تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-09-2025

ڈنڈا‘ انڈا اور امرود

کوئی حد ہے بے رحمی کی ۔ خود نمائشی تو کسی نئے لیول پر چڑھ دوڑی ہے۔ خود اپنے آپ کو مسلسل دھوکا دینے والے سمجھ رہے ہیں کہ 25 کروڑ باشعور پاکستانی عوام مسلسل دھوکے میں آ سکتے ہیں۔ انگریزی کی ایک پُرانی کہاوت سامنے ہے‘ یہی کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے مگر سب لوگوں کو سارے وقت کے لیے بیوقوف بالکل نہیں بنایا جا سکتا۔
آج کا وکالت نامہ اتوار کے روز شہرِ اقتدار سے تختِ لاہور آتے ہوئے قلم بند ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں گرج چمک بھی ہوتی جا رہی ہے مگر ساتھ ساتھ گہرے بادل بھی چھائے ہوئے ہیں۔ پچھلی رات اسلام آباد کی ایک فیملی نے اپنے گھر سے باہر نکل کر ایک آوارہ کڑکتے بادل کی وڈیو بنائی‘ جو بظاہر چھوٹا سا تھا‘مگر اُبلتی‘ آگ اُگلتی بجلیوں سے بھرپور تھا۔ کچھ ٹی وی چینلز نے بھی یہ وڈیو دکھائی اور سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو اندر کی نگاہ سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے یہ کڑکتا بادل برس جانے کے لیے بے تاب ہے۔ شہرِ اقتدار کی وہ دیواریں جن کے کان ہرگز نہیں ہیں بلکہ یہ دیواریں بنی ہی کانوں سے ہیں‘ اُنہیں گرج چمک اور برسات کی روزانہ چھماچھم کے درمیان 100 دن سے بھی کم عرصے میں فیصلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے تو مری میرا علاقہ ہے مگر سال بھر سے مری جانا نہیں ہو سکا حالانکہ شاگردِ عزیز شبیر محمود ملک ایڈووکیٹ ہر سال اپریل کے مہینے سے ہی بھوربن مین روڈ پر واقع اپنے آبائی گھر اوسیاہ آنے کی دعوت دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر اب کے سال پونم میں وہ جو مری ملاقات میں شریک ہونے گئے تھے اُن کے منہ کے خراب ذائقے کا ثبوت فارم 47 کیبنٹ کے ایک عدد سیاسی مشیر اور دفاعی وزیر کے ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر بیانوں نے پبلک کر چھوڑا ہے۔ اُس گفتگو کا ایک حصہ پنجاب حکومت کے نئے تشکیل کردہ پولیسنگ ڈیپارٹمنٹ‘ مشہورِ زمانہ CCD کے چھاپوں کے خلاف تھا۔
اسے کرما کہہ لیں‘ قسمت کا مذاق یا بم کو دولتی جھاڑنے کی عادت۔ وہ جنہیں اپنے ذاتی ناپسندیدہ لوگوں پر چھاپے مروانے میں مزہ آتا ہے‘ اسی مزاج کی تسکین کے لیے ماڈل ٹائون اور ڈی چوک کے سانحات ہوئے‘ اب اُنہی لوگوں کی کانپیں CCD کے چھاپوں سے ٹانگ رہی ہیں۔ ہم وکیل لوگ ہر طرح کی ماورائے عدالت اور ماورائے قانون ''بندے مار‘‘ واردات کے مخالف ہیں مگر قوم جاننا چاہتی ہے کس کریمنل کوکرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کا ڈنڈا نظر آ رہا ہے؟ نظر آنے سے یاد آیا‘ ان دنوں ایک بار پھر عدلیہ میں گرجتے برستے خط اور سوالات کے بادل اُٹھ رہے ہیں۔ ان سوالات کو PDM ٹُو کی حکومتی پارٹیاں اپنی حکومت پر پڑنے والا انڈا سمجھ بیٹھی ہیں‘ حالانکہ دو حوالوں سے یہ عدلیہ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ تازہ تاریخ! ابھی گزرے کل کی بات ہے جب یہی پارٹیاں اپنے سرپرست ہیرو قاضی کے ذریعے سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات کو تلپٹ رکھنے اور اپنے حق میں مرضی کے فیصلے لینے کے لیے اُس سے خط لکھوایا کرتی تھیں۔ آج کیا نیا ہو گیا‘ جس کی بنا پر سوال اُٹھانا قابلِ اعتراض ہو گیا۔ گزرے کل بھی سپریم کورٹ کے اندر اُٹھائے جانے والے سوالات اور ججز کے خیالات پریس کے ذریعے پبلک ہوتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اصل سوال یوں ہے کہ سپریم کورٹ میں بیٹھنے والے برادر ججز‘رولز کے نیچے بننے والی کمیٹیاں‘ سینئر وکلا سے وقتاً فوقتاً ہونے والی مشاورت جو سب اس سپریم ادارے کا خاصہ تھا وہ اب کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ظاہر ہے اس ماحول کو درست کرنے کی ذمہ داری‘ ساتھ ہی عدلیہ کو اپنا قبلہ درست کرنے ذمہ داری نہ تو پریس رپورٹرز کی ہے اور نہ ہی وکیل برادری کی۔ ڈنڈا تو پولیس کے ہاتھ میں بھی اچھا نہیں لگتا‘ اس لیے بڑے بڑے طاقتور بھی ڈنڈا چلا چلا کر عاجز آتے ہیں تو ڈنڈا چلانے کا نتیجہ آخر میں انڈا ہی نکلتا ہے۔ جب ڈنڈے سے شروع ہونے والی بات انڈے پہ آ جائے تو سمجھ لیں برسات کے امرود میں کیڑا پڑ گیا۔
برسات اور کیڑے کے ذکر سے نظر پھر سیلاب کی طرف گئی۔ تب تک میں علاقہ چونترہ سواں کے چھوٹے دریائے سِہل پر پہنچ چکا تھا‘ جہاں سیلاب سے آنے والی تباہی کی باقیات زبانِ حال سے بتا رہی تھیں‘ بارش والے دن یہاں ہیلی کاپٹر اُترے تھے۔ اب وہاں سے سیلاب کے بعد آبادکاری کے ذمہ دار ادارے بھی ہوا میں اُڑ چکے ہیں۔ بھیرہ میں شارٹ بریک کے بعد سیال پہنچتے پہنچتے ہیر کی بے حال سرزمین نظر آ گئی۔ کماد کی فصل اُجڑے ہوئے دیار کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ اس سارے راستے میں کوئی بکری‘ بھینس‘ بھیڑ‘ گائے‘ گدھا یا اونٹ نظر نہ آیا۔ فیصل آباد موڑ سے ذرا پہلے تک کسانوں کے ڈیرے‘ رہٹ والے کنویں‘ مواصلات کے ذرائع‘ لاتعداد سولر پینل‘ اونچے درخت بھی آدھے آدھے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک تین گھروں کی بستی میں‘ جہاں چاروں طرف تاحدِ نگاہ پانی ہی پانی کھڑا ہے‘ وہاں اداس چہروں والی کسان خواتین آسمان پہ نظریں جمائے یوں بیٹھی تھیں جیسے بارگاہِ الٰہی میں شکوۂ ثانی پیش کر رہی ہوں:
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
ہمارا طرزِ حکومت ہو یا ریاستی طرزِ فکر‘ دونوں اتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ اس کی شاید ہی کوئی دوسری ادارہ جاتی مثال موجود ہو۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچئے اور بتائیے اس وقت تین قومی ترجیحات پر کس ادارے کے پاس مستقبل قریب کا روڈ میپ ہے۔
پہلی قومی ترجیح: پچھلے ساڑھے تین سال کے بارے کسی طبقے کے کسی فرد سے پوچھ لیں‘ سماج کے سارے طبقات اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے ریاستی پالیسی سازوں کی نظر نہ عوام پر ہے‘ نہ ان کے مسائل پر۔ اسی لیے پاکستان ہیجانستان بن چکا ہے۔ لوگ مستقبل کی اُمید چھوڑ بیٹھے ہیں۔ مجھے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ اب گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کے طلبہ و طالبات Humanities گروپ کے مضامین میں داخلہ نہیں لیتے۔ ہر کوئی شارٹ کورس‘ ڈپلومہ یا ایسی ڈگری چاہتا ہے جس کا پَر لگا کر وہ پاکستان سے باہر اُڑ جائے۔ پورا نظام ڈنڈا‘ انڈا اور امرود بنا کر رکھ دیا گیا۔ بچے کہتے ہیں یہاں نہ میرٹ ہے‘ نہ مستقبل۔ جو یہ حقیقت سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دے‘ سمجھیں وہ گیا۔
دوسری قومی ترجیح: سیلابِ بلا کے مارے ہوئے ہم وطنوں کی معاشی بحالی کے لیے‘ زرعی نقصان پورا کرنے کے لیے‘ گھریلو سامان پورا کرنے کے لیے اور اُن کا نظامِ حیات بحال کرنے کے لیے کس ادارے نے ابھی تک گائوں گائوں جاکر سیلاب زدگان اور اُن کے نقصان کا سروے کیا؟ ہم وطنوں سے معلومات لیں پھرگرائونڈ سے حاصل ہونے والی معلومات سے ڈیٹا مرتب کرکے یہ یقینی بنانا کہ کوئی اُجڑا ہوا پاکستانی امداد سے محروم نہ رہ جائے۔
تیسری قومی ترجیح: کیا کوئی ایسا ہے جس کے پاس تین چیزوں کی متحدہ اور مشترکہ یعنی Consensual Mandate ہو۔ پہلی‘ قوم سے مراد کیا ہے؟ بلڈنگیں‘ رنگ برنگی بیورو کریسی اور رنگ رنگیلے افسران؟ دوسری‘ پاکستان سیکورٹی سٹیٹ ہے یا ویلفیئر سٹیٹ؟ تیسری‘ قومی ترقی کی ڈیفی نیشن کیا ہے؟ اس کے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دستوری میکانزم ہے کہاں؟
تُو نے دیکھا ہے کہاں آنکھ میں اُترا ہوا غم
تُو نہیں جانتا! یہ درد کہانی کیا ہے
تُو نے دیکھا ہے کنارے سے یہ سیلاب‘ تجھے
کیسے سمجھائوں کہ دریاکی روانی کیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved