جنگ‘ ستمبر کی چھ تاریخ 1965ء میں شروع ہوئی‘ سترہ دن جاری رہی اور دونوں جانب سے فتح کا اعلان کر کے جنگ بندی کر دی گئی۔ صلح صفائی اور بعد میں تاشقند معاہدہ سوویت یونین کے رہنمائوں نے کرایا تھا۔ زیر نظر مضمون کا مقصد جنگ کی وجوہات‘ ذمہ داروں کا تعین کرنے اور حقیقت میں کیا ہوا اور کیا نہ ہو سکا بیان کرنا نہیں۔ ابھی تک جو لکھا جا چکا ہے یا جو مجھے معلوم ہے‘ وہ تاریخ کے آخری پردے گرنے کے انتظار میں ہے۔ ہماری طرف سے ہمارے سرکاری محکموں‘ خصوصی طور پر وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کی طرف سے اس جنگ سے متعلق دستاویزات فائلوں میں بند‘ گرد وغبار اکٹھا کر رہی ہیں۔ مغرب کا کوئی ملک ہوتا تو 30 سال کے بعد‘ یعنی آج سے 30 سال پہلے انہیں منظر عام پر لے آتا تاکہ پتا چل سکے وہ واقعات جو کئی ماہ پہلے تک ہوتے رہے اور آخر جنگ کی نوبت آئی ان کے بارے میں کس کس نامور نے کیا کہا‘ کیا نوٹ لکھا اور فیصلہ سازوں میں کون لوگ شامل تھے۔ باہر کی دنیا میں دیگر ممالک کی دستاویزات عام ہونے کے بعد کچھ کہانیاں سامنے آتی ہیں مگر ہمارے ہاں سب راوی خاموشی اختیار کیے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کچھ بعد میں آنے والے ہوں گے‘ جن کی کبھی حسِ تجسس جاگی ہوگی اور متعلقہ فائلوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہوگا مگر وہ بھی کم ازکم یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ قوم کو اب 60 سال گزرنے کے بعد اندھیرے میں نہ رکھا جائے۔ خارجہ پالیسی پر ایک مقالہ لکھنے کے سلسلے میں چند سال پہلے جتنی بھی دستاویزات اس وقت مہیا تھیں‘ ہمیں دیکھنے کا موقع ملا تو اس جنگ کے محرکات اور فیصلہ سازوں کے بارے میں کچھ نہ ملا۔ ہماری تاریخ نویسی میں سب سے بڑا مسئلہ آزادی کے بعد کے واقعات کے حقائق جاننے کی عدم آزادی ہے۔ ہر چیز ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر سرخ فیتے میں باندھ کر ذمہ داروں کو تاریخ کے احتساب سے بچانے کے بہانے ہیں۔ یہ تو کئی نسلوں بعد پھر پتا چلتا ہے کہ وہ کون سے بڑے اور عالی دماغ تھے جنہوں نے وہ فیصلے کیے جن سے ہمارے ملک کی پوری سمت ہی بدلتی رہی۔ یہ صرف میں ستمبر کی جنگ کے بارے میں نہیں کہہ رہا‘ یہ لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ابھی ہمیں خود زیادہ معلوم نہیں اور جو ہے ہم آپ اس پر اکتفا کریں اور معاملات اگلی نسلوں تک چھوڑ دیں تو بہتر۔ چلو ایوب خان ذمہ دار تھا‘ یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں۔
اس جنگ کے حوالے سے میں اس وقت کے عوامی جذبے‘ دیہات میں اس کے بارے میں کچھ خیالات اور اپنے تاثرات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ رحیم یار خان کے دور دراز کے ایک چھوٹے سے گائوں میں‘ ہمارا سکول دیہات سے کچھ فاصلے پر ایک پرانے قبرستان کے کنارے پر تھا۔ چند کمرے‘ چند اساتذہ اور پندرہ بیس طلبہ۔ جنگ کے دوران ہمارا سکول بند نہیں ہوا تھا۔ شہروں کا مجھے کوئی علم نہیں کہ وہاں تعلیمی ادارے کھلے تھے یا نہیں۔ اس علاقے میں سرکاری اداروں کے ساتھ ہمارا چھوٹا سا سکول! کہیں پہ کوئی خوف اور جنگ کے وہاں تک پھیل جانے کے خدشات نظر نہ آئے حالانکہ اس جگہ سے آگے چولستان سے ہماری سرحد بھارت کے راجستھان کے قریب پڑتی ہے۔ ہمارے سکول میں نہ کوئی اخبار آتا تھا نہ کسی کے پاس کوئی ریڈیو تھا۔ جنگ کے پہلے روز میرے استاد محترم سید وزیر حسن زیدی صاحب‘ جن کے بارے میں پہلے ایک مضمون میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں‘ نے حکم دیا کہ پتا کرو کہ مخدوم صاحب کے ڈیرے پر ریڈیو شام کے وقت گھر کے اندر ہوتا ہے یا باہر۔ معلوم ہوا کہ مخدوم صاحب شام کو خبریں سننے کے لیے ایک بھاری بھرکم ریڈیو اپنے سامنے میز پر رکھواتے جو اُس قسم کی بیٹریوں سے چلتا تھا جو آج کل آپ کاروں‘ بسوں اور ٹرکوں میں لگی دیکھتے ہیں۔ زیدی صاحب نے میری ڈیوٹی لگا دی کہ روزانہ شام کو وہاں جائوں اور خبریں سن کر واپس آ کر انہیں سنائوں۔ مجھے یاد نہیں کہ پہلے کبھی گانوں کے علاوہ ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں سننے کے بارے میں کوئی دلچسپی رہی ہو۔ جنگ کے بارے میں تب جو فہم وادراک تھا وہ یہ تھا کہ جنگ کچھ بھی ہو جائے‘ جیتیں گے تو ہم ہی۔ عام لوگوں کا بھی یہی خیال تھا اور عام لوگوں کی گفتگو سن کر ذہن بھی اسی طرح تیار ہوا تھا۔ اس لیے کسی کے ذہن میں ڈر‘ خوف یا تذبذب کی کوئی علامت نہ دیکھی۔
ایک بھاری‘ بااعتماد اور گہری آواز میں سرخیاں سنیں اور پھر آواز آتی کہ اب شکیل احمد سے پوری خبریں سنیں۔ کمال کی آواز تھی اور کیا اثر تھا! ایسا لگتا تھا کہ شکیل احمد کو اس جنگ کی خبریں پڑھنے کے لیے تخلیق کیا گیا۔ انور بہزاد کا نام نہ لیں اور شمیم اعجاز اور مسعود تابش کو یاد نہ کریں تو ہماری خبرنگاری اور خبر خوانی کی تاریخ کا ذکر بھی نہیں ہو سکتا۔ ذاتی طور پر میں شکیل احمد سے بہت متاثر رہا اور ان سے میری شناسائی اس جنگ کے دوران ہوئی۔ خبریں سنتے ہی ڈیرے سے دوڑ لگاتا‘ رات کے اندھیرے میں ریتلے راستے کو چھلانگیں مارتے عبور کر‘ فوراً زیدی صاحب اور تین دیگر اساتذہ کی خدمت میں شکیل احمد کے انداز میں خبریں سنانا شروع کر دیتا۔ سب محاذوں سے خبریں الگ ہوتی اور ہر محاذ پر میں اپنی پیش قدمی اور بھارتی فوجیوں کی گرفتاری کا ذکر کرتا اور پھر ہر روز دشمن کے طیاروں کو پاکستانی ہوائی جانبازوں کا نشانہ بننے کی خوشخبریوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا۔ اس غیر پیشہ ور رپورٹنگ سے تو اپنی دھاک بیٹھ گئی۔ سب میرے حافظے کی تعریف کرتے۔ اب اتنا وقت گزرنے کے بعد آپ سے کیا چھپائوں کہ مبالغہ آمیزی کا تب مطلب بھی مجھے نہ آتا تھا‘ مگر یہ فن جنگ کے زمانے میں سیکھا۔ اگر اب بھی ایسا کوئی تاثر تحریر میں ہے تو اُسے جنگ کے اثرات سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔
ایک شام زیدی صاحب کی حسِ تجسس اور اپنی فتح کی ہر وقت دعائوں کے پیش نظر روزانہ کی مبالغہ آمیزی میں شرارت بھی شامل کر لی‘ اور کہہ دیا کہ آج کھیم کرن کے محاذ پر کچھ بھارتی جرنیل بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ زیدی صاحب بستر پر لیٹے خبریں سنتے تھے‘ اور کھانا میری خبر رسانی کے بعد کھاتے تھے۔ خوشی سے اٹھ بیٹھے اور باورچی سے کہا کہ آج وہ اس خوشی میں کھانا نہیں کھائیں گے۔ دیگر اساتذہ کو اس مبالغہ آمیزی اور خبروں میں شامل کیے گئے غلو پر شک تھا‘ اور انہیں رازداری میں کہہ دیا کہ یہ صرف زیدی صاحب کی خوشی کے لیے ہے۔ انہوں نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ بمشکل بچائو کی راہ داری نکالی کہ موسم کی خرابی کے باعث شاید خبر اچھی طرح نہ سن پایا تھا۔ دیہات میں وطنیت‘ قومیت اور دفاعِ وطن کے لیے ان سترہ دنوں میں عام لوگوں میں جو جذبہ دیکھا‘ وہ اس کے بعد کم وبیش اتنا فطری اور حقیقی رنگ میں دوبارہ دیکھنے کو نہ ملا۔ اگرچہ جنگیں بعد میں بھی ہوئیں‘ اور قومی یکجہتی کے مظاہر بعد بھی میں دیکھے۔ دیہات میں ایسی باتیں عام تھیں کہ بھارت ہماری طاقت سے کئی گنا بڑا ہونے کے باوجود ہمیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتا۔ ایسے اعتماد کو سرکاری پروپیگنڈا سے کہیں زیادہ مافوق الفطرت اعتقاد اور صدیوں سے مسلم اکثریت کے ان علاقوں میں اپنی ذات پر ناقابلِ یقین برتری اور قومی یگانگت نے جلا بخشی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر قومی دفاعی فنڈ کیلئے چندہ لانے اور سرکاری اداروں کے حوالے کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ ماحول بنانے میں ریڈیو پاکستان اور شکیل احمد‘ انور بہزاد اور شمیم اعجاز کا کمال کا کردار تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved