تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-09-2025

بغض پالنے کا بھی اسلوب ہونا چاہیے

حکومت جیسی بھی ہو‘ کیوں نہ پرلے درجے کے بیوقوف لوگوں پر مشتمل ہو‘ اُسے بندھے بندھائے گماشتے مل ہی جاتے ہیں۔ ایسے فنکار قسم کے لوگ جو اپنی آسمانی ڈیوٹی سمجھتے ہیں کہ حکومتِ وقت کی مدح سرائی میں لگ جائیں اور جو اُس حکومت کے مخالف ہو اُس کے پیچھے لگ جائیں۔ یہ ایک قسم کا قدرتی امر ہے‘ شمع جلتی ہے شمع جیسی بھی ہو پروانے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لیکن گزارش ہے حاشیہ برداری کا بھی کچھ معیار ہونا چاہیے۔ جہاں تعریف نہیں بھی بنتی ضرور کریں لیکن اس انداز سے کہ خود کو مذاق نہ بنائیں۔ ہمارے کئی دوست بے جا تعریفوں کے ایسے پل باندھنے لگتے ہیں کہ ایک تو اُن کی عقل پر رشک آنے لگتا ہے اور ساتھ ہی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ حکومتِ وقت کے مخالفوں کو لتاڑنے پر آئیں تو اس بے ہودگی پر اُتر آتے ہیں کہ ہم جیسے جنہوں نے بہت کچھ دیکھا ہے ہمیں بھی شرم آنے لگتی ہے۔ استدعا صرف اتنی ہے کہ مکھن لگانے میں ہی آپ کی تسکین ہے تو ضرور لگائیں لیکن ہاتھ کچھ تو ہولا رکھا جائے۔
گزرے وقتوں میں ایسی فضول حرکتوں کیلئے ایک دو آزمودہ راستے ہوتے تھے۔ سرکاری اخبار ہوتے تھے‘ یا تو اُن میں بھرتی ہو گئے اور حاکم وقت کے قصیدے لکھنے لگے یا کچھ زیادہ ہی خوش نصیب ہوئے اور سرکاری ٹی وی پر نوکری مل گئی تو سکرین پر آکر حکمرانی کے گُن گانے لگے۔ وہ دور چلا گیا اور اب دور ہے اُس بلا کا جس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ یوٹیوب نے تو یہ سہولت پیدا کی ہے کہ علم و دانش ایک طرف رہا جو بے ہودگی پر آ سکے اور کچھ چرب زبان بھی ہو وہ باقاعدہ پروگرام کرتا ہے اور چونکہ نثر پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کی آسانی اسی میں ہے کہ انٹرنیٹ کی گشت کریں اور بٹن دبائیں تویو ٹیوب پروگراموں کا ایک پورا میلہ سج گیا ہے۔ فون کھولنے کی دیر ہے اور جس قسم کی بے ہودگی آپ چاہیں میسر ہو جاتی ہے۔ اس میں روزی روٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ گزرے زمانوں میں مضمون لکھتے تو کیا ملتا تھا۔ یوٹیوب پر شہرت حاصل ہو جائے تو اچھے خاصے ٹَکے آنے لگتے ہیں۔ لیکن ان ٹَکوں کے مسلسل آنے کی تب ہی صورت بنتی ہے کہ آپ کے بنائے ہوئے پروگرام کو لوگ دیکھیں اور اُس میں دلچسپی لیں۔ یہاں پروفیسر عبدالسلام کے لیکچر تو کسی نے سننے نہیں ‘ مسلسل بکواس اور بے ہودگی سے زیاددہ دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ کا مفاد اسی میں ہو جاتا ہے کہ بکواس آپ کرتے جائیں اور لوگ سنتے رہیں۔
آج کی بات کریں تو پاکستان میں حالات بڑے واضح اور سادہ ہیں۔ ایک طرف فارم سینتالیس کا کرشماتی بندوبست ہے اور دوسری طرف قیدی نمبر فلاں فلاں اور اُس کی معتوب جماعت جو تمام کیے کے باوجود نہ ختم ہو رہی ہے نہ سرکار کی طرف سے اُس پر مہربانیوں کا کوئی اختتام ہو رہا ہے۔ مدح سراہوں کا کام بھی واضح اور سادہ ہے‘ بندوبست اور اُس کے حواریوں کی تعریفوں کے پل باندھو اور قیدی نمبر فلاں فلاں کو صبح شام برا بھلا کہتے رہو۔ اس کے اوپر آپ کی بکواس چل جائے اور ٹَکے آنے لگیں تو سونے پر سہاگا۔ بندوبست راضی اور روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل۔ انسان کو اور کیا چاہیے۔ لیکن یوٹیوب کے مجاہدوں کی حرکتیں دیکھ کر کبھی کبھی دل کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تھوڑا ہاتھ روک کر چلو‘ گرو ضرور لیکن اتنے بھی گھٹیا پن دکھانے کی ضرورت کیا۔اتنی تمیز تو ہونی چاہیے کہ تعریف تو چلیں حاکموں کی بنتی ہے لیکن اتنا تو دیکھیں کہ جو ویسے ہی زیرعتاب ہوں‘ قید و بند برداشت کر رہے ہوں‘ مقدمات اُن پر قائم ہوں اور عدالتیں لگ رہی ہوں کچھ تو خیال آئے کہ جو ویسے ہی زیرعتاب ہوں اُن کو مارنا بہادری کے زمرے میں نہیں آتا۔ نہ بہادری اس سے بنتی ہے کہ آپ جواز ڈھونڈیں کہ ہاں زیادتیاں ہو رہی ہوں گی لیکن آپ نے بھی تو ماضی میں زیادتیاں کی تھیں۔ ہاں آپ تاریخ دان ہوں اور تاریخ لکھ رہے ہوں پھر تو گزرے وقتو ں کا احاطہ ضروری بن جاتا ہے ‘لیکن ایسا نہ ہو اور آپ ٹاؤٹی کے فرائض پر مامور ہوں تو کچھ لحاظ اچھا لگتا ہے۔
نوازشریف کیسے حاکم تھے سب جانتے ہیں لیکن پرویز مشرف کے ہاتھوں زیرعتاب آئے تو ہم میں سے بہت ایسے تھے جو اُنہیں سراہنے لگے حتی کہ مشرف دور میں جمہوریت کی ایک نشانی کے طور پر اُنہیں پیش کرتے رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو حاکم تھے تو اُن سے بہت زیادہ غلطیاںسرزد ہوئیں اور جائز طور پر تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ لیکن جب ضیا الحق کا شب خون ہوا اور بھٹو زندان کے پیچھے گئے اور اُن پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے گئے توتنقید کرنے والے بھی اُن کے مدح سرا‘ حمایتی اور چیمپئن بن گئے۔
ہم سارے ہی کہیں نہ کہیں سے خودغرض ہوتے ہیں اور اپنے فائدے کو دیکھتے ہیں۔ فائدہ دیکھتے ہوئے صحافت اور تجزیہ نگاری کو سرعام نیلام کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن ایسے میں بھی حیا اور بے حیائی میں کچھ فرق تو رکھنا چاہیے۔ ہر ایک کوئی حبیب جالب تو نہیں بن سکتا لیکن اُن کی مثال تو سامنے رکھی جاسکتی ہے۔ جالب نے ایوب خان پر تبرے تب کَسے اور ہزاروں کے مجمعوں کے سامنے اپنی نظمیں تب سنائیں جب ایوب خان اپنی طاقت کے عرو ج پر تھے۔ بھٹو حکمران ہوا تو اُس کے خلاف نظمیں لکھیں لیکن بھٹو اقتدار سے معزول ہوا تو جالب کی شاعری کا رخ بدل گیا۔ بے نظیر بھٹو جب تک اقتدار سے باہر تھیں اُن کے حق میں کیا کچھ نہیں لکھا لیکن جب وہی بے نظیر وزیراعظم بنیں تو ایسا ایسا مذاق اڑایا کہ سامعین جھوم اٹھتے۔ وقت دیکھنا چاہیے کہ کہاں جا رہا ہے ‘ وقت کے ساتھ انسان کا روپ بدل جاتا ہے۔ وہی بھٹو ایوب خان کا وزیر تھا اور اُس آمریت کا طویل عرصے تک حواری رہا۔ بنگلہ دیش والا بحران پیدا ہوا اُس میں بھی بھٹو کا ایک مخصوص کردار تھا۔ لیکن اقتدار سے معزول ہوا اور گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا تو اُس کا روپ کسی اور سانچے میں ڈھل گیا۔ بہت ساری باتوں میں بھٹو کی بھرپور تنقید بنتی ہے لیکن آخری دم تک جھکنے سے انکار کیا تو اس بات پر آج تک یاد کیا جاتا ہے۔
بات آج کی ہونی چاہیے۔ آج کون زندان کے پیچھے ہے؟ماضی کی کوتاہیاں ماضی کا حصہ ہیں۔ یہ جو وقت اور لمحے گزر رہے ہیں اس میں کسی کا کیا کردار ہے۔ زندان کے پیچھے ہے تو کیا گردن جھک رہی ہے؟ گھٹنوں میں کوئی خم آ رہا ہے؟ ہاتھ پھیلائے جا رہے ہیں‘ کوئی آہ وپکار ہو رہی ہے ؟ حالیہ وقتوں میں دیگر لیڈروں کے مناظر بھی ہم نے دیکھے ‘ بیماری اور علاج کا کیا شور اُٹھتا تھا۔ پسندیدہ ڈاکٹر ایسی ایسی رپورٹیں تیار کرتے کہ لگتا تھا ابھی کوئی سانحہ ہونے والا ہے۔ مشرف دور میں عرب سربراہان کی پرزور مداخلت سے اُڑان کے راستے کھلے۔ عمران خان کے دور میں عدالتوں کو ضمانت دی گئی کہ چار ہفتوں میں لندن علاج کرا کر واپسی ہوگی۔ اشٹام پیپر پر آج کے وزیراعظم ضمانتی بنے اور انہی کے دستخط وہاں موجود ہیں۔ ایسی کسی چیز کی تہمت آج کے قیدی پر لگائی جاسکتی ہے؟ لیکن جو آہ و پکار نہیں ہو رہی‘ جو منت ترلے نہیں کیے جا رہے‘ خاص طبلچی اسی پر ناخوش اور پریشان ہیں۔ اگر مخصوص قیدی جھک گیا ہوتا‘ منت ترلے کر رہا ہوتا‘ ایسے طبلچیوں کیلئے کتنا خوشی کا سامان بنتا۔ ایسا جو نہیں ہو رہا تو خاص طبلچیوں کے غصے کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved