دنیا کی تاریخ میں بہت سے عجیب واقعات ہیں لیکن میں پندرہ سو سال پہلے کے بہت سے واقعات کو آج بھی سوچتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ ہے عزیمت‘ استقامت‘ جرأت‘ بہادری اور صبرکا۔ لیکن وہ سب بھی ایک طرف! صرف ایک واقعے پر غور کیا جائے تو وہی تن تنہا بے مثال ہے۔ طاقت کے سامنے سر جھکانے والی دنیا میں ایک شخص تنِ تنہا اٹھتا ہے اور نظام کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے۔ نہ وہ دنیاوی طور پر پڑھا لکھا ہے‘ نہ اس کے پاس مال ودولت ہے‘ نہ اس کے پاس اقتدار ہے‘ نہ اس کے پاس جانثاروں کی فوج ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح اپنی بات منوانے کی طاقت ہے لیکن ان سب کو دیکھتے‘ جانتے ہوئے بھی وہ علی الاعلان نظام سے بغاوت کرتا ہے اور اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔
ذرا آج کی دنیا میں تصور کیجیے کہ کسی ملک کا شہری جو وہیں پیدا ہوا ہو‘ وہیں اس کا خاندان آباد ہو‘ وہیں اس کے بیوی بچے ہوں اور وہیں اس کا روزگار ہو‘ ایسا شخص اپنے ملک کے مسلمہ عقائد‘ مسلمہ رسوم ورواج سے بغاوت کر دے۔ وہ علی الاعلان کہہ دے کہ میں نہ ان مسلمات کو مانتا ہوں‘ نہ اس نظام کو۔ نہ صرف اعلان کر دے بلکہ اس پر مضبوطی سے جم جائے۔ کوئی دھمکی‘ کوئی دبائو‘ کوئی نصیحت‘ کوئی لالچ اسے اس راستے سے نہ ہلا سکے۔ تصور کیجیے کیا ہوگا اس کے ساتھ! اس نے نہ صرف خود کو شدید خطرے میں ڈال دیا بلکہ اپنے بیوی بچوں‘ خاندان‘ احباب اور کاروبار‘ سب کا مستقبل دائو پر لگا دیا۔ اس دور کو بھی چھوڑیں‘ آج کے دور میں بھی ایسے شخص کی جان جا سکتی ہے‘ گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جا سکتا ہے‘ سفر سے روکا جا سکتا ہے‘ پاسپورٹ منسوخ کیا جا سکتا ہے‘ شہریت منسوخ کی جا سکتی ہے‘ مال اور جائیداد کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کے یہ سہارے چھن جائیں تو وہ گویا بے حیثیت ہوکر رہ گیا۔ پوری دنیا میں نہ اس کی کوئی شناخت رہی نہ اسے تحفظ دینے والا‘ کیونکہ اس کے ملک نے اس کے تحفظ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آج کی قدرے مہذب دنیا کی یہ مثال بھی 1500 سال پہلے کے اُس واقعے کو ٹھیک سے سمجھا نہیں سکتی جب ایک شخص نے اپنی شناخت‘ اپنے قبیلے‘ اپنے حصار اور اپنے قلعے کے خلاف علی الاعلان صفا پہاڑ پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ تمہارے عقائد اور رسوم ورواج غلط ہیں‘ میں جو راستہ بتا رہا ہوں وہی فلاح کا اور نجات کا راستہ ہے‘ تمہارا راستہ آگ کا راستہ ہے۔
آپ اور میں آج کے حالات میں اس اعلان کے مضمرات کو ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس کے دوررس نتائج کو سوچ ہی نہیں سکتے کہ اس بغاوت کی زد کہاں کہاں پڑتی تھی۔
ذرا قبیلوں میں بٹے ہوئے صحرائے عرب پر ایک نظر ڈالیں۔ کہیں کوئی مرکزیت‘ کوئی ایک حکومت نظر نہیں آئے گی۔ قبیلوں میں منقسم عرب ایک مرکز اور ایک جھنڈے تلے جمع ہونا جانتے ہی نہ تھے۔ قبیلہ در قبیلہ علاقے بٹے ہوئے تھے‘ چراگاہیں تقسیم تھیں اورکنویں اور تالاب متعین تھے۔ کسی اجنبی کو غلام بنا لیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ روز کا معمول تھا۔ کوئی خوف تھا تو بس یہ کہ اس آدمی کا قبیلہ جواب میں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہر شخص کے لیے اس کا قبیلہ ہی اس کا ملک تھا‘ اسی میں عربوں کی زندگی شروع اور ختم ہوتی تھی۔ یہی ان کی سلطنت‘ یہی ان کا شہر اور یہی ان کا قلعہ۔ وہ اس قلعے سے نکلتے تو غیر محفوظ ہونے لگتے تھے۔ باہر کی دنیا میں تمام صحرائی بستیوں اور علاقوں میں قبیلے ہی پھیلے ہوئے تھے۔ کچھ دوست تھے اور کچھ دشمن۔ یہ سوچنا پڑتا تھا کہ کوئی اپنے قبیلے سے باہر جا رہا ہے تو کیا واپس آ سکے گا؟ آج کی دنیا میں کوئی ملک اپنے شہری کو جو تحفظ‘ شناخت‘ اور کاروباری نیز نجی آزادی فراہم کرتا ہے وہ اس زمانے میں قبیلہ دیا کرتا تھا۔ اپنے کسی علاقے میں دشمن کی کارروائی یا اپنے قبیلے کے کسی شخص کو دشمن سے نقصان پہنچ جانے کی شکل میں قبیلہ ہی تھا جو انتقامی اور جوابی کارروائی کرتا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج دنیا کے ملک جواب دیا کرتے ہیں‘ کبھی مذاکرات اورکبھی جنگی کارروائی کے ذریعے۔ اس لیے قبیلے کی حمایت سے ہی زندہ رہا جا سکتا تھا۔
اب اس دبائو کا اندازہ کریں جو رسول اللہﷺ اور ان کے مشفق ومہربان چچا پر آپ کی بعثت کے بعد آیا تھا۔ خاندان بھی ساتھ نہیں تھا‘ اس کے اندر بھی مخالف موجود تھے۔ قریش نامی قبیلے کے مالک اور فیصلہ ساز جب ایک بات طے کرکے ان کے پاس آئے اور کہا کہ یا تو اپنے بھتیجے کی حمایت چھوڑ دو یا قبیلے کی مخالفت کے لیے تیار ہو جائو تو یہ ناقابلِ برداشت مخالفت تھی۔ مشفق ومہربان چچا نے نبی اکرمﷺ سے جو کہا‘ اس سے اس دبائو کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ''بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ اب مجھ پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو اور اس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے‘‘۔
قبیلے کا اپنے کسی فرد سے لاتعلق ہو جانا‘ قبیلہ بدر کر دینا یا اس کی جا ن کے درپے ہو جانا‘ کم از کم میرے علم میں قریش میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ پھر یہ بات وہ چچا کہہ رہے تھے جن کے بے شمار احسانات تھے۔ وہ ضعیف العمر چچا جو معاشی تنگی کا بھی شکار تھے۔ کون سا جواب چاہیے تھا اس وقت! مصلحت کا جواب؟ وہ جواب جس سے وقتی طور پر یہ صحرائی طوفان تھم جائے۔ ابوجہل‘ امیہ بن خلف‘ ولید بن مغیرہ‘ عتبہ بن ربیعہ۔ ان میں ہر شخص ایک قبیلہ تھا۔ سردارانِ قریش سے ٹکر لینا کوئی آسان تھا کیا؟ مسلمانوں کی گنی چنی تعداد پر انحصار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان میں بھی کچھ لوگ ہجرت کرکے حبشہ جا چکے تھے۔ جو موجود تھے‘ وہ ہر روز اپنے خون کا ذائقہ چکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اتنا مارا جاتا کہ ان کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہو جاتے‘ کپڑے میں ڈال کر گھر لایا جاتا اور لگتا کہ آج بچیں گے نہیں۔ حضرت عثمانؓ کو کھجور کی چٹائیوں میں لپیٹ کر دھونی دی جا رہی تھی۔ یہ تو آزاد افراد کا حال تھا‘ غلاموں کی زندگی غلامی اور اذیت کی دہری تکلیف سے عبارت تھی۔ تپتی چٹانوں پر لٹایا جاتا تھا‘ گلے میں رسی ڈال کر دہکتی راہوں میں چلایا جاتا تھا۔ جانیں لی جا رہی تھیں۔ یہ تو بعد میں ہوا کہ حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں کو وہ تقویت مل سکی کہ مسجد الحرام میں نماز ادا کر سکیں۔
انسان کیسا بھی اولو العزم ہو‘ آسائشوں سے کتنی بھی بے رغبتی ہو‘ رشتے داروں‘ بیوی‘ بچوں‘ اپنے گنے چنے پیرو کاروں کی فکر سے باہر نہیں جا سکتا۔ تاریخ ابوطالب کے بھتیجے‘ پیغمبر آخر الزماں محمد ابن عبد اللہﷺ کا کوئی بھی جواب محفوظ کر سکتی تھی‘ لیکن اس نے جو کلمات محفوظ کیے وہ آج بھی پڑھ لیں تو آنکھیں چھلک اٹھتی ہیں۔ فرمایا ''چچا جان! اللہ کی قسم‘ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں‘ تو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے غالب کرد ے اور یا میں اسی راہ میں فنا ہو جائوں‘‘۔
پھر آپﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ آپﷺ اُٹھ کھڑے ہوئے‘ واپس ہونے لگے تو چچا نے پکارا۔ سامنے تشریف لائے تو کہا: بھتیجے! جائو جو چاہے کہو! خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر ابو طالب نے یہ اشعار کہے:
''اللہ کی قسم! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز‘ ہرگز نہیں پہنچ سکتے‘ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کر دیا جائوں۔ تم اپنی بات کھلم کھلا کہو۔ تم پر کوئی قدغن نہیں۔ تم خوش ہو جائو اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں‘‘۔
عزیمت اور استقامت کے یہ الفاظ تاریخ میں آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ ''چچا جان! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں‘ تو بھی نہیں چھوڑوں گا۔یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے غالب کر دے اور یا میں اسی راہ میں فنا ہو جائوں‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved