مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب عمرو بن جموح نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر بار بار شیطان ایک عورت کی صورت میں ان کے سامنے آجاتا اور کہتا کہ یہ لوگ تجھے لات ومنات سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں‘ میں تم کو بتاتی ہوں کہ لات ومنات کی بڑی شان ہے‘ اگر تم ان کو چھوڑ دو گے تو بہت نقصان اٹھائو گے۔ اس موقع پر عمرو بن جموح کی اہلیہ حضرت ہندؓ بنت ملحان اپنی فراست اور ایمانی بصیرت سے صورتحال کو سمجھ گئیں اور انہوں نے شیطان کو‘ جو عورت کی شکل میں کھڑا تھا‘ جوتے مار مار کر وہاں سے بھگا دیا۔ شیطان کے حربے بڑے خطرناک ہوتے ہیں مگر اللہ والے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ان سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ یوں عمرو بن جموح نے کلمہ پڑھا اور دائرہِ اسلام میں داخل ہو گئے۔ ان کے قبولِ اسلام پر قبیلہ بنو خزرج کے ہر مسلمان گھر میں‘ محاورے کے مطابق گویا گھی کے چراغ جلائے گئے۔
حضرت عمروؓ بن جموح بچپن ہی سے بہت زبردست شاعر تھے۔ لوگوں کی مجالس میں فی البدیہہ شعر کہنا شروع کرتے تو درجنوں اشعار پر مشتمل طویل اور خوبصورت غزلیں سنا دیتے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی جاہلی شاعری میں خاندانی تفاخر کے ساتھ بت پرستی اور اپنی ذاتی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد نہ صرف باقی زندگی بلکہ شعر وشاعری کا رنگ بھی بالکل بدل گیا۔ اب آپ وہ شاعر تھے جن کی زبان سے ہمہ دم اللہ کی توحید‘ رسول اللہﷺ کی توقیر وتوصیف اور جنت کی طلب سے معطر شاعری سنائی دیتی تھی۔ تاریخ وسیرت کی کتابوں میں آپ کے دونوں ادوار کی شاعری کے نمونے درج ہیں۔ بابائے سیرت علامہ ابن اسحاق سے لے کر ابن ہشام‘ ابن سعد‘ ابن اثیر‘ ابن حجر‘ محمد بن سعد‘ امام ابن کثیر اور طبری تک سبھی مؤرخین کی کتب میں آپ کی کئی طویل نظمیں محفوظ ہیں۔ علامہ ابن اسحاقؒ کا بیان ہے کہ حضرت عمروؓ بن جموح ایک خوش گو شاعر تھے۔ انہوں نے قبولِ اسلام کے وقت فوری اور فی البدیہہ اپنے بت کی ہجو میں یہ شعر کہے:
اللہ کی قسم اگر تُو واقعی الٰہ ہوتا تو کبھی ایک مردہ کتے کے ساتھ بندھا ہوا کنویں میں نہ پڑا ہوتا۔ افسوس ہے تیری الوہیت پر کہ کیسی بری جگہ پر تو بے بس پڑا ہوا تھا۔ خبردار! اب ہم تجھے ہمیشہ کے لیے ترک کرتے ہیں۔
اللہ کا انتہائی شکر ہے جو بہت بلند شان والا ہے۔ ہر طرح کے احسانات سے بندوں کو نوازتا ہے۔ وہی سب کچھ دینے والا اور رازق ہے اور اسی نے سچے دین کی رہنمائی دی ہے۔ اسی نے اپنے فضل وکرم سے مجھے گمراہی سے ہدایت کی طرف رہنمائی دی اور جہالت سے نکال کر (تباہی سے) بچا لیا ہے قبل اس کے کہ میں مر کر قبر میں گل سڑ جاتا۔
یہ سب اشعار ایک طویل غزل کا حصہ ہیں جس میں حضرت عمروؓ نے شرک وکفر سے مکمل برأت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ رب العالمین کی نعمتوں پر بہت بلیغ انداز میں اظہارِ تشکر کیا ہے۔
علامہ ابن اسحاقؒ نے مزید لکھا کہ حضرت عمروؓ بن جموح نے ہدایت پانے پر ان اشعار میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا:
میں اللہ کی طرف تائب ہو کر ان گناہوں اور کوتاہیوں سے رجوع کرتا ہوں جو مجھ سے ماضی میں ہو گئیں۔ (شکر ہے کہ) اللہ نے مجھے آگ سے بچا لیا۔ میں اس کے دربار میں حاضر ہو گیا ہوں جو اللہ اپنی نعمتوں کے ساتھ (مجھ پر مہربان ہوا ہے)‘ وہ اللہ جو حرم شریف کا اور تمام روئے زمین کا الٰہ حقیقی ہے۔ اس (الٰہ حقیقی )کی حمد وتسبیح تمام بولنے والوں کی تعداد کے برابر‘ اس کی حمد وتسبیح اتنی تعداد میں جتنے قطرے بادل آسمان سے موسلادھار بارش کی صورت میں گراتا ہے اور جہاں جہاں وہ گرتے ہیں (سب کی تعداد کے برابر اس کی حمد)۔ اس نے مجھے ہدایت دی حالانکہ میں اندھیرے اور گمراہی میں تھا۔ میں مٹی اور پتھر کے بتوں کی محبت میں گرفتار تھا۔ قریب تھا کہ میں اسی گمراہی کے اندھیروں میں ہلاک ہو جاتا۔ اللہ رب العالمین نے اپنی حقیقی قدرت و رحمت سے مجھے اس سے بچا لیا۔ پس جب تک میری جان میں جان ہے اور میرا سانس چل رہا ہے‘ میں اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتا رہوں گا۔ وہ تمام انسانوں اورساری مخلوق کا (سچا) الٰہ ہے۔
یہ کس قدر ایمان افروز واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جوہرِ قابل کو بت پرستی کے تاریک جنگل اور شیطان کے خطرناک چنگل سے نکال کر توحیدکے ایمان افروز گلستان اور مکتبِ قرآن کا مکین بنا دیا۔ آپؓ نے عمر کے آخری حصے میں اسلام قبول کیا تھا‘ اس لیے قرآن کا زیادہ سے زیادہ حصہ یاد کرنے کی کاوش میں لگ گئے۔ جب آنحضورﷺ مدینہ تشریف لائے تب آپ مسلمان ہو چکے تھے مگر آپؓ کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ میں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ جہالت اور بت پرستی میں گنوا دیا اب مجھے زندگی کے باقی ماندہ ایک ایک لمحے کو مفید انداز میں استعمال کرنا ہے؛ چنانچہ آنحضورﷺ کی مجالس میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور رسول اللہﷺ کی ہر بات کو غور سے سنتے۔ جب کوئی نئی آیاتِ قرآنی نازل ہوتیں تو انہیں فوری یاد کرنے کی کوشش کرتے۔
آنحضورﷺ جب ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو ہر خاندان‘ قبیلے کے مسلمان باری باری خدمت اقدس میں حاضر ہونے لگے۔ کتنے خوش نصیب تھے اہلِ یثرب کہ چشمۂ آبِ حیات پیاسوں کی پیاس بجھانے کے لیے خود ان کے پاس آگیا تھا۔ عمروؓ بن جموح بھی‘ جو کچھ عرصہ قبل مسلمان ہوئے تھے‘ اپنے قبیلے بنو اسد کے ایک وفد کے ساتھ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضورﷺ کے چہرۂ مبارک پر نظر پڑی تو محبت وعقیدت سے نظر وہیں جم گئی۔ آپﷺ نے بھی اپنے سرخ وسفید رنگت والے بزرگ صحابی کو بڑی محبت واپنائیت سے دیکھا اور ان کا حال احوال معلوم کیا۔ یہ آقا اور فداکار کی پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ آپؓ خدمتِ اقدس میں حاضری نہ دیتے ہوں حالانکہ آپ کی ایک ٹانگ میں بچپن سے ہی لنگ تھا۔ جوانی کے دور تک تو آپ کو تیز رفتاری کے ساتھ چلنے میں کوئی دقت نہ ہوئی تھی مگر اب بڑھاپے میں چلنے پھرنے میں خاصی مشکل پیش آتی۔ اس کے باوجود حُبِّ رسول میں کشاں کشاں گھر سے مسجد میں حاضر ہوتے اور اپنا دامن خیر سے بھر کر واپس جاتے۔ کئی مرتبہ آپ کہا کرتے ''یا رسول اللہﷺ جس طرح میں آپ کی مجلس میں لنگڑاتا ہوا آجاتا ہوں‘ امید ہے کہ اسی طرح لنگڑاتا ہوا اللہ کے دربار میں بھی حاضر ہو جائوں گا‘‘۔ حضرت عمروؓ نے جنگ احد میں شرکت کے وقت بھی آنحضورﷺ سے یہی الفاظ کہے تھے۔
سنہ 2ھ میں غزوۂ بدر کا کٹھن معرکہ پیش آیا کہ تو حضرت عمروؓ اپنے بڑھاپے اور ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کر سکے مگر آپ کے بیٹوں نے اس میں حصہ لیا اور دشمن سے بڑی بہادری سے لڑے۔ آپ کے تین بیٹے عمیر‘ معاذ اور معوذ اور ایک پوتے خراش بن صمہ بن عمرو رضی اللہ عنہم اس معرکے میں شریک ہونے والے صحابی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی آپ کے خاندان کے متعدد افراد کو اس عظیم معرکے میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ بنو اسد کے جن بدری صحابہ کے نام تاریخ میں درج کیے گئے ان کی تعداد درجن سے زائد ہے‘ ان میں سے ایک صحابی حضرت عمیرؓ بن حمام بدر کے 14شہداء میں بھی شامل ہیں۔ میری کتاب ''رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘ کی جلد اول کے صفحہ 132 پہ ان کے حالات درج ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved