تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     05-09-2025

ایک صوبہ کافی‘ باقی سب اضافی

ایک طرف سیلاب کی ہولناک تباہ کاریاں تو دوسری طرف کیسی کیسی اداکاریاں اور فنکاریاں جاری ہیں۔ فوٹو شوٹ سے لے کر انتہائی مجہول سکرپٹڈ مناظر کو کئی زاویوں سے فلمایا جا رہا ہے۔ سیلاب زدگان کی اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہو گی کہ انہیں کئی کئی بار ڈوبنے سے بچاتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے۔ گویا ایک ہی شخص کو باری باری سب کی طرف سے ریسکیو کیا جا رہا ہے۔ کہیں مصیبت کے مارے سیلاب زدہ بچوں کو بریانی کھلا کر بوٹیاں جتلائی جا رہی ہیں تو کہیں مہنگے چشمے اور لائف جیکٹ پہن کر کشتی رانی کی عکس بندی کی جا رہی ہے۔ سینکڑوں جیتی جاگتی بستیاں دریا برد کیوں ہوئیں؟ اسباب اور وجوہات سے بے نیاز ادھر اُدھر کی باتوں سے بہلایا اور الجھایا جا رہا ہے۔ ڈوبنے والی اکثر رہائشی سکیموں کو بوجوہ ٹارگٹ کرنے کے علاوہ پوائنٹ سکورنگ بھی بدستور جاری ہے۔ ملی بھگت اور مل کر کھانے کے سبھی پروجیکٹ تیرتے نظر آ رہے ہیں۔ کہیں نام بڑے اور درشن چھوٹے پڑ گئے ہیں تو کہیں گٹھ جوڑ کی آڑ میں پوشیدہ نام بھی منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔ جہاں اجازت کے بغیر قبر نہیں بنائی جا سکتی وہاں ہزاروں گھروں پر مشتمل آبادیاں دن کی روشنی اور رات کے اندھیروں میں کیسے بنتی چلی گئیں؟ متعلقہ اداروں سے لے کر ذمہ دار افسران اور اہلکاروں سمیت عوامی نمائندوں تک‘ سبھی اس کارِ بد میں حصہ بقدرِ جثہ لے کر اپنی اپنی دنیا سنوارتے اور اس طرح لٹیا ڈبوتے چلے آ رہے ہیں کہ چلُّو بھر پانی بھی اب دریا بن چکا ہے۔ یاد رہے! چلُو بھر پانی میں ڈوبنا ضروری نہیں بلکہ نقاب اور روپ بہروپ اترنا ہی کافی ہے۔ شرم بھی اگر ہو تو ہی آتی ہے‘ اکثر کیسوں میں تو ساری عمر اور اگلی کئی نسلوں تک بھی نہیں آتی۔ اپنا اپنا مقامِ طمانیت ہے۔
دریائے چناب اور ستلج میں اونچے درجے کے سیلاب سے جہاں 550 سے زائد گاؤں دریا برد ہوئے ہیں وہاں سیالکوٹ شہر کے سبھی خاص وعام علاقے بھی ڈوب چکے ہیں جبکہ دریائے راوی سے ملحقہ علاقے اور آبادیاں ڈوبنے کے بعد حکومتی اداروں اور رہائشی سکیموں کے مالکان سمیت کھلے اور چھپے سہولت کاروں کے پول بھی کھل چکے ہیں لیکن اب بھی متعلقہ اتھارٹی کو اصلی ملزم ثابت کرنے کیلئے پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ حیلے بہانے اور جواز گھڑے جا رہے ہیں۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چرچے گلی کوچوں سے لے کر دفاتر اور ایوانوں تک زبان زدِ عام ہیں۔ 2021ء میں روڈا ایکٹ آنے کے بعد 100کے قریب ہاؤسنگ پروجیکٹس شہری ترقیاتی ادارے سے اس کو منتقل ہوئے‘ جن میں سے تاحال صرف 8 سکیمیں حتمی منظور اور 40 منظوری کے مراحل میں ہیں جبکہ بقایا سبھی مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ سبھی بستیاں بہت پہلے سے‘ ریگولیٹرز کے تعاون سے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ بسائی جا چکی تھیں۔ اس سیلاب نے کیسے کیسوں کے چہرے اس طرح دھو ڈالے ہیں کہ سبھی روپ بہروپ پانی میں بہہ چکے ہیں۔ کوئی اس اتھارٹی کو عمران خان سے منسوب کر کے اپنا دفاع کر رہا ہے تو کوئی اس منصوبے میں کیڑے نکال کر اپنی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے۔ اس بلیم گیم کے جواب میں حکام نے تو تُوڑی کی پنڈ ہی کھول ڈالی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ سبھی مالکان اپنی اپنی توڑی اکٹھی کرتے نظر آئیں گے لیکن توڑی کی پنڈ کھل جائے تو پھر کہاں اکٹھی ہوتی ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق راوی سے ملحقہ جو آبادیاں ایک کلومیٹر کی رینج میں واقع ہیں وہ سبھی غیر قانونی ہیں اور دریائی زمین سے منتقل ہونی چاہئیں۔ اس کے لیے نوٹسز اور ضابطے کی ضروری کارروائیاں تو کافی عرصے سے جاری ہیں‘ بذریعہ اخبار بستیوں اور سکیموں کے نام بھی مشتہر کیے جا چکے ہیں لیکن کوئی کسی کا جاننے والا ہے تو کوئی کسی کو ماننے والا‘ ان سبھی کے خلاف کارروائی کیونکر ممکن ہے؟ کوئی راج نیتی میں ہے تو کوئی کسی کی آنکھ کا تارا اور راج دلارا ہے۔ گزشتہ دو‘ تین دہائیوں میں ہاؤسنگ سکیموں کا جو بازار گرم ہوا ہے ان سبھی کے نقطے ملائے جائیں تو بننے والے خاکے بتائیں گے کہ کون کیا تھا؟ واجبی اور ثانوی سماجی ومالی پس منظر رکھنے والے آج اربوں اور کھربوں میں کیسے کھیل رہے ہیں۔ سرکاری بابوؤں سے لے کر عوامی نمائندوں‘ وزیروں اور مشیروں تک سبھی ان کے اسیر اور ان کی پشت پناہی پر کیونکر مجبور ہیں‘ ان سبھی کا ماضی حال کی خوشحالی اور شان وشوکت سے کس قدر مختلف اور متصادم ہے‘ ریگولیٹرز کے ساتھ مل کر کھیلنے اور بانٹ کر کھانے کی برکت سے یہ سبھی روز بروز اور فی گھنٹہ کے حساب سے مالا مال ہوتے چلے گئے ہیں۔
حکومتی اعلانات اور نمائشی اقدامات سیلاب متاثرین کے دکھوں کا مداوا ہرگز نہیں کر سکتے کیونکہ غیر قانونی بستیاں بسا کر مال بنانے والے بھی بہت لاڈلے ہیں‘ لہٰذا متاثرین کی مشکلات اور مصیبتیں کون ٹالے گا۔ سب جانتے ہیں کہ کون کس کا فنانسر ہے تو کون کس کا سہولت کار۔ صوبائی حکومت اور انتظامی مشینری ریسکیو آپریشن میں پیش پیش ہیں لیکن آنے والے دنوں میں مزید سیلابی وارننگ کے علاوہ شدید غذائی قلت کے باعث بھوک اور بیماریوں سمیت آبادکاری و بحالی کے کڑے مراحل عوام کے لیے کئی نئے عذابوں کی خبر دے رہے ہیں۔ ابتدائی خبروں کے مطابق آٹا‘ سبزیوں اور دیگر اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں لگی آگ مزید بھڑک چکی ہے۔ خدا خیر کرے! اس بار تو سیلاب بھی ریکارڈ توڑ اور تباہی بھی جابجا اور چہارسو ہے۔
بات بھوک اور عوامی مسائل کی طرف جا نکلی ہے تو اخبارات میں چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا مسلسل توجہ کھینچتا ایک بیان پیش خدمت ہے۔ بھوک‘ تعلیم اور روزگار کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے تنبیہ کی ہے کہ اگر آنکھ نہ کھولی تو مستقبل مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔ میاں عامر محمود دو مرتبہ شہر لاہور کے ضلعی ناظم اور بااختیار فادر آف سٹی رہے ہیں‘ وہ برسوں سے گورننس کے مسائل کے حل کو مزید صوبوں کے قیام سے مشروط کر رہے ہیں۔ انہوں نے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر سوال اٹھاتے ہوئے باور کرایا ہے کہ سلطنت عوام کی طاقت سے پروان چڑھتی ہے اور عوام کی طاقت سے چلنے والے ممالک ہی دنیا کا رُخ موڑ پاتے ہیں۔ ایک خاصے کی بات یہ بھی کہی ہے کہ عوام کی ملک سے محبت اپنے حقوق کے تحفظ سے مشروط ہوتی ہے۔ گویا عوام اسی طرح مستقل شاکی اور نالاں رہے تو سری لنکا اور بنگلہ دیش اور انڈونیشین ماڈلز عوام کے لیے رول ماڈل بن جایا کرتے ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کے پانچ اور وزارتِ اعلیٰ کے سات ادوار سے شوقِ حکمرانی پورے کرنے والی جماعت کی گورننس گا‘ گے‘ گی سے آگے نہیں بڑھی تو ایسے میں میاں عامر محمود کا سجھایا گیا حل ہی وقت کا ناگزیر تقاضا دکھائی دیتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب ہی کو لے لیجئے۔ محمد علی درانی بھی سرائیکی صوبے کیلئے مستقل آواز اٹھا رہے ہیں۔ تقریباً 13کروڑ کی آبادی کی نسل درنسل درگت کے تانے بانے ملائیں تو حکمرانی کے اس عالمی ریکارڈ تک جا پہنچتے ہیں جس کی میں اوپر نشاندہی کر چکا۔ اس تناظر میں وسائل اور آبادی کے تناسب سے نئے صوبوں کا قیام اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی کارکردگی اور قابلیت کے مطابق انہیں ایک صوبہ شوقِ حکمرانی کے لیے دے دیا جائے‘ جہاں یہ اپنے اہداف اور ایجنڈے پورے کرتے رہیں جبکہ دیگر بننے والے صوبوں میں جمود ٹوٹنے اور گڈ گورننس کی توقع بجا طور پر کی جا سکتی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے عرض ہے کہ کئی دہائیوں سے راج نیتی کا حصہ بنے رہنے والوں کے لیے بس ایک صوبہ کافی ہے‘ باقی سب اضافی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved