مسائل سے دوچار ہیں۔
پنجاب وسائل اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی پونے تیرہ کروڑ ہے اور اس پر زیادہ تر مسلم لیگ کی حکومت رہی ہے۔ یہاں صرف لاہور ترقی کر رہا ہے‘ باقی پورا صوبہ ترقی کی راہ دیکھ رہا ہے۔ سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ پورٹ کی بدولت کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے مگر آج یہ حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہو چکا ہے۔ جب تک پورٹ کی ترقی نہیں ہو گی‘ ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ آج کراچی کی صورتحال ایسے ہے جیسے کسی ریل گاڑی کو گدھا گاڑی سے کھینچا جا رہا ہو۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی صورتحال بھی نہایت ابتر ہے۔ باقی صوبوں کے حالات ومعاملات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں: وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
ملک میں جاری بدانتظامی کے باعث اب ایک بار پھر نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑ چکی بلکہ زور پکڑ چکی ہے۔ پاکستان کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج کو ختم کرنے اور مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ پاکستان کے صوبے اور موجودہ انتظامی ڈھانچے معاصر دنیا کے مقابلے میں کہیں بڑے ہیں‘ اور صوبوں میں آبادی اور وسائل کے بے تحاشا تفاوت کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں‘ جس سے غربت‘ بیروزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ چاروں صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں لیکن صوبوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث اہم مسائل پر اتفاقِ رائے نہیں ہو پاتا؛ مثلاً کالاباغ ڈیم جیسے انتہائی اہم آبی منصوبے کو صوبوں نے سیاست کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ اربوں ڈالر کا پانی ضائع ہو رہا ہے‘ استعمال کے بغیر سمندر کی نذر ہو رہا ہے مگر صوبوں کو اس کی پروا نہیں۔ ڈیم نہ بنانے کے باعث سیلاب کی وجہ سے ہر سال ناقابلِ تلافی جانی اور کھربوں روپے کی املاک کا نقصان ہوتا ہے۔ صوبوں کی بدانتظامی اور سیاست کی وجہ سے ہم اہم قومی مسائل پر بھی اکٹھے نہیں ہو پاتے۔ صوبے خالص معاشی مسائل کو بھی سیاسی اور لسانی بنیادوں پر دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی بددیانتی‘ بدنیتی اور وسائل پر تصرف کی وجہ سے ملک میں بلدیاتی نظام بھی کھڑا نہیں ہو پایا۔ اگر پرویز مشرف والا بلدیاتی نظام اپنی روح کیساتھ نافذ ہو جاتا توشاید نئے صوبے بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ صوبائی حکومتیں اپنے مفادات پر زد پڑنے کے باعث بلدیاتی نظام کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ نظام کسی طرح قائم ہو جائے تو اس کو چلنے نہیں دیا جاتا‘ لہٰذا ایسی صورت میں وسائل اور اختیارات کی تقسیم کیلئے نئے صوبوں کا قیام ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
اس وقت صوبوں میں بے تحاشا آبادی کے بوجھ کی وجہ سے معاشی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ چھوٹے صوبوں کے قیام سے ملک میں بہتر طرزِ حکمرانی قائم کیا جا سکے گا‘ وسائل کی بہتر تقسیم ممکن ہو سکے گی‘ بجٹ کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔ صوبائی آمدن میں اضافہ ہو گا‘ زرعی اصلاحات سے صوبائی آمدن میں بھی جی ڈی پی کے ایک فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہو سکتا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس کی مد میں آمدن میں اضافہ ہو گا ۔ شہری علاقوں میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سٹے بازی کا خاتمہ ہو گا۔ وفاق اور صوبوں میں ٹیکس نظام میں ہم آہنگی بڑھے گی۔ ہر صوبے میں کم از کم ایک ٹیچنگ ہسپتال اور یونیورسٹی قائم ہو گی‘ خصوصی اقتصادی زونز کے قیام سے صنعتی ترقی میں اضافہ ممکن ہو گا۔ وفاقی ڈویژنز کے قیام سے ٹارگٹڈ معاشی اقدامات شروع ہو سکیں گے۔ روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکیں گے۔ فی کس آمدن میں جو واضح فرق ہے‘ وہ بڑی حد تک کم ہو سکے گا جس سے غربت کی شرح میں کمی ہو گی۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ملکی اور عوامی مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکا بلکہ پٹ چکا ہے۔ یہ ہمارے مروجہ سیاسی نظام اور سیاستدانوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قیامِ پاکستان سے آج تک‘ اہم انتظامی بحران سے نمٹنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پنجاب میں علاقائی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے نئے اضلاع تو ضرور بنے لیکن نئے صوبوں کی طرف جان بوجھ کر توجہ نہیں دی گئی کہ تاکہ صوبے بھر کے وسائل پر چند خاندانوں کا قبضہ اور اجارہ داری قائم رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انتظامی مسائل کے پیش نظر مزید اضلاع بنائے جا سکتے ہیں تو نئے صوبے کیوں نہیں بنائے جا سکتے؟
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دیا گیا‘ مگر قبائلی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنانے کے بجائے اس کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا‘ جس سے انتظامی مسائل مزید بڑھ گئے۔ بعد میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا سیاسی سٹنٹ بھی کھیلا گیا مگر عملاً کچھ نہ ہوا۔ ملتان میں ایک سیکرٹریٹ قائم کر کے ایک چیف سیکرٹری کو بٹھا دیا گیا۔ اب نئے صوبوں کے قیام کیلئے عوام میں ایک بار پھر تحریک پیدا ہوئی ہے۔ اب ہمیں نئے صوبوں کے قیام کی تحریک کو سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved