دریاؤں اور بارشوں سے اتنی تباہی‘ اتنے لوگ بے گھر اوربے سروساما ن اور حیرانی یہ کہ سرکار کی طرف سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے چندے کی کوئی اپیل اب تک نہیں کی گئی۔ دولت کی اندرونِ ملک بھی کمی نہیں لیکن غیر ملکی ہم وطن دینے پہ آئیں تو بہت کچھ دے دیتے ہیں۔ لہٰذا عجیب سی بات ہے کہ پانیوں کی وجہ سے تباہی جاری ہے اور کوئی چندہ وغیرہ کی پکار نہیں۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو چیخ چیخ کر امداد کے لیے کہنا چاہیے تھا لیکن ایک علاقہ ہے جو تباہی کا سامنا کر رہا ہے اور دیکھا جائے تو بس معمول کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ بٹھائے گئے لیڈران بھی زیادہ تر رسمی اور فوٹو شوٹ قسم کے دورے کر رہے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اور جہاں تک غیرملکی ہم وطن ہیں‘ ان سے تو کچھ کہا ہی نہیں گیا۔
ایک وجہ تو سمجھ آتی ہے اور یہ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام موجودہ حکمران‘ بٹھائے گئے کے چکر میں نہیں پڑتے‘ باجماعت ہوکر تارکینِ وطن سے کچھ اپیل کریں تو ان کی کوئی نہیں سنے گا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ سننے کے بجائے ان پر تبرے کَسے جائیں گے۔ مزاحیہ قسم کے ٹک ٹاک بنیں گے اور وہ کچھ کہا جائے گا کہ انسان سن نہ سکے اور ہاتھ کانوں کو لے جائے۔ بدگمانیاں یہاں تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کیفیت کی وجوہات جو بھی ہوں ان میں جانے کی ضرورت نہیں۔ عرض صرف اتنی ہے کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سرکار کا روپ دھارے چہرے سامنے آئیں تو باہر بیٹھے بہت سے پاکستانی بھائی اور بہنیں نامناسب رویوں پر اُتر آئیں۔ یہ تو ہم دیکھ چکے کہ سیاسی حالات جب یہاں کشیدہ تھے تو حکومتی عہدیداروں کے ساتھ باہر کیا ہوتا تھا۔ ہم جو چمنستان میں بیٹھے ہیں‘ باہر کی کیفیت صحیح طرح سمجھ نہیں سکتے۔ ہم تو بہت ساری اداؤں پر مجبور ہوتے ہیں‘ کہنے اور کرنے میں احتیاط برتتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے جائے تو نتائج تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ باہر مقیم پاکستانیوں کو ایسی کوئی مجبوری نہیں۔ جو جی میں آئے کر بیٹھتے ہیں کیونکہ یہاں کے موسم اور وہاں کے موسم میں فرق ہے۔ اسی لیے کئی ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ کوئی عہدیدار قسم کا معتبر کسی مجمعے کے ہتھے چڑھ گیا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔
ایسی نفسیاتی کیفیت جب بن جائے تو چندے کی اپیل آپ کس سے کریں اور کیسے کریں۔ یہ درست ہے کہ حکمران اور اہم عہدیدار باہر کے دوروں پر جائیں تو ایک آدھ تقریب ہوتی ہے جس میں باہر مقیم پاکستانیوں سے خطاب ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسی تقریبات نہیں ہوتیں کہ جس میں ہر کوئی منہ اٹھائے آ سکے۔ سفارت خانوں کے پاس شریف اور بے ضرر ہم وطنوں کی فہرستیں ہوتی ہیں جن کو ایسے مواقع پر بلایا جاتا ہے۔ ایسے ہم وطن جن پر بھروسہ کیا جا سکے کہ صحیح مواقع پر تالیاں بجائیں گے‘ ٹیڑھے قسم کے سوال پوچھنے کے بجائے ایسے سوال پوچھیں گے جو قابلِ قدر مہمانوں کی طبیعت کو ناگوار نہ گزریں۔ کھلی دعوت نہیں ہوتی کہ ہر کوئی ٹہلتا ہوا آ سکے۔ البتہ ایسے لیڈر بھی ہم نے ضرور دیکھے ہیں جو بند کمروں میں اپنے آپ کو محدود نہیں کرتے۔ مقبولیت ایسی ہوتی ہے کہ باہر بھی ان کے لیے جلسۂ عام منعقد ہو جاتے ہیں۔ اس موضوع کو زیادہ طول نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔ جب بات مکمل نہ ہو سکے تو ہم کیا کہتے ہیں کہ آگے آپ خود سمجھدار ہیں‘ سمجھ گئے ہوں گے۔ سمجھیے کہ ہم نے بھی یہ کہہ دیا۔
وہ زمانہ بھی تھا جب کوئی لیڈر کہتا کہ 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ اور لوگوں کے ہاتھ جیبوں کی طرف جاتے اور دل کھول کر لوگ عطیہ دیتے۔ لیکن جب اس انداز سے چندے جمع ہوئے اور پھر پتا نہ چلا کہ گئے کہاں یا ان کی کھپت کہاں ہوئی ہے تو لوگوں کا اعتبار حب الوطنی کی ایسی مشقوں سے اٹھنے لگا۔ جب اس تاثر نے بھی لوگوں کے شعور پر دستک دی کہ لیڈروں کی جائیدادیں تو باہر بن رہی ہیں لیکن ملک کی مجموعی حالت پتلی سے پتلی ہو رہی ہے تو لیڈروں پر عوام کا اعتماد مزید اٹھتا گیا۔ یہاں تک کہ حالت آج کی سی ہو گئی ہے ۔ موجودہ بندوبست کی طرف سے باہر مقیم پاکستانیوں سے چندے کی اپیل تو کی جائے‘ پھر یہی کہہ سکتے ہیں الحفیظ الامان۔ اس لیے بہت ڈر اور عاجزی سے گزارش ہے کہ کسی ایسے شخص سے اپیل کا کہا جائے جس کی بات پر لوگ کچھ دھیان دینے کو تیار ہوں۔ ایک مثال یہاں موزوں ہو گی‘ عبدالستار ایدھی چندے کی اپیل کرتے تھے تو لوگ دیتے تھے کیونکہ ایدھی پر لوگوں کا اعتبار تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی کیلئے اپیل کرتے ہیں تو دنیا بھر سے عطیات آتے ہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے کوئی اعتبار والا شخص ہی اپیل کرے تو اس پر کوئی کان دھرے گا۔ کسی کی اچھائیوں یا برائیوں کی بات نہیں ہو رہی۔ صرف ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کو پسند آئے یا نہیں پاکستانی سیاست میں ایک ہی نام ہے جو باہر بیٹھے پاکستانیوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے۔ تلخ حقیقت ہے اور بہتوں کو بری لگے گی لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
نرمی یا رہائی کی بات بالکل نہیں ہو رہی۔ مقدمات قائم رہیں پولیس کے اہلکاروں کی گواہیوں پر سزائیں سنائی جاتی رہیں‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ محمود الرشید‘ اعجاز چودھری‘ عمر سرفراز چیمہ‘ حسان نیازی اور ان جیسے دیگر شرپسندوں سے کوئی نرمی نہ برتی جائے۔ لیکن مجبوری ہے‘ دریا بپھرے پڑے ہیں‘ کتنے ہی ستائے ہوئے لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ باہر بیٹھے پاکستانیوں کے پاس پیسوں کی کمی نہیں۔ کیونکہ دور بیٹھے ہیں ہم جیسوں سے قوم کا درد زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ کوئی تو ان سے کہے کہ اس مشکل گھڑی میں اپنے لاچار ہم وطنوں کی مدد کو آئیں۔ جیسے عرض کیا کسی اور نے منہ کھولا تو جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لہٰذا وقتی طور پر ہی سہی بندے کو کچھ دن باہر نکالا جائے اور کہا جائے کچھ اور بات نہیں کرنی‘ سیاست پہ کوئی بات نہیں ہو گی بس سیلاب زدگان کے لیے امداد کی اپیل کی جائے۔ اور پھر جو پیسہ آئے اس کی دیکھ بھال کے لیے ہم جیسے نہیں بلکہ کچھ ایماندار لوگ بٹھائے جائیں۔ اپیل ہو جائے‘ چندے آنے لگیں تو پھر سے اندر کر دیں‘ اس میں کیا مضائقہ ہے؟ سب کچھ اپنا‘ قاعدہ و قانون اپنا۔ پانیوں کا غصہ بھی تب تک ٹھنڈا ہو جائے گا‘ حالات معمول پر چلنے لگیں گے۔ لیکن اتنا تو مظاہرہ ہو جائے گا کہ مشکل وقت میں پاکستانیوں نے کیا کچھ کیا۔ نہیں تو اب تک یہی تاثر ملتا ہے کہ جو ڈوب رہے ہیں ڈوبتے رہیں باقی قوم کو کیا پروا۔
حسان نیازی کی بات پر یاد آیا کہ اس کا اصل قصور غلط بھانجا ہونے کا ہے۔ ان کے والد ہمارے دوست حفیظ اللہ نیازی کو جج صاحب کے سامنے حاضر ہو کر شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اصل جرم کو دیکھتے ہوئے آپ نے بڑی نرمی فرمائی اور صرف دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ نہیں تو غلط ماموں کے ہونے کی وجہ سے سزا تو شاید زیادہ بننی چاہیے تھی۔ علیمہ خان کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کے بیٹے اپنی وجہ سے نہیں ان کی وجہ سے اندر ہیں۔ اپنی نادانی میں اصل بات نہ بھولیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved