اس سال یومِ عاشور کو راولپنڈی میں بڑا سانحہ ہواجو انتہائی قابلِ مذمت ، افسوس ناک اور درد ناک ہے۔ بادی النظر میں حکومت نے یومِ عاشور پر کسی بڑے المیے سے بچنے کے لئے وسیع انتظامات کیے تھے۔بڑے شہروں میں پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز بھی موجود تھے اور فوج کو بھی کسی سنگین صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہائی الرٹ رکھا گیا تھا۔کراچی میں پولیس اور رینجرز کی مجموعی نفری تقریباً ایک ڈویژن فوج کے برابر تھی۔ہماری فوج پہلے ہی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر مصروفِ عمل ہے،اس صورت حال میں ہم بڑے پیمانے پر کسی داخلی فسادکے متحمل نہیں ہوسکتے۔اس کے باوجود راولپنڈی میں سانحہ رونما ہواجس میں اَموات اور زخمیوں کی صورت میں جانی نقصان ناقابلِ تلافی اور مالی نقصان غیر معمولی ہے۔دکانوں اور کاروباری مراکز کو منظم انداز میں آگ لگانے کی واردات چند برس پہلے بولٹن مارکیٹ کراچی سے کافی مشابہت رکھتی ہے جس میں پاؤڈراور پٹرول کے ذریعے آگ لگائی گئی ۔ شیخ رشید احمد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بوتلوں میں پٹرول کے ذریعے دکانوں کو آگ لگائی گئی اوریہ کہ آگ لگانے اور گھیراؤ جلاؤ کرنے والے لوگ اہلِ راولپنڈی کے لیے اجنبی تھے۔ یہی صورتِ حال سانحۂ کراچی میں رونما ہوئی تھی ، لیکن ویڈیو تصویروں میں نظر آنے والے چہروں کی شناخت ناممکن نہیں تھی۔ ہمار االیکٹرونک میڈیا ایسے مواقع پر فرقہ وارانہ تصادم اور فرقہ وارانہ منافرت کے عنوان سے پروگرام شروع کردیتا ہے اور پھر مقابلہ شروع ہوجاتاہے،اس میں مختلف مسالک کے مذہبی رہنماؤں کو بلا کر بٹھا دیا جاتاہے جو بھائی چارے کا بھاشن دے رہے ہوتے ہیں، لیکن بیرونی صورتِ حال سٹوڈیوز والے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتی اوریہ تأثر پیدا ہوتاہے کہ مذہبی لوگ اورتنظیمیں اس ساری صورتِ حال کی ذمے دار ہیں جس سے دیگر مقامات پرردِّعمل پیدا ہونے کی خطرات بڑھ جاتے ہیں ۔ گورنر ہاؤس کراچی میں محرم الحرام کے دوران حالات کو پرامن رکھنے کے لیے تمام مسالک کے علماء کا اجلاس منعقد ہوا۔ اہلِ تشیُّع سمیت تمام مسالک کے علماء نے کہا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر سنی شیعہ تصادم کا امکان نہیں ہے،تمام مسالک کے لوگ ہرجگہ امن وعافیت سے ساتھ رہ رہے ہیںاور انہیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ لہٰذا مذہبی تقریبات کے دوران فساد کی صورتِ حال پیدا ہو تو اسے دہشت گردی قراردیا جائے اوردہشت گردی کے قوانین کے تحت اس سے نمٹا جائے، دہشت گردوں اور مفسدین کو مسالک، مکاتبِ فکر یا دینی وسیاسی ، لسانی اور قومیتوں پر مبنی گروپوںکا تحفظ نہ دیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ کئی عشروں سے ہمارا نظامِ حکومت عزیمت واستقامت سے عاری ہے،ہم خوف کے عالم میں ہیں، حالات سے نمٹنے کے لئے جو بھی کارروائی کی جاتی ہے وہ وقتی ہوتی ہے ۔ ہمارے پاس کوئی پرعزم اور دیرپا پالیسی نہیں ہوتی، ہم بحیثیتِ قوم امن وامان کے قیام کے حوالے سے وینٹی لیٹرپر چل رہے ہیں، جو دن خیریت سے گزر جائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور بحیثیتِ مجموعی ہم دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مذہب ومسلک کے امتیازات سے بالاتر ہوکر کارروائی کی جائے اور اسے نتیجہ خیز بنایا جائے۔ میڈیا کی غیر معمولی آزادی کی وجہ سے بھی انتظامیہ اور سکیورٹی کے ادارے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔اب سی سی ٹی وی، ویڈیواورموبائل کیمروں کے علاوہ پریس فوٹوگرافرز کی پہنچ سے بچنا ممکن نہیں ہے ۔ پرانے ڈی ایم جی نظام میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امن وامان کا ذمے دار ہوتاتھا اور اسے کسی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے گولی چلانے کا بھی اختیار تھا، لیکن اب ضلعی حکومت میں امن وامان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں ناظم کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات تو حاصل تھے لیکن امن وامان کے حوالے سے غیریقینی کیفیت اورکنفیوژن موجود تھا۔ اس سے قطعِ نظرکہ ہماری انتظامیہ اورسیکورٹی اداروں کے ذمے داران عوامی رائے کے مطابق نااہل ، غیرذمے دار یا خائن ہیں،ان کی بے توقیری میں اضافہ کیا گیا۔باقی کمی میڈیا پوری کردیتا ہے۔ ہم عہدِرسالت مآب ﷺ میں توہیںنہیں کہ ایک صحابی آکر خود یہ کہے : یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! میں نے موجبِ حدجرم کا ارتکاب کیا ہے، مجھ پر حدِّشرعی نافذ کردیجیے تاکہ سزا کے نفاذ اورتوبہ کے بعد میں آخرت کی سزا سے بچ جاؤں۔ رسول اللہ ﷺ بارہا اسے اپنے اقرارِجرم سے انحراف کا موقع دیتے ہیں مگراس کا ضمیر اسے بے قرار کیے رکھتا ہے کہ اپنے آپ کومعصیت کے اثر سے پاک کرے ۔ لیکن ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں ضمیر یا تو مرچکے ہیں یاماضی کی گمراہ امتوں کی طرح سرکش ہوچکے ہیں؛جرم پر ناز کرتے ہیں اور اثرورسوخ ، مالی وسائل یا دہشت کے ذریعے سزا سے بچ جانے کو کمال سمجھا جاتاہے اور یہ معیارِ افتخار بن گیا ہے۔ ہم ایسی صورتِ حال میں نہیں ہیں کہ عدل وانصاف کے آئیڈیل معیارات کے تحت مجرم کو پکڑا جاسکے، قانون کے شکنجے میں کسا جاسکے اور عبرت ناک سزا دی جاسکے۔ جج ، گواہ ، سکیورٹی کے ادارے سب خوف کے عالم میں رہتے ہیں ، کیونکہ ریاست وحکومت اُن کے تحفظ میں ناکام ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ نظامِ اقتدار میں شامل تمام لوگ (حزب اقتداروحزبِ اختلاف)ایک قطعی اور حتمی فیصلہ کریں اور پھر یک سُو ہوکر اُس پر عمل درآمد کریں،نتائج کی ذمے داری قبول کریں اور کسی بھی ممکنہ ردِّعمل کی صورت میں سب ایک صف میں کھڑے نظر آئیں،ایک دوسرے کے لیے منافقت کودل میں جگہ نہ دیں ورنہ منظر کچھ یوں ہوگا کہ ’’(اے مخاطَب!) تم ان کو (بظاہر باہم) اکٹھے سمجھتے ہو حالانکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دل جدا جدا ہیں‘‘۔(الحشر:14) جہاں تک اس مطالبے کا تعلق ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی سطح پر اس سانحے کے حقائق معلوم کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا جائے ، ایسے تمام مواقع پر ہمارا روایتی مطالبہ ہوتاہے؛چنانچہ حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اس کے لیے استدعا بھی کردی ہے۔کیا یہ امرِ واقع نہیں کہ ماضی میں ایسے کئی تحقیقاتی کمیشن قائم ہوئے مگر ان کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ قریب ترین تحقیقاتی کمیشن ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی اور امریکیوں کے ہاتھوں ان کے قتل اور پھر لاش کو لے جانے کے بارے میں تھا۔ کہا جاتاہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ تقریباً دس ہزار صفحات پر مشتمل ہے، لیکن جو اقتباسات غیر سرکاری طور پر سامنے آئے ہیں ، ان کی رو سے کسی کو ذمے دار ٹھیرایا گیانہ کسی کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی سفارش کی گئی ۔ لہٰذا اس طرح کے تمام کمیشنوں کی رپورٹیں تجریدی (Abstract) قسم کی ہوتی ہیں اور آخر میں داخل دفتر کردی جاتی ہیں ۔ یا تو مجوزہ کمیشن کے دائرۂ کارکو حقائق جاننے تک محدود نہ کیاجائے بلکہ اس کے پاس یہ اختیار ہوکہ اپنے آپ کو ٹرائل کورٹ میں تبدیل کرسکے کیونکہ بالفرض مجوزہ کمیشن کسی فرد یا افراد کو اس کا ذمے دار قراردیتاہے اور اس پر مقدمہ دائر کرنے کی سفارش کرتاہے تو مقدمہ پھراز سر نو شروع ہوگا اور تب تک صورتِ حال بدل چکی ہوگی ۔ اگر سانحۂ بولٹن مارکیٹ کراچی کی مکمل اور جامع تحقیقات کرکے ذمے داروں کا ٹرائل کیاگیا ہوتا تو شاید سانحۂ راولپنڈی رونما نہ ہوتا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں متاثّرہ فریق اپنے اپنے اِدّعا کے مطابق بے قصور ہیں اور دونوں کا مطالبہ ہے کہ یہ سازش ہے ، مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ یہ داخلی اور خارجی سازش ہے تو لازم ہے کہ اس کی تحقیق جامع ، مکمل اور ہمہ جہت ہو اور دونوں فریق اس کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved