تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     02-09-2025

سیّد الانصار حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ

شاعری‘ مہمان نوازی‘ سخاوت‘ بڑے قبیلے سے تعلق اور بہادری عربوں کے ہاں کسی شخص کے معزز ہونے کیلئے بنیادی صفات شمار ہوتی تھیں۔ قبیلہ بنو خزرج بڑی آبادی اور کثیر باغات والا قبیلہ تھا۔ یثرب میں ان کا حریف عرب قبیلہ بنو اوس تھا۔ اس قبیلے میں بہت زیادہ خوبیاں پائی جاتی تھیں مگر تعداد میں وہ خزرج کے مقابلے میں قلیل تھے۔ خزرج قبیلے کی ذیلی شاخیں بھی ایک درجن سے زائد تھیں۔آپس میں بھی ہر ایک شاخ کے لوگ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے تھے۔ یہ احساسِ برتری پورے عرب معاشرے کے طول و عرض میں ہر قبیلے کے دل میں موجود تھا۔ نبی پاکﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو ہر قبیلے سے مسلمان ہونے والے خوش نصیب بندگانِ خدا آپﷺ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ یہ سلسلۂ خیر ان لوگوں کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا اور رسول رحمتﷺ کیلئے بھی مسرت کا باعث تھا۔ حضورﷺ بدر الدجیٰ تھے اور آپ کے اصحاب کواکبِ درخشندہ اور حسین کہکشاں تھے۔
ایک روز مدینہ کے معروف قبیلے بنو سلمہ کے کچھ اہلِ ایمان آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے اپنے معمول کے مطابق ان سے پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا ''ہمارا سردار جد بن قیس ہے‘‘۔ آپﷺ اکثر لوگوں بالخصوص سردارانِ قبائل کی خصوصیات سے واقف تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ جو کنجوسی میں مشہور ہے۔ ان افراد نے اثبات میں جواب دیا مگر اپنے سردار کی کچھ خوبیاں بھی بیان کیں تو آپﷺ نے فرمایا: انسان کے اندر کنجوسی اور بخل سے بدتر کوئی شے نہیں ہوتی (یعنی یہ سب خو بیوں کو کھا جاتی ہے)۔ پھر ارشاد فرمایا: آج سے تمہارے سردار سفید اور گھنگریالے بالوں والے عمرو بن جموح ہیں۔ حضرت عمروؓ بن جموح اس قدر خوبیوں کے مالک اور اپنے قبیلے میں اتنے ہر دلعزیز تھے کہ ارشادِ نبوی سن کر قبیلے کا ہر فرد خوشی سے جھوم اٹھا اور اس روز کے بعد اس بزرگ صحابی کو سید بنی سلمہ اور سیّد الانصار کہا جانے لگا۔ (بخاری الادب المفرد‘ طبرانی فی معجم الاوسط‘ عن جابرؓ بن عبداللہ)
واضح رہے کہ جد بن قیس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ عبداللہ بن اُبی کا ساتھی اور منافق تھا۔ وہ صلح حدیبیہ کے موقع پر چودہ سو صحابہ کے ساتھ قافلے میں شریک تھا۔ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو آنحضورﷺ نے درخت کے نیچے تمام صحابہ کرامؓ سے موت پر بیعت لی کہ اگر عثمان کو واقعی شہید کر دیا گیا ہے تو ہم اس کے خون کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ اس بیعت کو 'بیعتِ رضوان‘ کہا جاتا ہے اور اس میں شامل ہونے والے اصحابِ رسول کو 'اصحاب الشجرہ‘ کہا جاتا ہے۔ مناقب وفضائل میں یہ صحابہ کرام باقی اصحاب سے افضل شمار ہوتے ہیں۔ تمام کے تمام صحابہ کرامؓ نے اس روز آپﷺ کی بیعت کی مگر جد بن قیس اپنے اونٹ کی اوٹ میں لیٹ گیا اور بیعت میں شریک نہیں ہوا۔
قبولِ اسلام سے قبل عمروؓ بن جموح کی جاہلی زندگی بھی عجیب وغریب تھی۔ بہت زبردست شاعر تھے اور قبیلے کے لوگوں کے نزدیک بہت بہادر‘ سخی اور عقل مند شخصیت کے مالک بھی تھے۔ البتہ بت پرستی میں بھی سب سے آگے تھے۔ عمرو بن جموح نہ صرف بت پرست تھے بلکہ اپنے قبیلے کے بت خانے کے مجاور اور متولّی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں قیمتی لکڑی کا ایک خوبصورت بت سجا کر رکھا ہوا تھا۔صبح شام اس کی عبادت کرتے اور اس سے حاجات پوری کرنے کیلئے دعائیں مانگتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ان کے خاندان‘ قبیلے اور خود ان کے اہلِ خانہ کے کئی افراد بشمول اہلیہ وصاحبزادگان حلقہ بگوشِ اسلام ہو چکے تھے مگر وہ ان سب باتوں سے لاتعلق‘ اپنی لگن میں مست اور بت پرستی میں مگن تھے۔ ان کے بیٹے معاذؓ بن عمرو‘ جو نہایت ہونہار اور انتہائی ذہین نوجوان تھے‘ مسلمان ہو چکے تھے۔ حضرت معاذؓ بن عمرو تو آنحضورﷺ سے مکہ جا کر بھی ملے تھے؛ البتہ بیعت عقبہ میں شمولیت کا اعزاز حاصل نہ کر سکے۔
عمرو بن جموح بزرگ ہو چکے تھے۔ سبھی گھر والے ان کا احترام کیا کرتے تھے‘ مگر اب اسلام قبول کر لینے کے بعد تمام اہلِ خانہ کوان کی بت پرستی پر ضد اور اصرار سے بڑی ذہنی اذیت پہنچتی تھی۔ توحید پر ایمان رکھنے والوں کے گھر میں واقعی بہت بڑا المیہ تھا۔ آخر آپ کے بیٹے معاذؓ کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے چند دیگر نوجوان صحابہ کو ساتھ ملایا اور آدھی رات کو جب سب لوگ سو گئے تو انہوں نے عمرو بن جموح کے بت کو اٹھایا اور غلاظت کے ایک ڈھیر پر جا کر پھینک دیا۔ عمرو بن جموح نے صبح اٹھ کر اپنے بت کی پوجا کرنا چاہی تو اسے اپنی جگہ سے غائب پایا۔ بہت سٹپٹائے اور غصے سے کہنے لگے: میرے معبود کے ساتھ کس نے یہ حرکت کی ہے۔ آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بت تک پہنچ گئے۔ بڑے دل گرفتہ ہوئے‘ اسے اٹھا کر گھر لائے اور دھو کر خوشبو میں بسایا‘ پھر اس کی جگہ پر اسے رکھ دیا۔ نوجوان صحابہ نے اپنا یہ عمل رات کے پچھلے پہر کئی دنوں تک جاری رکھا۔ ہر رات بت کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا۔ وہ بھی ہر روز بت کو تلاش کرکے لاتے مگر اب اس بت سے مایوسی ہوتی چلی گئی۔
اس کشمکش میں وہ خاصے پریشان ہوئے۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں۔ رات بھر جاگنا بھی ممکن نہ تھا اور بت کی حفاظت کیلئے کوئی پہرے دار بھی دستیاب نہ تھا۔ توحید پرست نوجوان اپنے کام میں پوری دلچسپی اور استقامت کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ ایک روز ان نوجوانوں کو ایک ترکیب اور سوجھی‘ دیکھا کہ ایک جگہ مردہ کتا پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے بت کو اس مرے ہوئے کتے کے ساتھ رسی سے باندھا اور ان دونوں کو ایک اندھے کنویں میں لٹکا دیا جہاں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔ رسی کا ایک سرا کنویں کی منڈیر سے باندھ دیا۔ اگلی صبح بت کی تلاش کے دوران عمرو بن جموح خاصے پریشان ہوئے۔ آخر کسی سے اس کا اتا پتا چلا۔ وہاں جا کر دیکھا تو وہ بت کتے کے ساتھ بندھا ہوا تھا‘ اب ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوں نے بت کو لعن طعن کی کہ تُو اتنا بے بس ہے کہ تجھے مرے ہوئے کتے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ میں آئندہ کبھی تیری عبادت نہیں کروں گا۔
اس موقع پر ان کے نوجوان بیٹوں نے بڑی حکمت کے ساتھ انہیں بتایا کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بنا سکتے ہیں نہ بگاڑ سکتے ہیں۔ یہ بے جان لکڑی اور پتھر کی مورتیاں بالکل بیکار ہیں‘ ان کے ہاتھ میں نہ نفع ہے‘ نہ نقصان! اور انسان کی شان ومقام سے بہت فروتر ہے کہ ان کی پرستش کرے۔ کسی بھی عقلمند انسان کو ان بے جان چیزوں کی پوجا نہیں کرنی چاہیے۔ اب قسمت بدلنے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ عمرو بن جموح سوچ میں پڑ گئے اور نوجوان بیٹے سے کہا کہ تم جس نبی پر ایمان لائے ہو ان کا کلام تو مجھے سنائو۔ آپ کے بیٹے معاذ بن عمرو نے اس موقع پر سورۃ الفاتحہ کی آیات الحمدللہ سے لے کر الصراط المستقیم تک پڑھیں۔ ایک تو تلاوت میں بندۂ مومن کا سوز و گداز اور دوسرا قرآن حکیم کی معجز نما آیات کی بے مثال فصاحت وبلاغت‘ بس ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ عربی زبان کے رموز واسرار جاننے والا فصیح وبلیغ شاعر اس کلامِ بے مثال کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔
پوری یکسوئی کے ساتھ عربی زبان کا مشہور شاعر عمروؓ بن جموح پکار اٹھا کہ یہ تو بہت شاندار کلام ہے۔ اس جیسا کلام کسی بندے کے بس میں نہیں یعنی یہ یقینا اللہ پاک کا کلام ہے۔ قرآن تو ہے ہی ایک معجزہ‘ جو تاقیامت اپنی اس شان کا اظہار کرتا رہے گا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved