تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     31-08-2025

مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے

خیبرپختونخوا اور کراچی کے بعد اب پنجاب میں بھی ''سیلِ آب‘‘ نے قیامت ڈھا دی ہے۔ پانی کہیں پہاڑوں سے حملہ آور ہوا‘ کہیں بادلوں سے برسا‘ اور کہیں دریاؤں سے اُبل اُبل کر باہر آیا۔ اس کے ڈھنگ جو بھی ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ جو پانی اس دنیائے رنگ و بو میں زندگی کی رمق باقی رکھ سکتا ہے‘ وہی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ پانی کے بغیر انسان زندہ رہ سکتے ہیں نہ حیوان‘ پرند اور نہ چرند۔ زندگی اور پانی لازم و ملزوم ہیں۔ پانی نہیں ہو گا تو زندگی نہیں ہو گی۔ زندگی پانی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پانی کے ایک پیالے کے لیے بادشاہ پوری سلطنت قربان کر سکتے ہیں۔ بڑی معروف حکایت ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک فقیر کو انعام و کرام سے لادنے کی کوشش کی تو اس نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت جس سلطنت پر آپ کو ناز ہے اس کی قیمت ایک پانی کے پیالے سے زیادہ نہیں ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کیسے تو اس نے کہا: اگر آپ کے جسم سے پانی کا اخراج بند ہو جائے‘ یعنی آپ کو پیشاب نہ آ رہا ہو اور کوئی حکیم کہے کہ آپ آدھی سلطنت مجھے دیں تو میں اس کا علاج کروں گا اور آپ کے جسم سے پانی کا اخراج ممکن بناؤں گا تو کیا آپ اس کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر سکیں گے؟ بادشاہ نے جواب دیا: ہر گز نہیں۔ درویش نے پھر سوال کیا کہ اگر آپ پیاس سے تڑپ رہے ہوں اور کوئی آپ سے کہے کہ میں پانی کا ایک پیالہ آدھی سلطنت کے عوض فراہم کروں گا تو کیا آپ اس سے انکار کر سکیں گے؟ بادشاہ نے کہا: میں آدھی سلطنت اس کے نام کردوں گا۔ اس پر درویش بولا: جس سلطنت کی قیمت ایک پانی کے پیالے کے برابر ہو‘ آپ اس کے زعم میں کیوں مبتلا ہیں اور مجھے کیوں حرص و ہوس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر بادشاہ شرمسار ہو کر خاموش ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ اس بادشاہ کو ''احمق‘‘ قرار دے دیں کہ وہ درویش کی بات مان گیا۔ اگر وہ درویش آج ہمارے درمیان ہوتا تو اس کی گردن اڑا دی جاتی‘ اگر رحم بھی کھایا جاتا تو دس سال قید کی سزا باآسانی سنائی جا سکتی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ پرانے زمانوں کے بادشاہ آج کے بادشاہوں کے مقابلے میں کم ہمت تھے۔ عقل کی باتیں نہ صرف سن لیا کرتے بلکہ ان سے متاثر بھی ہو جاتے تھے جبکہ آج کے بادشاہوں کی عقل پر اجارہ داری ہے۔ وہ اس پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والے میں عقل کی ادنیٰ سی مقدار بھی موجود نہیں ہوتی کہ اگر عقل ہوتی تو وہ بادشاہ سلامت سے اختلاف کر کے اپنے آپ کو خطرے میں کیوں ڈالتا؟
بات کہاں سے کہاں نکل گئی‘ عرض یہ کرنا مقصود تھا کہ وہ پانی جس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں‘ زندگیوں کو نگل رہا ہے۔ تباہی پھیلا رہا ہے۔ بستیاں اُجاڑ رہا ہے۔ بونیر کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اہلِ کراچی جن مشکلات سے دوچار ہوئے‘ اور اب اہلِ پنجاب جس آفت کا سامنا کر رہے ہیں وہ سب پانی کی پیدا کردہ ہیں۔ بادلوں سے وہ ایسے برسا ہے کہ دریا بپھر گئے ہیں‘ پہاڑ لرز گئے ہیں اور بستیاں اجڑ گئی ہیں۔ راوی اور ستلج‘ جنہیں مردہ دریا سمجھا جاتا تھا‘ جن کے بارے میں بڑے بڑے جغادری کہتے تھے کہ یہ ابدی نیند سو چکے ہیں‘ یہ اس طرح بیدار ہوئے ہیں کہ برسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ پانی ان کے اندر اس طرح آیا ہے کہ یہ چھوٹے پڑ گئے ہیں۔ بپھری ہوئی لہروں نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا‘ گھروں کو تنکوں کی طرح بہا لے گئیں اور لہلہاتی فصلوں کو برباد کر ڈالا۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اعلان کر رہے تھے کہ ہم پاکستان کا پانی بند کر دیں گے۔ پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے ناقابلِ تنسیخ معاہدے کو یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کر رہے تھے‘ وہ پاکستان کے حصے سے کہیں زیادہ پانی اب اس کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ چناب اور جہلم تو رہے ایک طرف راوی اور ستلج میں بھی پانی اس طرح چھوڑ رہے ہیں کہ سنبھالا نہیں جا رہا۔ پاکستان جو انہیں دھمکا رہا تھا کہ اگر انہوں نے پانی بند کیا تو یہ اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ اب ان پر آبی جارحیت کا الزام لگ رہا ہے کہ انہوں نے بے تحاشا پانی پیشگی اطلاع کے بغیر پاکستان پر چھوڑ دیا ہے۔ بھارتی پنجاب میں بھی پانی نے تباہی مچا رکھی ہے اور پاکستانی پنجاب میں بھی اس نے طوفان اٹھا دیا ہے۔ جناب نریندر مودی کو اب پانی پانی ہو جانا چاہیے بلکہ اس پانی میں ڈوب مرنا چاہیے کہ جس کے ذریعے وہ ہماری زندگی اجیرن کرنا چاہتے تھے‘ اب انہیں گھیرے میں لیے ہوئے ہے اور وہ اس سے جان چھڑانے کے لیے ہمارے خلاف آبی جارحیت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
چند ہی ماہ پہلے سندھ میں طوفان اٹھا ہوا تھا کہ ہم چولستان کو سیراب کرنے کے لیے دریائے ستلج سے نہر نہیں نکالنے دیں گے۔ الزام لگایا جا رہا تھا کہ ستلج میں تو کبھی پانی آئے گا نہیں‘ دریائے سندھ کا پانی اڑا کر وہاں لے جایا جائے گا۔ بڑے بڑے وکیلوں اور دانشوروں سے لے کر ہاریوں اور کھیت مزدوروں تک سب نے ہنگامہ اٹھا رکھا تھا۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہے تھے‘ اور سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھے کہ نہر بنانے کا منصوبہ جب تک ختم نہیں ہو گا وہ راہ سے نہیں ہٹیں گے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے عاجز آ کر سرِ تسلیم خم کر دیا تو ان کی جان میں جان آئی۔ آج بھرا اور بپھرا ہوا ستلج ان کے ایک ایک لفظ کی تردید کر رہا ہے اور وہ سب کالے حروف جو ان کی زبان پر تھے انہی کے منہ پر ملے گئے ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایسی ہے کہ آئندہ برس بارشیں اس سے بھی زیادہ ہوں گی‘ ستمبر میں تازہ سلسلے کی پیش گوئیاں ہو رہی ہیں۔ صورتحال سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ جہاں ماضی کی حماقتوں کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ جنگلات کاٹے گئے اور دریاؤں کے اندر بستیاں بنائی گئیں‘ وہاں آئندہ کے لیے تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ کوئی ڈیم بنانے کی بات کر رہا ہے تو کوئی دریاؤں کے کنارے کنوئیں کھودنے پر زور دے رہا۔ کوئی نہریں نکالنے اور زیر زمین آبی ذخیرے بنانے کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔ کوئی سیمنٹ اور بجری کے ڈیموں کی افادیت کا انکار کرتے ہوئے ربڑ ڈیم بنانے کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ وزیراعظم شہباز شریف سے یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ایک قومی کانفرنس بلائیں۔ جہاں آبی ماہرین موجود ہوں‘ صوبائی حکمران بھی اور اہلِ دانش بھی۔ سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ قومی منصوبہ تیار کریں‘ جس پر سختی سے عملدرآمد کر کے مستقبل کو محفوظ تر بنایا جا سکے‘ پانی کو حیات کش کے بجائے حیات بخش بنایا جا سکے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved