تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     06-09-2025

آج کی دنیا کے نام اسوئہ حسنہ کا پیغام

آج محمد مصطفیﷺ کی ولادت باسعادت کا روزِ سعید ہے۔
20ویں صدی میں اسلام اور رسولِ خداﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے خلاف پرانے تعصبات کافی کم ہو گئے تھے۔ جہاں تک محمد عربیﷺ کی شخصیت کی وسعت کا تعلق ہے تو اس کا احاطہ کرنا کسی بڑے سے بڑے عالم کے بس کی بات نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس دوران مغرب کے بہت بڑے اصحابِ علم و دانش نے رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپؐ کے لائے ہوئے انقلاب کی جامعیت کا اعتراف کیا ہے۔ دنیا میں آنے والے بڑے بڑے انقلابات میں انسانی زندگی کے محض ایک دو پہلوؤں کو ہی فوکس کیا گیا۔ 18ویں صدی کے اواخر میں آنے والے انقلابِ فرانس کا اہم سبب سیاسی اور معاشی تھا۔ بغیر قائد کے آنے والے اس انقلاب کی عوامی عدالت نے 1793ء میں پہلے بادشاہ ا ور پھر ملکہ کو سزائے موت دے دی۔1917ء میں آنے والے اشتراکی انقلاب نے خون کی ندیاں تو بہائیں مگر یہ معاشی مساوات کے بجائے کمیونسٹ پارٹی کی بدترین آمریت لایا۔ اس آمریت نے ذاتی ملکیت‘ ذاتی محنت حتیٰ کہ ذاتی سوچ تک پر قبضہ کرلیا۔ کسی بھی نظام کے ماننے والے اپنے قائد کی عظمت کا بہت اعتراف کرتے ہیں مگر بڑا اعتراف وہ ہوتا ہے کہ جو دوست نہیں کوئی دشمن کرے‘ جو اپنا نہیں کوئی پرایا کرے‘ جو آپ کے پیغام کو قبول کرے یا نہ کرے مگر دل و جان سے اس کی صداقت پر ایمان لے آئے۔ یوں تو اس صدی کے دوران کئی دانشوروں اور مصنفین نے محمد مصطفیﷺ کے بے شمار کارناموں کی بے پناہ تعریف کی ہے لیکن یہاں میں صرف مغربی شخصیات کا ذکر کروں گا۔
بیسویں صدی کے اواخر میں مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب ''The 100‘‘ 1980ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں مائیکل ہارٹ نے معلوم انسانی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے تعین کیا کہ اس سفر میں کن کن شخصیات نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا ہے۔ مصنف نے اپنی وسعتِ مطالعہ کے نتیجے میں ایسے سو افراد کی فہرست بنائی‘ ان سوافراد میں سرفہرست محمد مصطفیﷺ تھے۔ دوسرے نمبر پر فزکس کے ماہر نیوٹن کو رکھا گیا اور اس کا سبب یہ بتایا کہ فزکس کے علمی میدان میں نیوٹن کے جدید نظریات واقعی انسانی زندگی پر اثر انداز ہو کر دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائے۔ مصنف نے تیسرے نمبرپر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رکھا ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں کی ایک اور شخصیت ٹھیک 50ویں نمبر پر ہے اور وہ ہیں حضرت عمر فاروقؓ۔ مائیکل ہارٹ نے خود کتاب میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ میں ایک عیسائی ہوں مگر میں نے محمد عربیﷺ کو پہلے نمبر پر کیوں رکھا؟ اس سوال کا جواب بھی اس نے خود دیا ہے کہ تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیات میں محمد مصطفیﷺ وہ واحد شخصیت ہیں جو بیک وقت مذہبی اور سماجی دونوں میدانوں میں بے حد کامیاب رہے ہیں۔
اسی طرح سائنس اور فکشن میں شہرت یافتہ ایچ جی ویلز نے جناب رسالت مآبﷺ کے خطبۂ حجۃ الوداع کے حوالے سے عظمتِ رسولؐ کا دلی اعتراف کیا اور کہا کہ انسانی مساوات اور عصبیتیں مٹانے کی باتیں کرنیوالے دنیا میں کئی اور لوگ بھی تھے مگر محمد مصطفیﷺ نے جو کچھ کہا اس پر عمل کر کے دکھایا۔محمد عربیﷺ نے تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک ایسا معاشرہ قائم کر دیا کہ جس میں کسی طرح کی لسانی‘ قبائلی‘ علاقائی اور گورے کالے کی کوئی تقسیم باقی نہ رہنے دی۔ عدل و انصاف کاایسا نظام قائم کیا گیا جو اس سے پہلے چشمِ فلک نے نہیں دیکھا تھا۔ فریق ثانی کو سنے بغیر کوئی فیصلہ نہیں دیا جاتا تھا نیز شک کا فائدہ مدعی کو نہیں ملزم کو دینے کا قانون وضع کیا گیا۔ عدلِ اجتماعی بھی قائم کیا گیا۔ عصا بردار کلیمی کا ایک نہایت متوازن کلچر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر عملدرآمد کر کے بھی دکھایا گیا۔ ہجرت مدینہ کے صرف چند سال بعد فتح مکہ کو تاریخ کی آنکھ نے دیکھا۔ ایسی فتح کہ جس میں سب کو پناہ دے دی گئی اور کوئی کشت و خون نہیں ہوا اور نہ کسی ظالم سے بدلہ لیا گیا۔
آج اسوۂ حسنہ کے دو پیغامات یہ درویش پیش کر رہا ہے۔ ایک عالمِ انسانیت کیلئے اور دوسرا امتِ مسلمہ کیلئے۔ بڑی بڑی فتوحات کے بعد بھی محسنِ انسانیت ﷺکا ارشاد تھا کہ کسی ایک شخص کا خونِ ناحق ساری انسانیت کو تہ تیغ کرنے کے مترادف ہے۔ میں نے آغاز میں مغرب کے دو بڑے اہلِ علم و دانش کے اعترافات کا اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ وہاں کے حکمرانوں کو احساس ہو کہ اُنکے نام کتنے عظیم انسان کی حیاتِ طیبہ کا پیغام ہے۔ پیغام یہ ہے کہ غزہ میں بلکتے ہوئے بچوں کو گولیوں اور بھوک کی شدت سے مارنا بند کرو۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے آپ کو مذہبی کہتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو ہیں۔ کیا مسیحیت میں بچوں‘ خواتین‘ بوڑھوں اور بے قصور جوانوں کا قتلِ عام روا ہے؟ سارا عالمِ انسانیت اس خونریزی کے خلاف سراپا احتجاج ہے‘ لہٰذا رومن اکھاڑوں والا موت کا کھیل فی الفور روکا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنے تئیں یہودی کہلاتا ہے‘ مگر یہ یہودی نہیں صہیونی ہے۔ یہودی تو حضرت ابراہیم‘ حضرت اسحق ‘حضرت موسیٰ‘ حضرت دائود علیہم السلام کی پیروی کرتے ہیں جن کی تعلیمات میں قتلِ عام تو دور کی بات کسی پر ہاتھ اٹھانا بھی ممنوع ہے۔ البتہ یہودیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صہیونی وزیراعظم کی خوں آشامی کو فی الفور لگام دیں تاکہ وہ جنگ کی آگ بھڑکانے کے بجائے غزہ میں امن قائم کرے۔
اسوئہ حسنہﷺ میں امت مسلمہ کیلئے بڑا واضح پیغام موجود ہے۔ ارشادِ مصطفی ﷺہے ''تمام مومن فردِ واحد کی طرح ہیں‘ اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم دکھتا ہے۔ اور اگر اس کا سر تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو بھی اس کا سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی ایک تازہ رپورٹ میں ''غزہ ہیو منٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ کو‘ جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے‘ ظلم کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز پر 1800 ہلاکتیں درج کی گئیں۔ 100کے قریب بچوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ بعض بچوں کو سینے میں سریا مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ امدادی مراکز ہدف اور ذلت کے میدان بن چکے ہیں۔ ان امدادی مراکز سے زندہ بچ کر آنے والے بتاتے ہیں کہ پیغام صاف ہے‘ بھوکے مرو یا کھانے کیلئے کوشش کرتے ہوئے مرو۔ ایک فلسطینی اسماعیل الشوانتا نے بتایا کہ کئی روز سے گھر میں فاقے ہیں۔ یہ میری زندگی کا جان لیوا لمحہ تھا کہ جب گھر میں ننھی بچی نے روٹی مانگی مگر ہمارے پاس اسے دینے کیلئے روٹی کا ایک لقمہ بھی نہیں تھا‘ کوئی بے بسی سی بے بسی تھی۔ صحافی ابو جلال اپنی حالتِ زار بتاتے ہیں کہ میں نے دو دن امدادی کھانے کے انتظار کے بعد 25 ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کچھ نہ کچھ کھلا رہی ہیں۔ آج ظلم کی چکی میں پستے ہوئے ہمارے فلسطینی بھائی اور بہنیں پوچھتی ہیں کہ 57 دولت مند اور طاقتور ملکوں کے حکمران کہاں ہیں؟ کیا امریکہ کے بہترین تعلقات کے دعویدار ہو کر اس سے اتنا بھی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ غزہ میں ہمیں خود ہی خوراک لانے اور خود ہی تقسیم کرنے دو۔ حدیث پاک میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ آج دو ارب مسلمان اور ان کے حکمران اپنے صرف 20 لاکھ اہلِ غزہ کا دکھ درد محسوس کیوں نہیں کرتے؟ اسی طرح امت مسلمہ شاید سورۂ آل عمران میں نازل کردہ وہ ارشاد باری تعالیٰ بھی بھول چکی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تم ظالموں کی بستی میں گھرے ہوئے اُن ضعیف مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی مدد کیوں نہیں کرتے جو ظلم سے چھٹکارے کیلئے پکار پکار کر تمہیں بلا رہے ہیں!مسلمانوں کی خامشی کی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تازہ ترین خبروں کے مطابق اب نیتن یاہو نہ صرف غزہ پر بلکہ مغربی کنارے پر بھی قبضہ کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved