کسی بھی سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر سیاست اور جمہوریت سمیت معاشرے کا نظام چلتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر نظام کی تبدیلی یا نظام کی اصلاح کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے اور اپنے نظریات کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے قریب کرتی ہیں اور انہیں ترغیب دیتی ہیں کہ وہ ان کا ساتھ دیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں نہ تو مضبوط ہیں اور نہ ہی وہ خود کو جمہوری سیاسی جماعتوں کے طور پر مستحکم کر سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں‘ بالخصوص حکمران سیاسی جماعتیں عوامی ترجیحات کے مقابلے میں اپنی ذاتی ترجیحات اور مفادات کے تحت کام کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے آج پاکستانی سیاست میں سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن کی سیاست کر رہی ہوں دونوں طرف ہمیں بہت سی کمزوریوں کے پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو زیادہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن اس کے باوجود جب بھی سیاسی جماعتوں کو اقتدار کا موقع ملا تو انہوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے بجائے عوام کو اپنی حکمرانی کے نظام سے مایوس کیا۔ ایسے لگتا ہے جیسے سیاسی جماعتوں کے پاس عوامی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں اور نہ ہی انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں کیسے ترقی کی طرف بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا جائے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کیسے ان جماعتوں کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ وہ جمہوری سیاست کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کو بھی اپنی سیاست میں تقویت دیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی اندرونی سیاست کے پہلو بھی کمزور ہیں اورخاندانی سیاست کا غلبہ بہت بڑھ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس بات پر تو بہت بحث ہوتی ہے کہ ہمیں جمہوری عمل میں کام نہیں کرنے دیا جاتا لیکن یہی جماعتیں اس سوال پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں کہ انکے اندرونی مسائل کیا ہیں اور کیوں وہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے تیار نہیں۔
یہ سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کے نظام کا نتیجہ ہے کہ لوگ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کی بات کر رہے ہیں اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی پر زور دیا جا رہا ہے‘ کیونکہ صوبائی حکومتیں چاہے وہ کسی بھی صوبے کی ہوں‘ اپنے اپنے صوبوں میں لوگوں کے مسائل حل نہیں کریں گی اور نہ ہی مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنائیں گی تو لوگوں کے مقامی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اس وقت لوگ اپنے بنیادی نوعیت کے مسائل میں کافی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ہماری حکومتیں لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ملک میں تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ معاشی طور پر لوگ کافی پریشان ہیں اور ان کو لگتا ہے اس نظام میں ان کے بنیادی مسائل یا معاشی مسائل کا کوئی حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران طبقات اس بات پر غور کریں کہ موجودہ نظام کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے۔ جمہوری نظام میں نظام کی اصلاح کے لیے حکمران سیاسی جماعتیں اصلاحات کی طرف توجہ دیتی ہیں۔ لیکن اول تو ہم اصلاحات کرتے نہیں ہیں اور اگر کرتے بھی ہیں تو اس میں عوامی مفادات کو نظر انداز کر کے ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے جو لوگوں میں حکومت کے خلاف بددلی پیدا کرتا ہے۔
جب تک ہم اپنے سیاسی اور حکومتی نظام میں سیاسی انتظامی اور مالی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم کو منصفانہ نہیں بنائیں گے اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں کریں گے اس وقت تک یہ نظام لوگوں میں اپنی افادیت قائم نہیں کر سکے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں میں قابل لوگوں کی کمی ہے‘ ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نظام کی تبدیلی میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی اپنی جماعتوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کو سامنے لائے اور ان کے تجربے اور صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر مضبوط بنیادوں پر سوچنے اور سمجھنے والے تھنک ٹینک ہونے چاہئیں جو مختلف پالیسیوں پر کام کر کے حکومت کو تجاویز دیں کہ کیسے نظام کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہماری حکمران سیاسی جماعتوں کا مسئلہ محض اقتدار کے حصول کی سیاست رہ گئی ہے اور نظام کی تبدیلی کا مقصد ان کے ایجنڈے سے بہت دور چلا گیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی اور جمہوری نظام مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بھی ہے جو حالات کی تبدیلی کے باوجود خود کو اور اپنی جماعتوں کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب بھی سیاسی جماعتوں میں کچھ لوگ اپنی جماعت کی پالیسیوں یا قیادت پر تنقید کرتے ہیں تو ان کی پذیرائی نہیں کی جاتی بلکہ ان کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے اس رویے کو تبدیل کرنا چاہیے اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو نہ صرف برداشت کرنا چاہیے بلکہ ایسے لوگوں کی پذیرائی کرنی چاہیے جو سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ آج کی دنیا میں گورننس کے نظام کی بہتری کے لیے سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو عوام میں منظم کریں اور عوامی مفادات کے ساتھ خود کو چلانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں‘ جو اقتدار میں آتی ہیں وہ عوام کو بھول کر سارے اختیارات خود تک محدود کر لیتی ہیں یا بیورو کریسی کے رحم وکرم پر خود کو چھوڑ دیتی ہیں تو اس سے عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو اب یہ بات سمجھنا ہو گی کہ حالات بدل گئے ہیں اور لوگ اپنے مسائل پر خاموش رہنے کے بجائے احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا نے لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور بیدار کر دیا ہے اور لوگ اس نظام سے ناراض نظر آتے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو اور حکومتوں کو عوام کی آواز کو سننا چاہیے اور دیکھ سمجھنا چاہیے کہ عوام کے مسائل کیا ہیں اور ان کو حل کیسے کیا جا سکتا ہے۔
پرانی سوچ کے ساتھ اب سیاسی جماعتیں اور سیاسی نظام کو نہیں چلایا جا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نظام بھی تبدیل ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ اس لیے اگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ وہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کریں اور لوگ ان پر بھروسہ کریں تو ان کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے۔ عوام پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا کردار بہت کمزور ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں وہ کچھ نہیں کر پاتیں جو عوام چاہتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے خود کو تبدیل نہ کیا اور اپنی ترجیحات کو تبدیل نہ کیا تو لوگوں کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں اور دلچسپی مزید کم ہو جائے گی‘ جو یقینی طور پر جمہوریت اور سیاست کے حق میں نہیں ہوگی۔ اس لیے گیند اب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی کورٹ میں ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو تبدیل کرتی ہیں یا پرانی طرز کی سیاست کے ساتھ ہی خود کو چلانے کی کوشش کریں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک کے سیاسی نظام اور جمہوری نظام کی بدقسمتی ہو گی۔ یہ عمل سیاستدانوں کو اور سیاسی جماعتوں کو عوام میں غیر اہم کر دے گا‘ لوگ سمجھیں گے کہ ہمیں اب سیاسی جماعتوں پر اعتبار کرنے کے بجائے کسی متبادل نظام کی طرف دیکھنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved