تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     09-09-2025

قانون کی حکمرانی اور ڈنمارک کے سائیکل سوار جج!

کھاریاں کے رہنے والے رحمت خان کا ہونہار اور خوش بخت بیٹا‘ ڈنمارک عدلیہ کی 364 سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ جج کے منصبِ بلند تک پہنچنے والا پہلا مسلم اور پاکستانی‘ مسٹر جسٹس محمد احسن بڑے انہماک سے سرکاری انداز واسلوب میں بریفنگ دے رہا تھا اور میں پہلی ملاقات کی شرماہٹ کے باوجود پیہم کرید بھرے سوالات کیے جا رہا تھا۔
دو تین بار انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ میرے سوال کا مختصر سا جواب دیا اور آگے بڑھ گئے۔ بریفنگ سمیٹے ہوئے انہوں نے بیگ سے ایک کتاب نکالی۔ اُس کے پہلے صفحے پر کچھ ریمارکس رقم کیے اور مجھے پیش کرتے ہوئے بولے ''اس میں آپ کو اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے‘‘۔ میں نے خوشی اور احترام سے ''دی سپریم کورٹ آف ڈنمارک‘‘ نامی کتاب وصول کی۔ عدالتی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولے ''میں نے تو آپ کیلئے چائے کا اہتمام بھی کر رکھا ہے لیکن آپ جلدی میں ہیں‘‘۔ میں نے طویل راہداری پر نظر ڈالی جس کے ایک گوشے میں رکھی میز پر کچھ برتن دھرے تھے لیکن چائے کون بنائے گا؟ برتن کون لگائے گا؟ ہمارے دامن پر کلف لگے سفید نیپکن کون سجائے گا؟ طرہ دار پگڑیوں والے کہاں ہیں؟ جسٹس احسن نے شاید میری کشمکش کو بھانپ لیا‘ بولے ''میں بہت اچھی چائے اور کافی بناتا ہوں۔ وہ جو مشین دھری ہے‘ ہم جج اسی کو استعمال کرتے ہیں۔ جب بھی طلب ہوتی ہے‘ اُٹھ کر جاتے اور اپنے لیے چائے یا کافی بنا لیتے ہیں‘‘۔ جج صاحب کی اس بات سے میرے دل میں ستائش نے تو انگڑائی نہ لی البتہ اُسی خلش نے جنم لیا کہ ''بھلا ایسے ہوتے ہیں جج؟‘‘
گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے ''دی سپریم کورٹ آف ڈنمارک‘‘ کھولی۔ پہلے صفحے پر نظر ڈالی۔ انگریزی میں لکھے ریمارکس کا سلِیس اور بامحاورہ ترجمہ کچھ یوں تھا ''ڈیئر سینیٹر عرفان صدیقی! سپریم کورٹ میں آپ کو خوش آمدید کہنا میرے لیے بے پایاں خوشی اور اعزاز کی بات تھی۔ آپ کا دورہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ آپ نے جو فکر انگیز سوالات اٹھائے‘ وہ میرے لیے بھی دلچسپی اور آگاہی کا سبب تھے۔ امید ہے آج کی بریفنگ آپ کیلئے ایک اچھا تجربہ ہو گی جس سے آپ کو ڈنمارک کی سپریم کورٹ کے اندازِ کار سے آگاہی کا قیمتی موقع ملا ہے۔ یہ کتاب بھی اس ضمن میں آپ کیلئے اہم رہے گی۔ آداب فائقہ کے ساتھ۔ محمد احسن‘‘
یہ کتاب میرے لیے واقعی معلومات کا بیش بہا خزانہ ثابت ہوئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ 1661ء میں قائم ہونے والی ''شاہی عدالت‘‘ (Kings Court) کن تجربوں سے گزرتی ہوئی آج کہاں کھڑی ہے۔ معلوم ہوا کہ 90 فیصد سے زیادہ مقدمات 24 ابتدائی عدالتوں یعنی 'ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کی سطح پر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ دس فیصد کے لگ بھگ اپیل کی شکل میں ہائیکورٹس تک جاتے اور فیصل ہو جاتے ہیں۔ نہایت ہی کم تعداد میں یہ فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج ہو پاتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسی کوئی اپیل براہِ راست سپریم کورٹ تک نہیں جا سکتی۔ اس اپیل کو پہلے ایک پانچ رکنی بورڈ تک جانا ہوتا ہے جسے ''اپیل اجازت بورڈ‘‘ (Appeal Permission Board) کہا جاتا ہے۔ یہ بورڈ باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے کہ کیا کوئی اہم آئینی وقانونی نکتہ یا مقدمے سے متعلق ضروری پہلو مزید تشریح طلب ہے؟ اگر ہے تو اسے اپیل کے لائق قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر نہیں تو معاملہ یہیں پر ختم ہو جاتا ہے۔ بورڈ کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی۔ ڈینش آئین میں کوئی 184/3 بھی نہیں۔ عدالت کسی بھی معاملے کا ازخود (سویو موٹو) نوٹس نہیں لے سکتی۔ اور کوئی فرد براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع بھی نہیں کر سکتا۔
اپیل کی اجازت مل جانے کے بعد جب متاثرہ فریق سپریم کورٹ سے رجوع کرتا ہے تو فوجداری (کریمنل) کیس کی صورت میں یہ اپیل زیادہ سے زیادہ 150 اور سول مقدمات کی صورت میں 350 دنوں کے اندر اندر لگ جاتی ہے۔ سماعت کی تاریخ طے ہو جانے کے بعد‘ فریقین کے وکلا کو کہا جاتا ہے وہ مقررہ تاریخ سے کم ازکم دو ہفتے قبل‘ مقدمے کے حقائق اور آئینی و قانونی دلائل کا جامع خلاصہ‘ دس سے پندرہ صفحات پر مشتمل محضر نامے (بریف) کی شکل میں داخل کرا دیں۔ یہ 'محضر نامہ‘ اپیل سننے والے بینچ کے تمام ججوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جو چودہ دن اس کا گہری نگاہ سے مطالعہ کرتے اور کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ تاریخ سماعت پر دونوں وکلا حاضر ہوتے اور اپنے زبانی دلائل پیش کرتے ہیں۔ ہر وکیل کو لگ بھگ اڑھائی گھنٹے ملتے ہیں۔ مختصر وقفے کے بعد دونوں وکلا کو ایک دوسرے کے دلائل کی نفی کیلئے مختصر وقت دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وکیل اپنی حاضری یقینی بنانے کو پیشہ ورانہ تقاضا سمجھتا ہے۔ سماعت ختم ہوتے ہی وکلا سمیت کمرے میں موجود تمام افراد باہر چلے جاتے ہیں۔ صرف معزز جج اور نوٹس لینے والا ایک لاء کلرک کمرے میں رہ جاتے ہیں۔ کمرے کو صدیوں پرانی روایت کے مطابق باہر سے تالا لگا دیا جاتا ہے۔ مقید جج‘ اپنی عبائیں پہنے‘ اپنی اپنی مسندوں پر براجمان رہتے ہیں۔ کمرے پر اعصاب شکن سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ تب سب سے بائیں طرف والی کرسی پر بیٹھا سب سے جونیئر جج کھڑا ہو جاتا ہے‘ وکلا کے بریف اور دلائل کی روشنی میں اپنا مؤقف اور واضح رائے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا سب سے جونیئر‘ پھر تیسرا اور پھر چوتھا۔ آخر میں سب سے سینئر جج‘ اور بینچ کا سربراہ اپنا مؤقف دیتا ہے۔ اس مشق کے ساتھ ہی مُقَفَّل دروازہ کھل جاتا ہے اور جج صاحبان اپنی عبائیں اُتار کر ملحقہ کمرے میں بیٹھ جاتے اور فیصلہ مرتب کر لیتے ہیں۔ اپیل کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ سات دنوں کے اندر اندر سنا دیا جاتا ہے۔ نظرثانی کی کوئی درخواست دائر نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ‘ مقننہ کے معاملات میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتی۔ تین صدیوں میں اس نے صرف ایک قانون کو 'آئینی حقوق‘ سے متصادم سمجھ کر کالعدم قرار دیا جس کا تعلق ایک این جی او کے تعلیمی اداروں کو سرکاری مالی امداد سے محروم کر دینا تھا۔
کوپن ہیگن میں سہ روزہ قیام کے دوران‘ متعدد پاکستانیوں سمیت‘ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق مقامی شخصیات سے ملاقاتوں کے دوران میں کئی اور ''افسوسناک‘‘ حقائق بھی سامنے آئے۔ مثلاً یہ کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کو گاڑی نہیں ملتی۔ چیف جسٹس سمیت پانچ دوسرے جج صاحبان سائیکلوں پر عدالت آتے ہیں۔ بعض کو گھر کا کوئی فرد گھریلو گاڑی پر چھوڑنے اور لینے آ جاتا ہے۔ میں نے اپنے جسٹس محمد احسن کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا کہ وہ اکثر بس یا انڈرگراؤنڈ ٹرین کے ذریعے آتے جاتے ہیں۔ کسی جج کے پاس کوئی نوکر چاکر نہیں۔ مقامی کرنسی میں سپریم کورٹ جج کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کرونَر ہے جو پچاس فیصد ٹیکس کٹوتی کے بعد نصف رہ جاتی ہے۔
حیرت ہے کہ خود چائے بنانے‘ خودا پنا بیگ اٹھانے اور خود اپنی میز کی جھاڑ پونچھ کرنے والے سائیکل سوار ججوں والی سپریم کورٹ کے باوجود‘ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (WJP) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ڈنمارک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ تمام تر کرّوفر‘ شان وشکوہ اور جاہ وجلال رکھنے والے 'خطوط نویس‘ جج صاحبان کی کرشمہ کاری یہ ہے کہ دنیا کے 142 ممالک میں سے پاکستان 129ویں نمبر پر ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved