تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     31-08-2025

سفارتی پل‘ اقتصادی استحکام اور نئے چیلنجز

پاکستان اور چین کے تعلقات صرف دو ممالک کی دوستی کی کہانی نہیں بلکہ یہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے ایک کلیدی محور بن چکے ہیں۔ یہ تعلق وقت اور حالات کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی دوستی نے ایک نئی جہت حاصل کی ہے جو سکیورٹی‘ معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ چین اسی کا تسلسل ہے جو نہ صرف باہمی تعلقات کو مزید گہرا کرے گا بلکہ اس کے اثرات علاقائی اور عالمی منظر نامے پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔ یہ دورہ کئی وجوہات کی بنا پر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے وزیراعظم شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہانِ مملکت کونسل کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ایس سی او ایک ایسا اہم پلیٹ فارم ہے جو چین‘ روس اور بھارت جیسے بڑے ممالک سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کو ایک میز پر لاتا ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی‘ اقتصادی اور سکیورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ علاقائی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک نادر موقع ہے کہ وہ نہ صرف اہم عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرے بلکہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی اپنے روابط کو بہتر بنائے‘ جن کے ساتھ پاکستان براہِ راست تجارتی اور توانائی کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ یہ اجلاس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے‘ جہاں پاکستان دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ چیلنجز پر بات کر سکتا ہے اور مشترکہ مفادات کے لیے حکمت عملی بنا سکتا ہے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات وقت کے ساتھ نئی سمت اختیار کر رہے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب عالمی سطح پر شدید معاشی اور جغرافیائی کشمکش جاری ہے‘ وزیراعظم شہباز شریف اور صدر پوتن کی متوقع ملاقات غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہو گی۔
وزیراعظم کے دورے کا ایک اہم پہلو دوسری جنگ عظیم میں فاشزم کی شکست کی 80ویں سالگرہ پر بیجنگ میں ہونے والی تاریخی فوجی پریڈ میں ان کی شرکت ہے۔ یہ پریڈ نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور عالمی امن کے لیے اس کی کوششوں کی عکاسی کرے گی بلکہ پاکستان کی طرف سے اس تاریخی موقع پر شرکت دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور دفاعی تعلقات کی گہرائی کا بھی اظہار ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے دفاعی تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا دفاعی شراکت دار ہے جو ہمیں جدید عسکری ساز و سامان اور ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔ اس پریڈ میں وزیراعظم کی موجودگی ان تعلقات کو مزید تقویت دے گی اور یہ پیغام دے گی کہ دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ایسا موقع ہے جب دنیا کے بڑے بڑے رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے اور عالمی امن و استحکام کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔ یہ تقریب پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ چین کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔
وزیراعظم کا یہ دورہ صرف سیاسی اور عسکری پہلوؤں تک محدود نہیں بلکہ اس میں پاکستان کے لیے بے پناہ اقتصادی مواقع بھی موجود ہیں۔ اس دورے کے دوران وزیراعظم چینی کاروباری حضرات اور کارپوریٹ ایگزیکٹوز سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ دوطرفہ تجارت‘ اقتصادی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ایونٹ پاکستان چین بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری کانفرنس میں ان کا خطاب ہو گا جو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
کئی دہائیوں کی جدوجہد اور تجربات کے بعد دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں۔ حکومتوں کا کردار سہولت کار کا ہوتا ہے جو سرمایہ کاروں کو آسانیاں فراہم کرتی ہیں اور ملک میں سرمایہ کاری کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں۔ اسی سوچ نے بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ اس نظام کے تحت حکومتیں یہ بندوبست کرتی ہیں کہ ان کے سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کو دوسرے ملک کے سرمایہ کاروں سے براہ راست بات چیت اور معاہدے کرنے کے مواقع ملیں۔ پاکستان اگرچہ اس سمت میں کافی دیر سے متوجہ ہوا ہے لیکن ہمارے لیے یہی درست اور پائیدار راستہ ہے۔ ہم بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دے کر نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس سے سرمایہ کاری‘ ٹیکنالوجی کا تبادلہ اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ممکن ہے۔ یہ شراکت داری اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ معاشی فیصلے سیاسی اتار چڑھاؤکے بجائے خالصتاً تجارتی اور معاشی ضروریات پر مبنی ہوں۔ یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی ملک کو طویل مدتی خوشحالی اور استحکام کی جانب لے جاتا ہے۔ وزیراعظم کی چین میں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں سی پیک کے دوسرے مرحلے کو نئی توانائی دیں گی۔ اس لحاظ سے یہ دورہ صرف موجودہ تعلقات کی عکاسی نہیں بلکہ دوستی اور تجارت کے ایک نئے دور کا آغاز ہے‘ جہاں دونوں ممالک کی معیشتیں ایک نئے سفر پر گامزن ہوں گی۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو اس قدر مضبوط بنیاد فراہم کرے گا کہ کسی بھی سیاسی یا علاقائی تناؤ کے باوجود یہ تعلق متاثر نہ ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایسے نازک اور اہم وقت میں ہو رہا ہے جب پاک بھارت حالیہ جنگ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔ یہ صورتحال نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ یہ اجلاس دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست بات چیت کا ایک غیر رسمی مگر اہم موقع فراہم کر سکتا ہے جو کہ جنگ کے بعد سفارتی جمود کو توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ فوری طور پر کسی رسمی ملاقات کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا لیکن ایک ہی کمرے میں موجودگی‘ روایتی خیر سگالی کے اشارے اور غیر رسمی گفتگو کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔ سفارت کاری کی تاریخ میں ایسے مواقع بارہا آئے ہیں جب دو دشمن ممالک کے رہنماؤں کی ایک ہی چھت تلے موجودگی نے تعلقات میں بہتری کی راہ ہموار کی۔ اس موقع کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور مستقبل میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک ''سفارتی پل‘‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ کیا دونوں رہنما اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوئی مشترکہ راستہ تلاش کر پائیں گے یا پھر یہ ملاقات صرف ایک علامتی موجودگی تک ہی محدود رہے گی۔ اس اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست مکالمے کی کوئی بھی کوشش علاقائی امن اور استحکام کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو گی۔ اس سے نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن کا پیغام جائے گا بلکہ یہ عالمی برادری کو بھی یہ باور کرائے گا کہ اختلافات کے باوجود سفارت کاری کا راستہ کبھی بند نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved