تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     05-09-2025

نظارے رُخِ مصطفیﷺ کے

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب میں ''سراج منیر‘‘ کے خوبصورت صفاتی نام سے یاد فرمایا ہے۔ جس سورج کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے‘ ہم اہلِ زمین کا اسی سے تعلق ہے۔ زمین اسی سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ یہ ایک پورا نظام ہے جسے سائنس کی زبان میں ''نظامِ شمسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظام شمسی سے باہر نکلیں تو ''مِلکی وے کہکشاں‘‘ کے اندر اربوں کھربوں سورج جیسے ستارے (stars) ہیں۔ عربی میں ان ستاروں کو ''نجم‘‘ کہا جاتا ہے اور ''نجم‘‘ کی جمع ''نجوم‘‘ ہے۔ عربی زبان کا یہ بھی دستور ہے کہ واحد بول کر جمع بھی مراد لی جاتی ہے۔
قارئین کرام! اگلا نظارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کو معراج کی رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر ساتویں آسمان‘ اور اس سے اوپر ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تک لے جاتے ہیں۔ پہلے آسمان کا ہی یہ حال ہے کہ اس میں اربوں کھربوں کہکشائیں یعنی گلیکسیاں ہیں۔ ہر گلیکسی میں لاتعداد ستارے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ کے محبوب حضور کریمﷺ کی سواری پہلے آسمان کی وسعتوں کو عبور کر رہی تھی تو ''سورۃ النجم‘‘ کی پہلی آیت کا منظر اور نظارہ یوں تھا کہ لاتعداد ستارے اور آفتاب‘ جھک جھک کر سراج منیرﷺ کو سلام کر رہے تھے۔ سبھی سیارے‘ ستارے اللہ کے حبیب کو سلامیاں دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان ستاروں کی قسم کھاتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ''قسم ہے اس ستارے کی جب وہ (میرے حبیب کو سلامی دینے کیلئے) جھک رہا تھا‘‘ (النجم: 1)۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے گویا آگاہ فرمایا کہ میں نے اپنے حبیبﷺ کے جمالیاتی حسن کو ظاہر اور نمایاں کرنے کیلئے اہلِ دنیا کی خاطر ''سراج منیر‘‘ کہا۔ اور پھر سفرِ معراج کے حوالے سے آگاہ بھی فرما دیا کہ ایسے لاتعداد آفتاب تو '' آفتابِ نبوت‘‘ کو سلامیاں دے رہے ہیں۔
صحابہ کرامؓ نے حضور نبی کریمﷺ کے حسن کو چاند سے تشبیہ دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رخِ انور کی تابانی اور سپیدی نے مل کر وہ رنگ بنایا جو تھا تو گلابی مگر اس میں جو نورانیت جھلمل کر رہی تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ بزبانِ صحابہ ایسے منظر کا نظارہ ملاحظہ ہو!
صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور کریمﷺ کا چہرہ مبارک چاند جیسا (خوبصورت اور تاباں تھا)۔ مستدرک حاکم میں ہے‘ حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں ''چاندنی رات تھی‘ حضور نبی کریمﷺ نے سرخ جوڑا زیب تن فرما رکھا تھا۔ اب میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور کریمﷺ کے روشن چہرے پر نظر ڈالتا۔ آخرکار بول اٹھا کہ حضورﷺ چاند سے کہیں بڑھ کر حسین ہیں‘‘۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا (ایک خوش کن آسمانی الہام کی وجہ سے) آپﷺ کا رخِ انور خوشی ومسرت کی وجہ سے چمک رہا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے‘‘۔ قارئین کرام! راقم کا استدلال یہ ہے کہ حضرت کعب بن مالکؓ نے حضور کریمﷺ کے چہرہ انور کو چاند کے بجائے چاند کا ٹکڑا اس لیے کہا کہ چودھویں کے چاند کا ایک حصہ تو صاف شفاف ہے مگر ایک حصے میں دھبے نظر آتے ہیں اور حضور کریمﷺ کے مبارک چہرے کو اس ٹکڑے کے ساتھ تشبیہ دی گئی جو داغ دھبوں سے پاک اور صاف وشفاف ہے۔ مسند احمد میں حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ کا چہرہ مبارک سورج اور چاند کی طرح روشن اور (قدرے) گول تھا۔ دلائل النبوۃ اور سنن دارمی شریف میں ہے‘ حضرت ابوعبیدہ بن محمدؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معوذؓ کی بیٹی حضرت ربیعؓ سے عرض کی: حضور نبی کریمﷺ کا حلیہ مبارک تو بتائیں۔ اس پر وہ (بزرگ صحابیہ) کہنے لگیں: بیٹا! اگر تم حضور اکرمﷺ کو دیکھ لیتے تو یوں محسوس کرتے کہ تم نے آفتاب کو دیکھ لیا ہے جو طلوع ہو رہا ہے۔ امام بیہقیؒ اپنی کتاب ''دلائل النبوۃ‘‘ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت لائے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کا پاکیزہ چہرہ نور سے بھرپور اور انتہائی خوبصورت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی آپﷺ کے (مبارک اور نورانی) چہرے کا حسن بیان کرتا تو چودھویں کے چاند سے مشابہت دیتا تھا۔ صحیح ابن حبان میں ہے‘ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ جیسا کوئی حسین دیکھا ہی نہیں۔ چہرہ مبارک یوں تھا جیسے سورج کی روشنی آپﷺ کے رخِ زیبا سے جھلمل جھلمل کر رہی ہے۔ قارئین کرام! خلاصہ یہ کہ قرآن وحدیث کو سامنے رکھیں‘ دونوں میں مذکور سورج اور چاند کی تشبیہات کو آنکھوں کا نور بنائیں‘ دونوں کی تابانی کے پیچھے نورِ نبوت کے نظاروں کو ملاحظہ کرنے کی توفیقِ الٰہی میسر آ جائے تو یہ ہے حضور کریمﷺ کا حلیہ مبارک کہ جس کی دید کو ترس رہا ہے ہر بے قرار دل۔
حضور کریمﷺ یثرب میں تشریف لائے تو یہ شہر مدینہ منورہ بن گیا۔ اس لیے یہ مدینہ (شہر) منورہ بنا کیونکہ اب اس میں وہ ہستی نمودار ہوئیں جن کا پاک اور مقدس چہرہ منور اور انور ہے۔
مکی دور اور پھر ہجرت کے بعد تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ حضور کریمﷺ کی خواہش تھی کہ القدس کے بجائے ''کعبۃ اللہ‘‘ مسلمانوں کا قبلہ بن جائے۔ اس پر بار بار حضور اکرمﷺ کا چہرہ آسمان کی جانب اٹھتا تھا۔ صحیح بخاری کے مطابق ہجرت کے دوسرے سال ایک شب جب یہ چہرہ آسمان کی جانب اٹھا تو اللہ کا پیغام‘ الہام بن کر یوں قلبِ اطہر پر نازل ہوا ''ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم آپ کا چہرہ اسی قبلے کی جانب ضرور بالضرور پھیر دیں گے جو قبلہ آپ کا پسندیدہ ہے۔ (دیر کا ہے کی میرے حبیب) اپنا چہرہ مسجد حرام کی جانب پھیر لیں۔ (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہروں کو اسی (قبلے) کی سمت میں کر لو‘‘ (البقرہ: 144)۔ قارئین کرام! پہلی بات تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت ''سورۃ البقرہ‘‘ میں ہے‘ وہ سورۃ جس میں زیادہ تر تذکرہ یہود کا ہے اور دوسرے نمبر پر مسیحی لوگوں کا ہے۔ دونوں کا قبلہ ''القدس‘‘ ہے۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو آگاہ فرما دیا کہ تم معزول ہو گئے ہو‘ اب قیامت تک کیلئے وقت اور زمانہ میرے آخری رسول محمدﷺ کا ہے۔ لہٰذا درست رویہ یہ ہے کہ سمت وہی اختیار کرو جو میرے حبیبﷺ کی سمت ہے۔ مزید واضح کر دیا کہ میری رضا اور محبوبیت کا ارتکاز اپنے محبوب محمد کریمﷺ کے حسین وجمیل چہرے پر ہے اس چہرے کی سمت دیکھو اور اپنی سمتیں درست کر لو۔
اللہ اللہ! میں مذکورہ آیتِ کریمہ پر متواتر غور کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے چہرے مبارک کو خود ہی بنانے والے ہیں‘ اللہ کے لیے تو کوئی سمت نہیں لہٰذا حضور کریمﷺ کا مبارک چہرہ ہمہ وقت اللہ کے سامنے ہے۔ پھر ایسا کیوں ہوا کہ حضورﷺ بار بار اپنا چہرہ آسمان کی جانب کرتے رہے۔ سمجھ یہ آئی کہ حضورﷺ کے پاک قلبِ مبارک کی التجائیں اور خواہشیں جب نور بن کر چہرہ مبارک کی زیبائش بن گئیں تو محبت میں ڈوبی عبادت کا یہ وہ نور تھا کہ جسے اللہ نے چاہا کہ رات کے سناٹوں میں یہ بار بار جھلمل کرتا تابانی دکھلاتا رہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرے ماضی کی جانب جھکا ہوا حال کا جملہ لا کر اللہ نے فرمایا ''ہم آپ کا چہرہ آپﷺ کے پسندیدہ قبلے کی جانب پھیر دینے والے ہیں‘‘۔ اور پھر بغیر کسی تاخیر کے فرمایا: ''چہرہ پھیر لو‘‘۔ اللہ کی قسم! کیا محبت بھرا یہ انداز ہے اور پھر فجر کی نماز کے دوران ہی اہلِ اسلام نے یہ حکم سنا تو اپنے رخ کو کعبۃ اللہ کی جانب پھیر لیا۔ ایسے پاک‘ مطہر اور اطہر چہرہ مبارک پر لاکھوں سلام‘ کروڑوں درود و سلام‘ لاتعداد صلاۃ و سلام!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved