تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     01-09-2025

مصائب اور آفات سے نجات

زمین پر آنے والی جملہ مصیبتیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آتی ہیں۔ ان مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے انسان اپنی بساط کی حد تک کوشش کرتا ہے تاہم بہت سی مصیبتوں کے دوران کی جانے والی کوششوں کے باوجود وہ ان سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا؛ چنانچہ انسان کو مادی تدابیر کے ساتھ روحانی تدابیر کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں مصائب کے دوران اختیار کی جانے والی چند اہم تدابیر درج ذیل ہیں۔
1۔ دعا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دعا کرنے کی بہت رغبت دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 186 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں‘ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ النمل کی آیت: 62 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بھلا کون ہے جو بیقرار کی دعا قبول کرتا ہے اور برائی کو دور کرتا ہے‘‘۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی تکلیف کا ذکر کیا کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو غم سے نجات دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور اس کے بعد ان کی دعا کا بھی ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے ان کی بیماری کو دور کر کے شفا عطا فرما دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں اپنی برگزیدہ ہستیوں کی دعا قبول فرماتے ہیں وہیں عام مومنین کی دعائوں کو بھی قبول فرماتے ہیں۔ اس حوالے سے احادیث طیبہ میں بہت سارے سبق آموز واقعات موجود ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ رات گزارنے کیلئے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں‘ سوائے اس کے کہ تم سب‘ اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ سے دعا کرو۔ اس پر ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر واپس آیا تو وہ (میرے والدین) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کیلئے دودھ نکالا اور جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے کسی اور کو دودھ پلائوں؛ چنانچہ میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اس وقت دودھ پیا‘ اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا کیلئے کیا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجے میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا مگر نکلنا ابھی ممکن نہ تھا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی‘ میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا‘ لیکن وہ نہ مانی۔ ایک سال سخت قحط پڑا تو وہ مجبور ہو کر میرے پاس آئی۔ میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ مجھ سے برا کام کرے گی۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پا چکا تھا لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آ گیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے؛ چنانچہ چٹان ذرا سی مزید کھسک گئی‘ لیکن اب بھی باہر نہیں نکلا جا سکتا تھا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: پھر تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ! میں نے چند مزدور کام پر رکھے‘ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی‘ مگر ایک مزدور ایسا تھا جو اپنی مزدوری لیے بنا چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت سا نفع حاصل ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے بندے! مجھے میری مزدوری دیدے‘ میں نے کہا: یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے‘ اونٹ‘ گائے‘ بکری اور غلام‘ یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا: اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: میں مذاق نہیں کرتا‘ چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضامندی کیلئے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ تینوں غار سے باہر نکل آئے۔
2۔ توبہ و استغفار: انسان کی زندگی میں آنے والے بہت سے مصائب کا تعلق اس کے اپنے اعمال سے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سورۃ الشوریٰ کی آیت: 30 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں (کے سبب) سے آتی ہے‘‘۔ جب کوئی قوم یا معاشرہ اجتماعی طور پر گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ان کے اعمال کا فساد ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سورۃ الروم کی آیت: 41 میں ارشاد ہوا ''خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آ جائیں‘‘۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورۂ نوح کی آیات: 10 تا 12 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے قول کو یوں بیان فرمایا ''پس اس (نوح) نے کہا: اپنے رب سے بخشش مانگو‘ بیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا۔ اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا‘‘۔
3۔ تقویٰ: جب انسان اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے گناہوں سے بچتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الطلاق کی آیت: 2 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے‘‘۔
4۔ توکل: جب انسان کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر مکمل توکل کرنا چاہیے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نجات اور مصیبت کو دور کرنے کی راہ آسان فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الطلاق کی آیت: 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے‘ بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے‘‘۔
5۔ انفاق فی سبیل اللہ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے خوف اور غم کو دور فرما دیتے ہیں۔ بہت سی پریشانیاں‘ مصائب اور تکالیف صدقہ و خیرات سے دور ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 274 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں رات اور دن چھپا کر اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کیلئے اپنے رب کے ہاں اجر ہے‘ ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
اگر مصائب‘ تکالیف اور ابتلا کے دور میں مادی اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا نکات پر بھی عمل کر لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انسانوں کو تکالیف اور مصائب سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے مصائب اور تکالیف کو دور فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved