تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     05-09-2025

New Provinces, Yes or No...(3)

یہ عنوان تھا اسی موضوع پر‘ اسی صفحے پہ شائع ہونے والے دو عدد وکالت ناموں کا۔ یہ وکالت نامے رواں برس ماہِ فروری کی 14 اور 17 تاریخ کو شائع ہوئے تھے۔ اِن دنوں نئے انتظامی یونٹس یا صوبوں کی بحث Yes or Noکے قومی منظر نامے میں داخل ہو چکی ہے۔ نئے انتظامی یونٹس یا صوبوں کے قیام جیسے اہم ترین موضوع اور اس کے ذریعے پاکستان کو Governableبنانے کے لیے لکھے گئے وکالت نامے دراصل اس بحث کو پبلک کرنے کی ابتداتھے۔ چنانچہ قندِ مکرر کے طور پر 14فروری کو چھپنے والے وکالت نامہ کا ابتدائیہ دیکھ لیتے ہیں۔
''یہ لاہور میں ایک گھریلو نشست تھی جس میں ایک بڑے ہسپتال کے طبیب اعلیٰ‘ ایک سابق آئی جی پولیس‘ امریکہ سے آئے ہوئے معروف ڈاکٹر اور ہم سب کے عزیزی‘ ڈنر پر دو گھنٹے سے زائد کی گفتگو کے بعد ہوٹل واپس جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے تو برادرم میاں عامر محمود نے سبز ہلالی پرچم والا انگریزی مقالہ یا کیس سٹڈی دیا جس کا عنوان ہے ''پاکستان1947ء سے 2025ء تک Why it continues to fail its people‘‘۔ اس سے پہلے عمران خان کی کابینہ کے ایک بزرگ کولیگ رکن عشرت حسین کی طرف سے کتاب ملی Governing the Ungovernable‘ جو زیادہ تر ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات تک محدود ہے۔ گورننس کا ماڈل ایک خشک موضوع ہے‘ مسالے دار نہیں بلکہ پسینے چھڑا دینے والا۔ اس لیے 77 سال بعد بھی ملک کو مسلسل ناکامیوں اور مسائل کی کھائی سے نکلنے کا راستہ یعنی Way Forward بتانے والے تحقیقی مقالات آپ کو شاذ ہی ملیں گے۔ زیادہ تر دستیاب مواد ملک کی طرزِ حکمرانی اور مختلف قومی اداروں کی ناکامی پر جاری کیے گئے تنقیدی بیانات اور تحریروں پر مشتمل ہے‘ جو غیر فعال اور چھکڑے کی طرح چلنے والے نظامِ گورننس کے بارے میں صرف تبصرے کی حد تک کارآمد ہوتے ہیں‘‘۔
نئے انتظامی یونٹس بنانا یا نئے صوبے تشکیل دینا‘ بہت بڑا اور بڑی حد تک متنازع موضوع ہے۔ ریاست کی ری آرگنائزیشن کیا آئینی ممالک میں عوامی مفاد میں بہتر گورننس کے لیے ضروری ہوتی ہے یا نہیں؟ آئیے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں دو اہم ریاستوں کی تاریخ دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دو میں سے پہلی ریاست 15 اگست 1947ء کو انڈیا کے نام سے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئی۔ اس سے پہلے 14 اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ جولائی 1947ء تک برصغیر برٹش انڈیا کہلایا کرتا تھا‘ جو تاجِ برطانیہ اور برطانوی شاہی خاندان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے لمیٹڈ کمپنی کا دو صدیوں تک غلام رہا۔ برٹش انڈیا کے آرکائیوز بتاتے ہیں کہ یہ کالونی 11 صوبوں اور 560 سے زیادہ Princely States پر مشتمل علاقہ تھی۔ ان 11 صوبوں میں مدراس‘ بمبے‘ بنگال‘ یونائیٹڈ پرووینسز (اب یہ اُتر پردیش کہلاتا ہے)‘ پنجاب‘ بہار اور سینٹرل پروینسز ( آج کا مدھیا پردیش)‘ آسام‘ NWFP‘ اُڑیسہ اور سندھ شامل تھے۔ آزادی کے بعد ابتدا میں بھارت کی کل نو ریاستیں تھیں۔ آج بھارت میں 28 ریاستیں اور آٹھ علاقے یونین ٹریٹریز بنا دیے گئے ہیں۔ یونین ٹریٹریز کے علاقے شامل کر کے عملی طور پر بھارت کی کل ریاستوں کی تعداد 36 بن جاتی ہے۔ یونین ٹریٹری کا مطلب ہے وہ ریاست جو یونین آف انڈین سٹیٹس کی مرکزی حکومت کے قوانین کے ماتحت چلتی ہے۔ دوسری ریاستیں اپنے قوانین علاقائی خود مختاری کے اصول پر بناتی ہیں۔ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام آٹھ یونین ٹریٹریز یا ریاستوں میں پہلی کالا پانی کہلانے والے دو جزیرے انڈیمان اور نیکو بار ہیں۔ چندی گڑھ دوسری اور دادرا اینڈ نگر حویلی‘ دامان‘ ڈی یُو تیسری یونین ٹریٹری ہے۔ جبکہ دہلی‘ جموں اور کشمیر‘ لداخ کا علاقہ‘ لکشادویپ‘ پوڈو چیری بھی بھارت کی یونین ٹریٹریز میں شامل ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بھارت آبادی اور رقبے کے حوالے سے ہم سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود بھارت نے گورننس کو ''آرگنائز اور ری آرگنائز‘‘ کرنے کا عمل تاجِ برطانیہ سے آزادی کے آٹھ سال بعد شروع کر دیا تھا۔ عین اسی عشرے میں ہم نے پاکستان کے حصے میں آنے والے محض دو صوبوں ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان میں گورننس کی اصلاح بذریعہ ری آرگنائزیشن نہ کی‘ بلکہ اس کے بجائے قبضہ بذریعہ سینٹرلائزیشن کا راستہ چُن لیا۔ وَن یونٹ اس کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ دوسری جانب بھارت نے 1960ء میں مہاراشٹر اور گجرات کے علاقوں کو بمبئی کی ریاست سے باہر نکال دیا۔ 1963ء میں ناگا لینڈ کی علیحدہ ریاست بنا دی گئی۔ 1966ء میں چڑھدے پنجاب کو دوحصوں ہریانہ اور پنجاب میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1970ء میں میگھالیا کے نام سے بھارت نے مزید ایک نئی ریاست قائم کردی‘ جبکہ منی پور اور تری پورہ کے قبائلی سماج کو دو علیحدہ علیحدہ ریاستوں میں ری آرگنائز کردیا گیا۔ 1987ء میں میزو رام اور اروناچل پردیش کو بھی علیحدہ سے دو ریاستوں کا درجہ دے دیا گیا۔
2000ء میں نئی صدی کا آغاز ہوا تو بھارت سرکار نے Key Factors Driving Re-organization کے نام سے ایک نئی قومی پالیسی ترتیب دے ڈالی۔ اسی پالیسی کے نیچے چھتیس گڑھ‘ جھاڑ کھنڈ اور اترا کھنڈ کے نام سے تین نئی علیحدہ ریاستیں بنا لیں۔ 14سال بعد تلنگانہ کے علاقے کو بھی آندھرا پردیش سے نکال کر بھارت نے علیحدہ نئی ریاست بنا ڈالا۔ 2019ء میں بھارت نے جموں اور کشمیر کے مقبوضہ علاقوں کو دو علیحدہ علیحدہ یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا۔ جن میں سے ایک کا نام لداخ‘ دوسرے کا نام جموں اینڈ کشمیر رکھا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کی ریاست انتظامی اختیارات کو تقسیم کرکے آگے بڑھی ہے یا پیچھے ہٹی ہے؟ اس پہ اب تبصرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
آئیے اب نظر ڈالتے ہیں امریکہ میں ریاست کی ترتیبِ نواور اس کے نیچے ریاستوں کی تشکیل کی طرف۔ امریکی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ تشکیل پایا تو اس کے پاس 13علاقے ایسے تھے جنہیں امریکی تاریخ Original Coloniesکے نام سے یاد کرتی ہے۔ چار جولائی 1776ء کے امریکی یومِ آزادی کے دن سے پہلے یہاں مختلف گینگز‘ وار لارڈز‘ قبضہ گروپس اور غلاموں کی تجارت کرنے والوں کی حکمرانی تھی۔ کیپٹل سٹیٹ آف امریکہ نیو یارک بدترین گینگ وارز کی جنگوں سے لہو لہان تھا۔ آج کا یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ 50 ریاستوں کو شامل کرکے معرضِ وجود میں آیا‘ جس کی بنیاد دو جنگوں سے رکھی گئی۔ پہلی جنگ Louisiana Purchase Warکہلائی‘ جو 1803ء میں مکمل ہوئی۔ دوسری میکسیکن امریکن وار 1846ء سے 1848ء تک لڑی گئی۔ جس کے بعد امریکہ میں Statehood Admissionsیعنی نئے علاقوں کی ریاستوں میں تبدیلی کے کئی قوانین امریکی کانگریس نے بنائے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ 13سے 50 ریاستوں تک کا سفر طے کر کے عالمی طاقت بنا یا اس کی حکمرانی کا حال ہماری گورننس جیسا ہے؟
امید نو روز ہے کہ تم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved