تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-09-2025

سیاسی جماعتوں کی تشہیری حکمتِ عملی

پنجاب کی حکمران جماعت کو ابلاغی ہنر سیکھنے کے لیے تحریک انصاف کے استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا چاہیے۔ سیکھنے میں کیا حجاب‘ یہ تو ان سے بھی روا ہے جن سے آپ اتفاق نہیں کرتے۔
امام احمد ابن حنبلؒ اکثر فرماتے ''خدا ابن الہیثم پر رحم کرے‘‘۔ پوچھا گیا: یہ کون ہے جس کے لیے آپ دعاگو رہتے ہیں۔ کہا: ایک چور ہے۔ تفصیل بتائی کہ جب خلقِ قرآن کے مسئلے پر انہیں کوڑے مارے گئے اور دربار میں لایا گیا تو راستے میں ابن الہیثم بھی کھڑا تھا۔ اس نے امام سے کہا: مجھے پہنچانتے ہو۔ میں چور اور عیار ابن الہیثم حداد ہوں۔ بارہا پکڑا گیا اورکوڑے کھائے مگر چوری نہیں چھوڑی۔ میں اگر شیطان کے راستے میں یہ استقامت دکھا سکتا ہوں تو افسوس ہے تم پر اگر تم خدا کی راہ میں استقامت نہ دکھا سکو۔ امام احمد نے فرمایا: خدا ابن الہیثم پر رحم کرے کہ میں نے اس سے استقامت سیکھی۔
تحریک انصاف مخالف سہی مگر (ن) لیگ اس سے تشہیر کا فن سیکھ سکتی ہے۔ اس کا ابلاغی شعبہ جانتا ہے کہ کیسے گوشت پوست کے ایک انسان کو دیوتا بنایا جاتا ہے۔ کیسے رائی کا پہاڑ بن سکتا ہے۔ کیسے لوگوں کے ذہنوں میں اترا جاتا ہے۔ کیسے کمزوری کو طاقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ کیسے دوسرے کی خوبی کو خامی میں بدلا جاتا ہے۔ کیسے برہنہ حقائق کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا جا سکتا ہے۔ اگر کہیں تصویر کا استعمال کرنا ہے تو کیسے؟ شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ مہم اس کی ایک مثال ہے۔ ہم برسوں سے ٹی وی چینلز پر گھنٹوں 'براہِ راست‘ نشریات دیکھتے آئے ہیں۔ لوگ اربوں روپے کے عطیات کا اعلان کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ یہ کتنا پیسہ بنتا ہو گا؟ میرا خیال ہے اگر اس کو جمع کیا جائے تو اگلے دس سال‘ اس ہسپتال کو کسی عطیے کی ضرورت نہ رہے۔ اگر ماضی کی طرح‘ وہ اس کو کسی کاروبار میں لگا دیں تو شاید ہمیشہ کے لیے بے نیاز ہو جائیں۔ لیکن کیا فی الواقع یہ رقم ہسپتال کو ملتی ہے؟ اندازہ یہ ہے کہ اکثر صرف وعدے ہوتے ہیں۔ اس سے لیکن عمران خان صاحب کو جو سیاسی فائدہ ہونا ہے‘ اس کا ایصال ہو جاتا ہے۔ 'دیکھیں! عوام کو خان پر کیسا اعتماد ہے‘ لیڈر ہو تو ایسا‘۔ پیسہ آئے نہ آئے‘ یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے اور یہی تشہیری مہم کی کامیابی ہے۔ رفعِ شر کے لیے عرض ہے کہ میں یہاں غلط صحیح کی بات نہیں کر رہا۔ میرے پیشِ نظر صرف یہ سوال ہے کہ تشہیری مہم کو کیسے کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
ابلاغ اب ایک سائنس ہے۔ ذہن سازی کو ایک باضابطہ مضمون (Discipline) کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کو جامعات میں پڑھایا جاتا ہے۔ گوئبلز کا فلسفہ موجود ہے مگر ٹیکنیکس بدل گئی ہیں۔ اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہار چھپوا کر‘ اس شہرت کا حصول ممکن نہیں جو سوشل میڈیا میں اس سے بہت کم روپے خرچ کرکے کمائی جا سکتی ہے۔ چند سیکنڈ کا کلپ وہ نتائج دے سکتا ہے جو گھنٹے کی فلم نہیں دے سکتی۔ ایک تصویر ذہنوں میں اتر سکتی ہے اور ایک ہی تصویر کی غیر حکیمانہ تشہیر آپ کو تماشا بنا سکتی ہے۔ ابلاغ کی ایک نئی دنیا وجود میں آ چکی۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس دنیا سے بے خبر ہیں۔ اس میں صرف تحریک انصاف کا استثنا ہے۔ یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ لوگ ا ب بھی 1980ء اور 90ء کی دہائی میں جی رہے ہیں۔ ان کے نعرے‘ جلسوں کے انداز‘ تشہیری مہم‘ ہر شے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ابلاغ کی یہ نئی دنیا ان کے لیے ابھی پردہ ٔغیب میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نوجوانوں کو اپنا مخاطب بنانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ابلاغ کا ایک خلا ہے جو دونوں کے بیچ حائل ہے۔
نئی نسل کے ذہنوں میں لیڈر کا کیا امیج ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ یہ جماعتیں اپنے لیڈروں کی جس طرح تشہیر کرتی ہیں‘ اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اکیسویں صدی کا کوئی ہدایت کار فلم بناتے وقت وحید مراد کو بطور ہیرو کاسٹ کر رہا ہے۔ اسے خبر ہی نہیں کہ وہ بنا سنورا ہیرو اب عوام کے ذہنوں سے اُتر چکا۔ بالوں کا وہ انداز کب کا متروک ہو چکا۔ مجھے تو پیپلز پارٹی پر بھی بہت حیرت ہوتی ہے۔ جو بات بھٹو صاحب کو 1970ء کی دہائی میں سمجھ آ گئی تھی‘ وہ اکیسویں صدی کی قیادت کو سمجھ نہیں آ رہی۔ بھٹو صاحب جب جلسہ عام میں بازوئوں کے بٹن کھولے عوام سے مخاطب ہوتے تھے تو وہ جانتے تھے کہ دنیا میں انقلابی لیڈر کا ایک نیا امیج ابھر رہا ہے۔ ان کے سامنے یاسر عرفات‘ قذافی اور سکارنو جیسے لیڈر تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عوام کس طرح کا لیڈر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوامی اجتماعات میں ویسا ہی حلیہ اپنا لیا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے پارٹی لیڈر کے امیج سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر وہ کوئی تشہیری مہم چلاتے بھی ہیں تو اس میں چالیس برس پرانا ذہن کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال وہ بینر ہیں جو معرکہ حق کے بعد آویزاں کیے گئے۔ ان کو دیکھ کر وہ بینر یاد آئے جو 1990ء کی دہائی میں لگائے جاتے تھے۔ تصویر کا وہی انداز‘ اسی طرز کے جملے۔ (ن) لیگ کا بھی یہی حال ہے۔ مریم نواز صاحبہ کے دورۂ جاپان کو پی ٹی آئی نے جس طرح منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا‘ (ن) لیگ مثبت نتائج کے لیے استعمال نہیں کر سکی۔ اس کی میڈیا ٹیم اپنا دفاع کرتی دکھائی دی۔ ابلاغ میں دفاعی حکمتِ عملی کا مطلب یہ ہے کہ مخالف فریق آپ کو اپنی پچ پہ کھلا رہا ہے۔
شریف خاندان کی یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ ذاتی انفاق فی سبیل اللہ کی تشہیر نہیں کرتے۔ صرف شوکت خاتم ہسپتال کے لیے ان کے والد اور خاندان نے جو ایثار کیا‘ اس کا ذ کر خاندان کے کسی فرد کی زبان سے نہیں سنا گیا۔ سیاست میں البتہ (ن) لیگ تشہیری مہم چلاتی ہے اور سب مذہبی‘ غیر مذہبی جماعتیں یہ کام کرتی ہیں۔ یہ اقتدار کے حصول کی مہم ہے‘ انفاق فی سبیل اللہ جیسی کوئی نیکی نہیں۔ اس لیے اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ مہم کتنی کامیاب ہے؟ کہیں یہ معکوس نتائج تو نہیں دے رہی؟ مثال کے طور پر کیا کبھی اس سوال پر غور کیا گیا کہ ہر سرکاری ادارے کو نواز شریف صاحب کے نام سے منسوب کرنا عوامی نفسیات پر کیا اثر ڈالتا ہے؟ یا ہر جگہ موقع بے موقع تصویر لگانے سے لوگ خوش ہوتے یا مذاق اڑاتے ہیں؟ یہ کام شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار کرتے ہیں یا یہ سوجی سمجھی تشہیری مہم ہے؟
(ن) لیگ اور دوسری جماعتیں اگر اپنی پروپیگنڈا مہمات کا تنقیدی جائزہ لیں گی تو انہیں اس تشہیری حکمتِ عملی کے غلط یا درست ہونے کے بارے میں معلوم ہو سکے گا۔ یہ جائزہ‘ مجھے یقین ہے‘ انہیں اس نتیجے تک پہنچائے گا کہ انہیں تحریک انصاف سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لوگوں کی نظروں میں عمران خان صاحب کا ایسا امیج بنا دیا ہے کہ خوفِ فسادِ خلق نہ ہو تو وہ اس کا برملا اظہار کر بیٹھیں جو وہ انہیں سمجھتے ہیں۔ اس اظہار میں اگرچہ عارف علوی صاحب سمیت‘ کسی نے کمی نہیں کی مگر اب بھی جذبات کو پورا ظہور نہیں ہو سکا۔ اس میں بچوں کو بھی جھونک دیا گیا۔ بچوں کا یہ سیاسی استعمال پہلی بار دیکھا گیا۔ اللہ نہ کرے دوسری سیاسی جماعتیں اس سطح تک جائیں لیکن کم ازکم انہیں یہ تو سیکھنا چاہیے کہ تشہیر کے آداب کیا ہیں؟ یہ ایک نازک کام ہے۔ اگر خوش ذوقی سے کیا جائے تو انسان دیوتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر بدذوقی سے ہو تو وہی انسان تماشا بن جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved