چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے گزشتہ دنوں پاکستان‘ بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا اور دوطرفہ اور علاقائی مسائل پر اہم بات چیت ہوئی۔ بھارت کا دو روزہ دورہ ایک اہم پیش رفت تھی کیونکہ اس دورے کے دوران چین اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاملات کا مقصد ان کے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ کابل میں‘ چینی وزیر خارجہ نے نہ صرف طالبان کے وزیر اعظم مُلا حسن اخوند سے ملاقات کی بلکہ افغانستان‘ چین اور پاکستان کے سہ فریقی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار 20 اگست کو اس مقصد کیلئے کابل گئے تھے۔ بعد ازاں 20 اگست کی شام چین کے وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے لیے اسلام آباد آئے۔
چین کے وزیر خارجہ کا دہلی کا دورہ بھارت اور پاکستان کیلئے غیر ملکی تعلقات کو آگے بڑھانے کا طریقہ سیکھنے کیلئے ایک اچھی مثال ہے۔ چین اور بھارت میں بہت سے اختلافات ہیں اور چین کا بھارتی علاقوں پر دعویٰ بھی ہے‘ جس میں شمال مشرقی بھارت میں ریاست اروناچل پردیش پر اس کی ملکیت کا دعویٰ بھی شامل ہے۔ 2020ء کے موسم گرما میں دونوں ملکوں کی لداخ کے علاقے میں سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ان سیاسی اختلافات کے باوجود‘ بھارت اور چین تجارت اور سفر سمیت تعلقاتِ کار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ کے دہلی کے دورے میں بھارت اور چین نے براہِ راست ہوائی پروازیں شروع کرنے پر اتفاق کیا جو 2020ء میں کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے معطل کر دی گئی تھیں۔ انہوں نے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ سرحد سے متعلق مذاکرات میں سرحدی علاقوں سے فوجیوں کو پیچھے ہٹانا اور سرحدی امور پر مشاورت اور ہم آہنگی کیلئے ورکنگ گروپس کی تشکیل شامل تھی اور حال ہی میں چین میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نے بھی شرکت کی ۔
سنگین سیاسی اختلافات کے باوجود معاشی تعلقات اور تجارت کو برقرار رکھنے کی ایک اور مثال چین اور تائیوان کا معاملہ ہے۔ چین تائیوان کو اپنے علاقے کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ تائیوان کو ایک علیحدہ علاقے کے طور پر دیکھتا ہے اور پاکستان سمیت دنیا کی بیشتر اقوام تائیوان پر چین کے دعوے کو تسلیم کرتی ہیں۔ ان اختلافات کے باوجود‘ چین اور تائیوان اقتصادی تعلقات اور تجارت کو برقرار رکھتے ہیں۔ دونوں علاقوں کے شہری کاروبار کیلئے ایک دوسرے کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چین کے تعلقات کی ان دو مثالوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ صورتحال کی طرف بڑھیں تو صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی پریشان کن تعلقات کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں اور انہوں نے عملی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تمام تعامل کو معطل کر رکھا ہے۔ ادویات کے خام مال کی محدود تجارت کے استثنا کے ساتھ‘ ان کے درمیان کوئی براہِ راست تجارت نہیں۔ فی الحال واہگہ زمینی راستے کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی براہِ راست سفری روابط موجود نہیں۔ ان کے سفارتی تعلقات کو ہائی کمشنرز کی سطح سے کم کر دیا گیا ہے۔ بھارت دوطرفہ سطح پر پاکستان کے ساتھ کوئی کھیل کھیلنے سے انکار کرتا ہے۔ ہمیں بھارت اور پاکستان کے تعلقات کا موازنہ تائیوان کے ساتھ چین کے تعلقات سے کرنے کی ضرورت ہے۔
کابل میں چین کے وزیر خارجہ سہ فریقی اجلاس میں افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ شامل ہوئے تاکہ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے طریقوں اور ذرائع کو تلاش کیا جا سکے نیز یہ کہ چین اور پاکستان اپنے معاشی اور سلامتی کے مسئلے سے نمٹنے میں کابل کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم بدلے میں چین اور پاکستان کو توقع تھی کہ افغان سرزمین کو وہ دہشت گرد گروہ استعمال نہیں کریں گے جو پاکستان میں اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں امن و استحکام کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان نے کابل حکومت کی اس ناکامی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں موجود اپنی پناہ گاہوں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ چین کو افغانستان میں مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ETIM) کی موجودگی پر تشویش ہے جو چین کے سنکیانگ مسلم علاقے میں تشدد میں ملوث ہے۔ کابل میں ان دو امور پر کوئی خاطر خواہ بات سامنے نہیں آئی لیکن چین اور پاکستان افغان عبوری حکومت کو علاقائی استحکام کے امور میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ کابل حکومت کی سلامتی سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کے باوجود چین افغانستان میں کان کنی کے کچھ منصوبوں کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگرچہ پاکستان سے افغانوں کو نکالنے کا معاملہ کابل اجلاس میں نہیں اٹھایا گیا لیکن کابل حکومت نے پاکستان کو پہلے اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا تھا کہ افغانستان واپس آنے والے افغانوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے معاشی اور انتظامی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں ملک کی اعلیٰ حکومتی اور عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ چینی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ چین اور پاکستان کا مشترکہ مستقبل ہے اور بیجنگ علاقائی امن‘ ترقی اور استحکام کو فروغ دینے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا ۔ اسلام آباد میں پاکستان چین سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا چھٹا دور منعقد ہوا اور انہوں نے اپنی آہنی سٹرٹیجک شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا اور خطے اور دیگر دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور باہمی تعاون کے ساتھ سلامتی اور استحکام کے ان تمام مسائل پر مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔ توقع ہے کہ پاکستان چین سے نئے ایئر ڈیفنس سسٹم حاصل کرے گا۔ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جس کا مقصد اس کے دوسرے مرحلے میں اس کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ انہوں نے افغانستان کو سی پیک سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ چین اور پاکستان دونوں اس کے کام کی رفتار کو تیز کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ جلد از جلد مکمل طور پر کام کرے۔ تاہم بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی کی سرگرمی اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں جاری بارشوں اور سیلاب نے بھی اس کے کام کو سست کردیا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری جب مکمل طور پر فعال ہو جائے گی اور گوادر بندرگاہ بھی پوری طرح کام کرنے لگے گی تو اس سے پاکستان کو نمایاں معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ چین‘ امریکہ کی طرح‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں معدنیات کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے مئی میں پاک بھارت جنگ پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن انہوں نے پاکستان کی آزادی اور یکجہتی کیلئے چین کے عزم کا اعادہ کیا اور خطے میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔ چین ترجیح دے گا کہ بھارت اور پاکستان اپنے دوطرفہ مسائل کے پُرامن حل کی طرف کام کریں۔چین کے وزیر خارجہ کا تین جنوبی ایشیائی ممالک کا دورہ اس خطے کی ریاستوں کے ساتھ مثبت اور معاشی طور پر فائدہ مند تعلقات برقرار رکھنے کی چین کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران انہوں نے اقتصادی ‘ صنعتی‘ دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں مل کر کام کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ مئی کی جنگ میں پاک فضائیہ کی جانب سے چینی جیٹ لڑاکا طیاروں‘ میزائلوں اور ڈرونز کے کامیاب استعمال کے بعد پاکستان بالخصوص اپنی فوج پر چین کا اعتماد بڑھ گیا ہے۔ چین اب دفاع سے متعلق ٹیکنالوجیز کو پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے زیادہ تیار ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved