تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     03-09-2025

تعلیم اور معاشرتی انصاف

پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس کا شکار عام لوگ ہیں‘ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان حملوں کا دائرہ تعلیمی اداروں اور مذہبی عبادت گاہوں تک پھیل گیا ہے۔ دہشت گردی کا خمیر انتہا پسندانہ سوچ سے اٹھتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس میں اختلافِ رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ورلڈ بینک کے 2022ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 35فیصد ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 15سال سے کم ہے۔ اگر ان نوجوانوں کو مناسب تعلیم و تربیت فراہم کی جائے تو وہ ملک کا قیمتی اثاثہ بن سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہی نوجوان ہمارے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ آج کل دہشت گردوں کا ایک بڑا نشانہ یہی نوجوان ہیں جن کے ذہنوں کو غیرمحسوس طریقوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد جہاں مختلف ممالک میں سیاسی بھونچال آئے وہیں تعلیم کے میدان میں دور رس تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ اپنے تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کیلئے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مالی مدد دی جائے۔اس سے پہلے کہ ہم تعلیم اور دہشت گردی کے مابین مبینہ رشتے کا جائزہ لیں ''انتہا پسندی‘‘ کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے۔ لغت کے مطابق انتہا پسندی کسی بھی معاملے میں انتہائی مؤقف اختیار کرنے کا نام ہے‘ تاہم ہر لفظ کے لغوی معنی کے علاوہ سماجی معنی بھی ہوتے ہیں۔ فرانسیسی دانشور Michel Foucault کے مطابق کسی لفظ کے سماجی معنوں کی تشکیل میں طاقتور گروپ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ طاقتور گروپ ایک خاص طرح کے ڈسکورس کو تخلیق کرتا ہے۔ اس ڈسکورس کو جواز فراہم کرتا ہے اور اس علم؍ طاقت کی مقبولیت کو یقینی بناتا ہے۔ یہ تخلیق کردہ ڈسکورس ایسے علم کو جنم دیتا ہے جو طاقتور گروپ کے تمام افعال کا جواز پیش کرتا ہے۔ لہٰذا انتہا پسندی کے لغوی معنی اہم نہیں‘ اہم بات یہ ہے کہ زور آور انتہا پسندی کی کیا تعریف کرتے ہیں اور اس تعریف کے مطابق کون شدت پسند کہلاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی طرح کے لوگوں کو ایک گروہ دہشت گرد اور دوسر ا حریت پسند سمجھتا ہے‘ تاہم آخر میں اسی گروہ کے معنی غالب آتے ہیں جن کا علم کی پیداوار کے ذرائع پر قبضہ ہے‘ یوں انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کی تعریف بدستور اسی طرح بدلتی رہتی ہے جیسے جیسے طاقتور گروہوں کے مفادات اور ضرورتیں بدلتی جاتی ہیں۔
اس سے پیشتر کہ ہم انتہا پسندی روکنے کے اقدامات کے بارے میں بات کریں‘ مناسب ہو گا کہ ان وجوہ کا کھوج بھی لگائیں جن سے اس سوچ کو فروغ ملتا ہے۔ انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بھی اپنی آواز متعلقہ حلقوں تک نہیں پہنچا سکتے۔ جنس‘ رنگ‘ نسل اور کلاس کے امتیازات معاشرے میں اخراج (Exclusion) کا باعث بنتے ہیں۔ ان امتیازات کی بنیاد پر زور آور طبقے بے وسیلہ لوگوں کو اغیار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یوں زور آور طبقے کے افراد معاشرے میں اہم جگہوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور بے وسیلہ لوگوں پر نوکریوں‘ انصاف اور اظہار کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ انتہا پسندی کے مختلف چہرے ہیں جیسے مذہبی انتہا پسندی یا سیاسی انتہا پسندی۔ اس کے متعدد مظاہر بھی ہیں: فکری انتہا پسندی سے مراد یہ ہے کہ جب ایک شخص کسی خاص مسئلے کے بارے میں انتہائی نظریات رکھتا ہے لیکن جب انتہا پسندانہ نظریات کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو انتہا پسندی دہشت گردی میں بدل سکتی ہے اور اپنے نظریات کی تکمیل کیلئے پُرتشدد طریقے استعمال کر سکتی ہے۔ انتہا پسندی کی اقسام اور چہروں کو دیکھنے کے بعد اس کے امکانی اسباب کی تلاش ضروری ہے۔
انتہا پسندی کا ایک بڑا سبب لوگوں کو حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں پر معاشی‘ تعلیمی اور قانونی مواقع کے دروازے بند ہیں‘ ان دروازوں کی بندش معاشرتی انصاف اور معاشی مساوات تک رسائی سے انکار کے مترادف ہے۔ یہاں ہم صرف تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں کیونکہ یہ تعلیم ہی ہے جو ترقی‘ آزادی اور سماجی انصاف کے اہداف کو حاصل کرنے کے دروازے کھولتی ہے۔ تعلیم کی فراہمی کے رسمی ذرائع سکول ہیں۔ کسی زمانے میں سکولوں کو معاشرتی سوچ کو متاثر کرنے کیلئے ایک طاقتور سماجی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ توقعات سکول سے اس لیے وابستہ تھیں کہ سکول کو دو دیگر طاقتور سماجی اداروں یعنی مذہب اور خاندان کی حمایت حاصل تھی۔ فی الوقت ہم پریشان کن اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ہماری آبادی کے ایک قابلِ ذکر حصے کو تعلیمی مواقع کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے ہیں اور 42فیصد طلبہ پانچویں تک پہنچتے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں ڈراپ آؤٹ کا دوسرا سب سے زیادہ درجہ ہے۔ پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس کی 2011ء کی رپورٹ کے مطابق ''سب کیلئے تعلیم‘‘ کا ہدف جس کی آخری تاریخ 2015ء مقرر کی گئی تھی‘ ہم مقررہ تاریخ تک حاصل نہیں کر سکے۔ موجودہ رفتار کے مطابق اب یہ مقصد پنجاب میں 2041ء‘ سندھ میں 2049ء‘ خیبر پختونخوا میں 2064ء اور بلوچستان میں 2100ء میں حاصل ہو سکتا ہے۔ وجہ ریاست کی جانب سے تعلیم کو دی جانے والی کم ترجیح ہے‘ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ تعلیم کیلئے مختص بجٹ پچھلے سالوں کی نسبت کم ہو گیا ہے۔
یہ تو ان بچوں کا ذکر تھا جو سکول کی دہلیز پار نہیں کر سکتے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان بچوں کیساتھ کیا سلوک ہوتا ہے جو سکول پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی دھارے میں شامل کئی سکولوں میں متروک نصاب‘ بے کشش نصابی کتب‘ ٹرانسمیشن پر مبنی تدریس اور یادداشت پر مبنی امتحانی نظام رائج ہے۔ اس طرح فکر کی تنگی کو صرف مدرسے کی تعلیم سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ در حقیقت مرکزی دھارے میں شامل کچھ سکولوں میں بھی اس طرح کے افراد تیار ہو رہے ہیں جن کی سوچ محدود ہے۔ اگر ہم واقعی تعلیم کو ترقی کے آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور تعلیم کے ذریعے آزادی‘ ترقی اور سماجی انصاف کے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے جس کا نصب العین شخصی اور سماجی تبدیلی ہو‘ جس کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہو جو امن و آشتی اور رواداری پر یقین رکھتے ہوں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سکول معاشرتی ناانصافی اور معاشی تفاوت کے خاتمے کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں۔ جواب کے اثبات میں نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے برعکس سکول نے ایک مضبوط سماجی ادارے کی حیثیت سے اپنی طاقت کھو دی ہے کیونکہ اب مذہب اور خاندان کے سماجی ادارے اسکے ہمراہ نہیں رہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ میڈیا ایک طاقتور معاشرتی ادارہ بن کر ابھرا ہے جو کم وقت اور بڑے پیمانے پر ذہنوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے سکول کے کردار کو مزید کم کر دیا ہے۔ تیسری اہم وجہ بیرونی‘ معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی قوتوں کا اہم کردار ہے جو سماجی و معاشی برابری کے عدم توازن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم شدت پسندی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو صرف سکول کی باضابطہ تعلیم ہی کافی نہیں۔ تعلیم کے غیررسمی ذرائع کی تلاش اور سکولوں کی تعلیم کو میڈیا سمیت دیگر سماجی اداروں کے ساتھ جوڑنا بھی ضروری ہے‘ تاہم انتہا پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانے کیلئے سب سے اہم اقدام سیاسی‘ معاشی‘ تعلیمی اور قانونی نظام کے ذریعے معاشرتی انصاف تک رسائی کے حوالے سے سب کو یکساں مواقع کی فراہمی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved