تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-09-2025

تاریخ کی دلدل

اگر آپ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں‘ میسور میں ہوتے تو ٹیپو سلطان کا ساتھ دیتے یا لاتعلق رہتے؟
یہ سوال میں نہیں اٹھا رہا۔ مجھے آپ کے جذبات کا علم ہے اور معلوم ہے کہ آپ کا جواب کیا ہو گا۔ یہ سوال ڈاکٹر خلیل احمد نے اپنے کتابچے ''تاریخ کی دلدل‘‘ میں اٹھایا ہے۔ انہیں بھی آپ کے جذبۂ حریت اور بہادری میں کوئی شک نہیں۔ وہ یہ سوال سماجیات اور تاریخ کے ایک عالم کے طور پر اٹھا رہے ہیں اور اس سے کچھ نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ وہ مطالعۂ تاریخ کے باب میں ہمیں ایک مختلف زاویۂ نظر کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کسی مصلحت سے خود کو اٹھارہویں صدی کے دائرے میں مقید رکھا ہے ورنہ یہ سوال تاریخ کے کسی عہد کے بارے میں اٹھایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک نتیجۂ فکر یہ ہے: ''ہمارے آبائو اجداد تاریخ کے جس عہد میں زندہ تھے‘ ہم تاریخ کے اُس دور کی سیر تو کر سکتے ہیں‘ خود کو اُس سے جوڑ نہیں سکتے۔ جیسے ہمارے آبائو اجداد خود کو آج کی تاریخ سے جوڑ نہیں سکتے‘‘۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اس جملے کی شرح ایک سوال کی صورت میں کرتا ہوں۔ ''اگر ٹیپو سلطان آج کے دور میں ہوتے اور عالمی حالات سے اسی طرح باخبر ہوتے جیسے آج ہم ہیں تو تب بھی‘ کیا وہی فیصلہ کرتے جو انہوں نے اٹھارہویں صدی میں کیا تھا؟‘‘ ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کے ذہن میں یہ سوال معروف مورخ رومیلا تھاپر کے ایک انٹرویو سے پیدا ہوا۔ ان سے پوچھا گیا: ''کچھ عالم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہند اور سندھ مختلف تہذیبیں ہیں۔ کیا آپ اس نظریے کو مانتی ہیں؟ اُن کا جواب تھا: میں اس نظریے کو نہیں مانتی۔ سندھ کی تہذیب بہت پھیلاؤ رکھتی ہے۔ یہ متعدد خطوں تک پھیلی ہوئی ہے جو اَب پاکستان اور بھارت کا حصہ ہیں۔ میں اس نظریے پر سخت معترض ہوں۔ آپ بیسویں صدی میں پیش آنے والے کسی واقعے کو‘ تاریخ میں پانچ ہزار سال پیچھے نہیں دھکیل سکتے‘‘۔
آخری جملہ اہم ہے۔ کیا ہمیں ایسے سوالات کو زیرِ بحث لا کر‘ حال کو ماضی میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ پہلے ہم وہ جواب سنتے ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے دیا ہے: ''ایسے سوالات خود کو ایک دلدل میں گرانے اور پھنسانے کے مترادف ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تاریخ ایک دلدل ہے... ہمارا رویہ اور نظریہ تاریخ کو ہمارے لیے ایک دلدل بنا دیتا ہے... یہ دلدل قومی ریاست اور قوم پسندی کے ساتھ زیادہ گہری اور زیادہ وسیع ہوئی۔ گو کہ یہ دلدل پہلے بہت سے ناموں کے تحت موجود رہی۔ جیسے ثقافت‘ تہذیب‘ تمدن‘ نسل وغیرہ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب ان عناصر کو دلدل نہیں سمجھتے‘ ان کے باب میں اختیار کردہ رویے اور نظریے کو دلدل کہہ رہے ہیں۔ اس نتیجۂ فکر کے بعد وہ ایک سوال اٹھاتے ہیں: ''کیا تاریخ کا کوئی ایسا نظریہ وضع کیا جا سکتا ہے جو اسے دلدل میں تبدیل نہ کرے؟‘‘ پھر وہ جواب دیتے ہیں: ''میرا خیال ہے ایسا ممکن ہے‘‘۔
اب میں اپنے خیال کی طرف آتا ہوں جسے ڈاکٹر صاحب کے اس کتابچے نے مہمیز دی۔ مسلمانوں میں‘ ان کی اپنی تاریخ متنازع ہے۔ اس تنازع کا سبب تاریخ نہیں‘ ان کی تعبیرِ مذہب ہے۔ مذہب اور شخصیات کے بارے میں ہم نے ایک نظریاتی عمارت کا ڈھانچا بنایا‘ اس میں نقش ونگار کے لیے ہمیں تاریخ کے رنگوں کی ضرورت تھی۔ ہم نے تاریخ کے واقعات کو اسی مقصد کے لیے مطلوبہ رنگوں میں رنگا۔ اس کے بعد انہیں اس عمارت کی تزین وآرائش کے لیے استعمال کیا۔ اس طرح ہماری پسند کی عمارت تیار ہو گئی۔ یہی عمارت ہمارا فکری قبلہ ہے۔ ہم اسی کی پرستش کرتے ہیں۔ ہم نے اس طرح کی کئی عمارتیں کھڑی کر دیں۔ اب ہم انہی کے گرد طواف کرتے ہیں۔ اگر ہمیں تاریخی واقعات کی کوئی اور تعبیر پیش کرے تو ہم اسے ماننے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم تاریخ کا کوئی اور رنگ تسلیم کریں گے‘ اس فکری عمارت کے نقش ونگار بگڑنا شروع ہو جائیں گے جو ہم نے اپنی مرضی سے بنائے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل احمد ایک نظریۂ تاریخ کا ذکر کرتے ہیں جسے 'سازشی نظریہ‘ کہتے ہیں۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ پاکستان کا قیام یا تقسیمِ ہند‘ انگریزوں کی سازش تھی۔ مزید برآں قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایک سازش کے تحت اسلام پسندوں نے ترقی کا راستہ روکا۔ اس نظریے کی نمائندہ کتاب ''پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘ ہے جو زاہد چودھری صاحب نے لکھی اور جس کی تکمیل وترتیب کی خدمت حسن جعفر زیدی صاحب نے سرانجام دی۔ ڈاکٹر خلیل صاحب کے مطابق یہ کتاب ''بتاتی ہے کہ ترقی اور جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے کس طرح ایک سازش کے تحت‘ اسلامی نظام کے نعرے‘ ملائیت اور فرقہ واریت کا آغاز کیا گیا۔ یہ سازش اسلام پسندوں نے استحصالی طبقات کے تعاون سے تیار کی‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام پسند بھی ایک سازشی نظریے پر یقین رکھتے ہیں جس کے مطابق سیکولر طبقے نے امریکہ وغیرہ کی معاونت سے پاکستان کو اسلامی نظام سے دور رکھنے کی سازش کی۔ دونوں تاریخی واقعات کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔
تاریخی واقعات کی جب اس طرح سازشی توضیح کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کے مطابق: ''اگر کوئی فرد تاریخ کو کسی خاص اور اپنی پسند کی شہادت کے حصول کے لیے کھوجتا اور لکھتا پڑھتا ہے تو انجام دلدل کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا‘‘۔ ہم اس وقت اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ مطالعۂ تاریخ کا نیا نظریہ بنایا جا سکتا ہے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کتابچے میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ یہ مشکل ہے۔ اگر ہم مطالعۂ تاریخ کا کوئی نیا نظریہ تلاش کریں گے تو اس کا انجام پرانے نظریات جیسا ہو گا۔ چونکہ ایک واقعے کی ایک سے زیادہ توجیہات ممکن ہیں‘ اس لیے اسے بیک وقت کئی نظریات کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ تاریخ کے واقعات تجریدی ہیں‘ جن میں کوئی معنوی ربط نہیں؟
زندگی کے بارے میں دو بڑے نقطہ ہائے نظر اس بات کو نہیں مانتے۔ مذہبی تعبیر واقعات کو ایک الٰہی سکیم کا حصہ مانتی ہے۔ ترقی پسند انہیں قوانینِ فطرت کے تابع قرار دیتے ہیں۔ ان واقعات کی تصغیر کی جائے تو پھر فرقے اور نظریاتی گروہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے میری تفہیم تو وہی ہے جو ہماری روایت میں پہلے سے موجود ہے کہ تاریخی واقعات کی روایت سے‘ علمِ ظن سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ ہمارے نظریات کی پابند نہیں۔ ہم اس کو اپنے اپنے نظریات میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ حال میں رہ کر‘ اگر ہم نے کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ماضی کا کوئی واقعہ اس کی مثال نہیں بن سکتا۔ ہم یقین کے ساتھ نہیں جانتے کہ ماضی میں لوگوں نے جو حکمتِ عملی اختیار کی اس کے اسباب کیا تھے؟ ہمیں تو اپنے حالات کو دیکھنا اور پھر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ اس کی بنیاد انسانی عقل اور وہ اخلاقی مطالبات ہیں جو ہماری فطرت میں ودیعت ہیں اور پیغمبروں نے جن کی تذکیر کی ہے۔ یہ تاریخی نہیں‘ آفاقی ذرائع ہیں۔ اس پر بہت بات ہو سکتی ہے لیکن سرِدست آپ کو ڈاکٹر خلیل احمد کے فکر انگیز کتابچے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ صفحات کا کم ہونا کسی تحریر کی علمی کہتری کو بیان نہیں کرتا۔ ماضی میں اہلِ علم اکثر کتابچے ہی لکھتے تھے۔ اس کے بہتر صفحات کو فکر کے بہتر نشتر سمجھنا چاہیے۔ تاریخ‘ سیاست اور سماجیات کے ہر طالب علم کو لازماً اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved