''بلدیاتی ادارے ہمارے ملک میں بالکل بے دست وپا ہیں۔ پنجاب میں تو ہیں ہی نہیں! جب Devolution ہوئی ہے تو یہ ساری Devolution لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور تک رُک گئی ہے۔ کیا آپ کا سسٹم Devolve ہوا ہے؟ شہر کے لیول پر؟ یا گاؤں کے لیول پر؟ یا تحصیل کے لیول پر؟ یا ضلع کے لیول پر؟ نہیں ہوا!! ساری طاقت صوبائی دارالحکومتوں کے پاس ہے! آپ Devolve کریں۔ ونڈ کھاؤ تے کھنڈ کھاؤ۔ آپ پاور کو تقسیم کریں۔ پاور تقسیم کریں گے تو وہ ملٹی پلائی ہو گی۔ اس کا عوام کو احساس ہو گا۔ آپ کے بلدیاتی ادارے شہروں میں‘ گاؤں میں‘ تحصیلوں میں‘ آپ کے سسٹم کی حفاظت کریں گے۔ کیونکہ وہ جوابدہ ہوں گے! کوئی نہ کوئی ووٹر‘ کسی بھی آبادی میں ان کی کُنڈی کھٹکھٹا سکے گا۔ لیکن ہم بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے اوزار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو پاور دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنے آپ کو پاور دینے کے لیے! آپ کو ایک جامع‘ طاقتور اور تنومند لوکل گورنمنٹ سسٹم چاہیے جو شہروں میں‘ گلیوں میں‘ محلوں میں‘ گاؤں میں‘ تحصیلوں میں‘ ضلع میں خدمت کر سکے۔ کسی ملک میں ان انتخابات کی تاریخ غیر یقینی نہیں ہوتی! لیکن ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کے قانون کا ہی کسی کو نہیں پتا! ہر برسر اقتدار طبقہ اس قانون کو گویا اپنے ماپ کے مطابق کپڑا کاٹتا ہے‘‘۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ الفاظ اس حقیر فقیر کالم نگار کے ہیں؟ نہیں! یہ درست ہے کہ یہ کالم نگار لوکل گورنمنٹ سسٹم کے فقدان کا رونا بہت رویا ہے اور بار بار رویا ہے مگر مندرجہ بالا الفاظ اس کے نہیں! یہ کڑوے اور سچے الفاظ خواجہ آصف صاحب کے ہیں‘ جو وفاقی وزیر دفاع ہیں۔ وہ قومی اسمبلی میں سیالکوٹ کی اُس صورتحال کا ماتم کر رہے تھے جو قبضہ مافیا نے اور بلڈرز نے آبی گزر گاہوں پر تعمیرات کر کے پیدا کی ہے۔ انہیں بلدیاتی ادارے اس لیے یاد آئے کہ بلدیاتی ادارے ہوتے تو مقامی صورتحال کی نگرانی کرتے اور روک تھام ہو سکتی۔ ہم خواجہ صاحب سے مؤدبانہ سوال کرتے ہیں کہ 2010ء میں جب ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹا گیا تو پنجاب میں ان کی پارٹی کی حکومت تھی‘ انہوں نے اُس وقت کیوں نہ احتجاج کیا؟ اُس وقت سے لے کر اب تک کیوں خاموش رہے؟ پنجاب میں ان کی پارٹی کی حکومت‘ مجموعی طور پر‘ 2008ء سے لے کر 2018ء تک رہی۔ کیا کبھی انہوں نے مقامی حکومتوں کی بحالی کیلئے آج تک اسمبلی میں کوئی قرارداد‘ کوئی ریزولوشن‘ کوئی بل پیش کیا؟
المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈرانِ کرام اُس وقت تک نہیں بولتے جب تک افتاد ان کے سر پر نہ آن پڑے۔ وہ وسیع قومی تناظر میں سوچتے ہیں نہ بولتے ہیں۔ آج سیالکوٹ کی حالت خراب ہے تو خواجہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ''لاہور میں پانی بہت کم مدت کے لیے کھڑا ہوا۔ جلد نکل گیا۔ مگر سیالکوٹ میں‘ نارووال میں پانی بہت سی جگہوں پر پانچ پانچ‘ چھ چھ دن کھڑا رہا‘‘۔ ظاہر ہے مقامی حکومت ہوتی تو سیالکوٹ کو بھی اتنی ہی توجہ ملتی جتنی لاہور کو ملی! ہم جیسے طوطی تو نقار خانے میں کب سے چِلّا رہے ہیں کہ لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور میں اختیارات کا ارتکاز ختم کیجیے اور اختیارات‘ مع فنڈز مقامی نمائندوں کے حوالے کیجیے۔ خدا کی قدرت اب یہ آواز قومی اسمبلی تک پہنچ گئی ہے۔ حفیظ جالندھری کا شعر یاد آ گیا:
میری چُپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا
حکایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تنہا کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار ایک بوڑھے مسافر کو کھانا کھلا رہے تھے کہ بوڑھے نے بتایا وہ آتش پرست ہے۔ آپ نے کھانا ہٹا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے فرمایا کہ یہ آتش پرست مجھے نہیں مانتا پھر بھی اسے اسّی سال سے کھانا کھلا رہا ہوں اور آپ ایک وقت کا بھی نہ کھلا سکے۔ یہ حکایت یوں یاد آئی کہ ہمارے حکمران سیلاب زدگان کو جو امداد دے رہے ہیں اس پر ان کے نام لکھے ہیں اور تصویریں لگی ہیں۔ جو لوگ اپنے طور پر امداد دینا چاہتے ہیں انہیں منع کر دیا گیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ کھانا پہلے ٹیسٹ ہوگا تب منظوری دی جائے گی۔ ہمارے کلچر میں صدیوں سے مصیبت زدگان کو کھانا کھلانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ یوں بھی اتنے بڑے پیمانے پر لاکھوں متاثرین کو خوراک مہیا کرنا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں۔ مگر یہ انوکھی پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہیں وجہ یہ تو نہیں کہ اس پر حکمران کا نام اور تصویر نہیں لگی ہوئی؟ خدا کا شکر ہے قدرت نے آکسیجن اور پانی کا انتظام اور اناج اور پھلوں کی پیدائش اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ حکمران تو آکسیجن اس وقت تک نہ دیتے جب تک اس پر ان کی تصویر نہ ہوتی۔ انتظار کرتے کرتے لوگ مر جاتے۔ جانور ان کی مرضی سے زندگی گزارتے تو جب تک بچوں پر تصویر نہ چسپاں ہوتی‘ گائیں بکریاں بچوں کو جنم نہ دے سکتیں۔ ہمارے حکمران یہ بات کبھی بھی نہیں سمجھتے کہ ایسے اقدامات مفید ہونے کے بجائے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ ہر تھیلے پر‘ ہر پیکٹ پر‘ ہر پارسل پر تصویر ہو گی تو عوام محبت تو کیا کریں گے‘ چڑچڑے ضرور ہو جائیں گے۔ بہت سے وسائل قدرت نے اپنے ہاتھ میں اسی لیے رکھے ہیں کہ مومنین اور منکرین سب کو بلاامتیاز دیے جائیں۔ ذہانت اور بہادری کی صفات قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں۔ ہمارے ملک میں نوکریاں سفارشی چٹوں کے ذریعے بٹتی ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ذہانت اور بہادری بھی ایم این اے یا وزیر کی سفارش سے ملتی تو لوگ کہاں جاتے۔ عام آدمی کا بچہ ذہانت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیتا تو اس کی فائل اس کے مرنے تک منظور نہ ہوتی اور ذہانت ساری کی ساری سفارش اور اقربا پروری کی نذر ہو جاتی۔ جواب ملتا کہ اس بچے کے لیے ذہانت نہیں بچی‘ اگلے بچے کے لیے نئی درخواست دینا۔ اندازہ لگائیے اگر خوشی دستِ قدرت میں نہ ہوتی اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتی اور جیسا کہ ہمارے ہاں تو مقامی حکومتیں بھی نہیں‘ فرض کیجیے راجن پور کے کسی گاؤں کے کسان کو خوشی درکار ہوتی‘ پہلے تو وہ کسی عرضی نویس سے یا کسی بابو سے درخواست لکھواتا‘ پھر بس پر بیٹھ کر لاہور آتا۔ وزیرِ ''مسرّت‘‘ کے دفتر میں جاتا۔ اسے بتایا جاتا کہ وزیر صاحب اپنے حلقے کا دورہ کرنے گئے ہوئے ہیں۔ کئی مہینے اسے لاہور میں کسی سستے ہوٹل میں رہنا پڑتا۔ سید علی ہجویریؒ کے مزار سے روٹی کھاتا‘ سیکشن افسر اور ڈپٹی سیکرٹری ایسے ایسے چکر دیتے کہ مہینے گزر جاتے‘ آخر میں اسے چند کلوگرام خوشی ملتی۔ انسان اگر سورۃ النجم کی اس آیت پر غور کرے کہ ''وہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے‘‘ تو یہ سوچ کر کہ اگر ایسا نہ ہوتا‘ اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے! خوشی کا پیکٹ تیار ہو بھی جاتا تو جب تک وزیر کی یا وزیراعلیٰ کی اس پر تصویر نہ لگتی‘ پیکٹ دیا ہی نہ جاتا!!
ایک بار کئی دن یورپ میں گزار کر وطن واپس آ رہا تھا‘ شرقِ اوسط کے ایک ملک میں جہاز تبدیل ہونا تھا۔ ایئر پورٹ پر جگہ جگہ ٹی وی سَیٹ نصب تھے۔ ہر سَیٹ کی سکرین پر حکمران کی شبیہ نظر آ رہی تھی۔ ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ یورپ کے کسی ملک میں وہاں کے حکمران کی تصویر نہیں نظر آئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہاں حکمرانی نظام کی ہے۔ سسٹم کی ہے۔ کسی فرد کی نہیں۔ جہاں فردِ واحد کی حکمرانی ہو گی وہاں ٹی وی سکرین سے لے کر آٹے کے تھیلے تک اور کورس کی کتاب سے لے کر آکسیجن کے سلنڈر تک‘ ہر جگہ حکمران کی تصویر ہو گی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved