ہمارے نزدیک ہر نبی اور رسول محترم ہے‘ مکرّم ہے‘ معزز وموَقَّراور ذی شان ہے‘ لیکن خود رسولوں کے مابین فضیلت کے اعتبار سے درجہ بندی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''یہ رُسلِ عظام کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی‘‘ (البقرہ: 253)۔ پس ہمارے آقا ومولیٰ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے خصائص اور فضائل بیشمار ہیں‘ ان کی تفصیلات قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مجھے تمام انبیائے کرام پر بعض چیزوں میں فضیلت عطا فرمائی گئی: (1) مجھے ''جامع کلمات‘‘ کا ملکہ عطا کیا گیا ہے (کہ میں معانی کے سمندر کو ایک جملے میں سمو سکتا ہوں۔ محدثینِ کرام نے اس کی متعدد مثالیں بیان کی ہیں‘ ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے)‘ (2) میری شخصیت کا رعب ودبدبہ مخالف پر ایک ماہ کی مسافت سے طاری ہو جاتا ہے‘ (3) میرے (یعنی میری امت) کیلئے مالِ غنیمت (اور صدقات) کو حلال کر دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی امت کیلئے حلال نہ تھے‘ (4) (ادائے نماز کیلئے) میرے لیے پوری زمین کو پاکیزہ قرار دے دیا گیا ہے‘ (5) ماضی میں نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے سارے عالَمِ انسانیت اور ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا ہے (مسلم: 521 کے الفاظ ہیں: مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے)‘ (6) مجھے شفاعتِ (کبریٰ) کا اذن عطا کیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیا گیا‘ (7) مجھ پر نبوت کے سلسلے کو ختم کر دیا گیا ہے‘ یعنی میں ''خَاتمُ النّبیین‘‘ ہوں‘ (8) دریں اثنا کہ میں سویا ہوا تھا‘ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں‘‘۔ یہ خصائص ہم نے بخاری و مسلم کی احادیثِ مبارکہ کو یکجا کر کے اور مکررات کو حذف کر کے لکھے ہیں اور تحت اللفظ نہیں‘ بلکہ تشریحی ترجمہ کیا ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے نعمۃ الباری شرح بخاری میں لکھا ہے: ''امام محمد بن ابراہیم نیشا پوری نے مختلف روایات کے حوالے سے آپﷺ کے پچاسی خصائص لکھے ہیں‘ ان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔
آپﷺ کی خصوصیات میں سے ایک ''رسالتِ عامّہ‘‘ ہے‘ یعنی آپؐ کی نبوت ورسالت تمام عالم انسانیت‘ جنّات وملائک حتیٰ کہ انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم السلام اور جمیع انواعِ مخلوق کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 158) (2) ''اور ہم نے آپکو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کیلئے جنّت کی بشارت دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (سبا: 28)۔ یہ آیاتِ قرآنی واحادیثِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپﷺ کی نبوت قیامت تک پورے عالَمِ انسانیت کیلئے حتیٰ کہ جنّات وملائک اور دیگر انواعِ مخلوق پر بھی محیط ہے۔
آپﷺ کی ایک ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی رضا اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا: ''اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘ (الضحیٰ: 5)۔ ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے ابتدائی سترہ ماہ تک اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپﷺ بیت المقدِس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے‘ لیکن آپ کے دل میں یہ خواہش تھی کہ آپ کے اجدادِ اعلیٰ حضراتِ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بنائے ہوئے کعبۃ اللہ کو قبلۂ نماز بنا دیا جائے‘ اس تمنا میں آپﷺ بارہا اپنا رُخِ انور آسمان کی طرف پلٹ کر دیکھتے کہ شایداللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویلِ قبلہ کا حکم آ جائے‘ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا: ''بیشک ہم نے (بارہا) آپ کو اپنا چہرہ آسمان کی طرف پلٹتے ہوئے دیکھا ہے‘ سو ہم آپ کو ضرور اُس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو آپ کو پسند ہے‘ پس آپ (نماز میں) اپنا رُخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر دیں اور (مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو‘ اپنا رُخ اُسی کی طرف پھیر لو‘‘ (البقرہ: 144)۔ یہ آیتِ مبارکہ مقامِ مصطفیﷺ کی رفعتوں کو سمجھنے کیلئے ایک بہترین کسوٹی ہے‘ کیونکہ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس کی بندگی کی جائے قبلہ اُسی کی پسند کا ہونا چاہیے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریمﷺ کو خصوصی شرف سے نوازتے ہوئے آپﷺ کی پسند کا قبلہ مقرر فرما دیا۔ عام شرعی ضابطہ یہ ہے کہ رضائے الٰہی کو پانا ہی بندگی کی معراج ہے‘ مگر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کو رضائے مصطفیﷺ کے مطابق فرما دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) اُن کی (دل آزار) باتوں پر صبر کیجیے اور طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھیے اور رات کے بعض حصوں اور دن کے (درمیانی) کناروں میں بھی تسبیح پڑھتے رہیے تاکہ آپ راضی ہو جائیں‘‘ (طہٰ: 130)۔ مفسرینِ کرام نے بتایا: اس آیۂ مبارکہ میں حمد وتسبیح سے مراد نمازیں ہیں‘ کیونکہ بعض اوقات جز بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حمد وتسبیحات نماز کا حصہ ہیں۔ نیز اس میں نمازوں کے اوقات کی طرف بھی اشارہ ہے اور فی نفسہٖ تو عبادت رضائے معبود کیلئے ہوتی ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرمﷺ کو ان کلمات کے ساتھ اعزاز عطا فرمایا: آپ اس لیے حمد کے ساتھ تسبیحات پڑھیں‘ نمازیں ادا کریں تاکہ آپ راضی ہو جائیں‘ اس سے معلوم ہوا کہ رضائے الٰہی اور رضائے مصطفیﷺ دو جدا چیزیں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی حقیقتِ کاملہ کا نام ہے۔ اللہ کی رضا میں مصطفیﷺ کی رضا اور مصطفیﷺ کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہے۔ یہ دو متوازی یا متضاد چیزیں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی آئینے کے دو رُخ ہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو پَرتو ہیں اور ایک ہی تجلی کے دو عکس ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رضا کا مدار ومعیار رضائے مصطفی قرار پائی‘ اطاعتِ الٰہی کا شعار اطاعتِ رسول قرار پایا‘ اس کے سوا کچھ نہیں تو پھر نیکی وہی ہے جو آپﷺ کی ذات سے منسوب ہو‘ جو آپ کی ادائوں سے جانی جائے‘ جو آپ کی سیرت میں ڈھل جائے‘ اس کے سوا نیکی کا ہر مَن پسند معیار فریبِ نفس ہے‘ عُجبِ نفس ہے‘ انا پرستی ہے اور حق سے انحراف ہے۔
حدیثِ پاک میں ہے: ''انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: تین افراد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجرات کی طرف آئے اور آپﷺ کی عبادت کے معمولات کے بارے میں سوال کرنے لگے‘ پس جب امہات المؤمنین نے انہیں آپﷺ کی روزانہ عبادت کے معمولات بتائے تو انہوں نے اپنی دانست میں ان کو کم سمجھااور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبیﷺ! آپﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی قطعی اور کُلِّی سند عطا کر رکھی ہے۔ پس ان میں سے ایک نے کہا: اب میں ہمیشہ ساری رات نوافل پڑھا کروں گا‘ دوسرے نے کہا: اب میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور روزہ کبھی نہیں چھوڑوں گا‘ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے لاتعلق رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا (تاکہ سارا وقت عبادت میں مشغول رہوں)‘ دریں اثنا رسول اللہﷺ اُنکی طرف تشریف لائے اور فرمایا: تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ باتیں کی ہیں‘ سنو! واللہ! مجھ سے بڑھ کر نہ کسی کے دل میں خشیتِ الٰہی ہے اور نہ مجھ سے کوئی بڑا متقی ہے‘ لیکن (میرا معمول یہ ہے کہ) میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ دیتا ہوں‘ رات کا کچھ حصہ نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ وقت کیلئے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں‘ (پس یہی میرا شِعار بندگی ہے)‘ سو جو میری سنت سے اعراض کرے گا‘ وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (بخاری: 5063)۔ یہ تنبیہ یا وعید گناہگاروں کیلئے نہیں بلکہ اُن کیلئے ہے جو اپنی دانست میں سنتِ مصطفیﷺ سے ہٹ کر اعلیٰ معیارِ بندگی اختیار کرنا چاہتے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: معیارِ بندگی فقط میری سنت کے اتباع کا نام ہے‘ اس سے اِعراض کا نام نہیں۔ الغرض نیکی اور بندگی اُسی شعار کا نام ہے جو ذاتِ پاکِ مصطفیﷺ سے منسوب ہو جائے‘ عشق ومحبت اور اطاعت واتباعِ مصطفیﷺ کے خود ساختہ معیارات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved