دارالعلوم تعلیم القرآن اور مدینہ مارکیٹ راولپنڈی کو دس محرم کی سہ پہرانسانی لہو اور شعلوںسے غسل دیا گیا۔کیسا دن ہے جس کے مقدر میں بے گناہوں کا لہو لکھ دیا گیا! تعلیم القرآن محض مدرسہ نہیں ایک روایت ہے۔یہ شیخ القرآن مو لا نا غلام اللہ خان کی یادگار ہے۔توحید کے باب میں مو لا ناکے موقف میں شدت تھی۔یہ شدت اگر تو حید کے ایجابی بیان تک محدود رہتی تو محمود ہو تی لیکن کبھی کبھی اس کا سلبی پہلو غالب آ جا تا جس سے مسلکی اختلاف کا رنگ گہرا ہو جا تا اور فضا مکدر ہو جا تی۔تاہم یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مذہب کے نام پر انسانوں کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔مسلکی تعصب یا اختلاف کو انسانی لہو سے سینچنے کا ابھی رواج نہیں ہوا تھا۔لوگ اختلاف کے باوصف دوسروں کو جینے کا حق دیتے تھے۔مذہبی انتہا پسندی کا آ خری اظہارفتویٰ تھا،وہ بھی اکثر تکفیر سے کم تر۔بایں ہمہ دوسروں کو اپنے ہاں گوارا کیا جا تا تھا۔ تعلیم القرآن کا سالانہ جلسہ شہر کی تہذیبی روایت کا ایک حصہ تھا۔یہ تین دن جا ری رہتا اور اس میںملک کے معروف خطیب جمع ہوتے۔ سامعین دور دور سے آتے اوراہلِ ذوق سال بھر اس کا انتظار کرتے۔ شورش کاشمیری مرحوم ایک دن کے آخری خطیب ہوتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ شورش اپنے ہم عصر دیوبندی علما کے کیسے ناقد تھے۔مشہور اہلِ حدیث عالم مو لانا ابو بکر غزنوی بھی ہر سال اس جلسے میں شریک ہوتے۔ اہلِ دیو بند کا تو خیر یہ اپنا گھر تھا۔ مو لا نا غلام اللہ خان کی رائے میں اگرچہ شدت تھی لیکن معلوم ہوتا ہے وہ دیانت داری سے ایک موقف رکھتے تھے۔اِس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے بعض بنیادی مسائل میں علمائے دیوبند کے اجماعی موقف کے برخلاف رائے اختیار کی اور اس پر ڈٹ گئے۔ خود اپنے مسلک کے سوادِ اعظم کے ساتھ ان کا اختلاف اتنا گہرا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند سے مو لانا قاری طیب قاسمی کو پاکستان آنا پڑا تاکہ وہ ثالث کا کردار ادا کر سکیں۔وہ ایک جلیل القدر عالم مو لانا حسین علی کے شاگرد تھے۔دیوبندی علما میں بہت کم ہوں گے جو قرآن مجید میں تدبر کے باب میں ان کے ہم سر ہوں گے۔یہی وجہ تھی کہ توحید کے معاملے میں مو لا نا غلام اللہ خان ،اپنے مسلک سمیت ،کسی کوکوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔شاید اپنی اس علمی دیانت کی وجہ سے انہیں دوسرے مسالک کے ہاں بھی محترم سمجھا جاتا تھا۔دوسرے مسالک کے لوگ ان کے جلسے میں آ جاتے تھے۔ یہ روایت اُن کے بعد بھی جاری رہی ۔میں نے خودتعلیم القرآن میںمعروف شیعہ عالم علامہ ع غ کراروی کی تقریرسنی ہے۔ میں نے عرض کیاکہ یہ وہ دور تھا جب مذہبی اختلاف کو انسانی لہو سے سیراب کر نے کا چلن نہیں تھا۔شدت پسند طبیعتوں کو بھی شاید یہ گوارا نہیں تھا کہ دین کے نام پر کسی کی جان لی جائے۔علماء اپنے فہمِ دین کے ابلاغ کو ’دعوت‘ سمجھتے تھے، ’قتال‘ نہیں۔لوگ اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کرتے تھے تو اسے بزوردوسروں پر نافذ نہیں کرتے تھے۔مولانا غلام اللہ خان نے اپنی تمام تر شدت پسندی کے باوجود کبھی سوچا نہ ہو گا کہ وہ دوسرے مسلک کے بچوں کو ذبح کرنے کا درس دیں گے یاان کے مدرسے کے بچوں کو ذبح کیا جائے گا۔سچ یہ ہے کہ ہمارے سماج کے لیے 1979ء سے پہلے تک یہ سب کچھ اجنبی تھا۔پھر ایسی آندھی چلی کہ ہر روایت کو اڑا لے گئی۔مذہب اب تشدد کا دوسرا نام ہے۔سب سے زیادہ شعلہ بیان اہلِ مذہب ہیں۔ محبت، رواداری، برداشت، اختلافِ رائے، معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی نصاب اورلغت سے یہ الفاظ کھرچ ڈالے گئے ہیں۔تبلیغی جماعت جیسی جماعتوں سے اہلِ مذہب کا بھرم قائم ہے جن کے متعلقین سے مل کر یا ان سے اختلاف کرکے خوف نہیں آتا۔ورنہ تواہلِ مذہب سے اختلاف کر کے جان کی امان ملنی مشکل ہو جاتی ہے۔ راولپنڈی میں مارے جانے والے سنی تھے۔ جیسا کہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے تما م مقتول شیعہ تھے۔مظلوم کے حق میں آواز اٹھنی چاہیے، وہ سنی ہو یا شیعہ۔ یہ بات تو طے ہے کہ تعلیم القرآن میں قتل کر نے والے اور اسے آگ لگانے والے طالبان نہیں تھے۔آخر اپنے ایسے ہم مسلکوں کو وہ کیوں ماریں گے جوان کے خاموش ہمدرد ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی اور تھے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی بھی نشان دہی ہو۔یہ حادثہ، شواہد یہی ہیں کہ انتظامیہ کی غیر معمولی غفلت کا شاخسانہ ہے۔تحقیق کے مر حلے میں اس کا اعادہ نہیں ہو نا چاہیے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابتدائی انکوائری کے لیے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس میں صوبائی وزیر قانون کے ساتھ آئی جی اور کمشنر راولپنڈی شامل ہیں۔اگر یہ حادثہ انتظامیہ کی غفلت سے ہوا تو انکوائری کسی دوسرے سے کرائی جانی چاہیے۔آخر یہ حضرات اپنے خلاف گواہی کیسے دیں گے؟عدالتی کمیشن کا قیام ایک اچھا قدم ہے لیکن کمیشن بڑی حد تک اس کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ پر انحصار کرے گا۔کیا اس سے انصاف تک رسائی مشکل نہیں ہو جائے گی؟وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی ساکھ کے بارے میں حساس ہیں۔میرا خیال ہے انہیں اس پہلوپر ضرور تو جہ دینی چاہیے۔ یہ صوبائی حکومت کی ساکھ کا سوال ہے۔اب اگر انصاف نہ ہوا تو فساد کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔فساد پھیلتا ہی تب ہے جب ریاست اور قانون اپنی ذمہ داری سے غافل ہو جاتے ہیں یا جانب دار بن جا تے ہیں۔ اگر ہم اس حادثہ کو محض ایک واقعہ سمجھیں تو اس کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے سے معاملہ ٹھنڈا ہو سکتا ہے۔تاہم یہ عارضی حل ہوگا۔میرے خیال میں یہ محض ایک واقعہ نہیں، سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔یہ سلسلہ اگر باقی ہے تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔مجھے افسوس ہے کہ ہر حکومت ایسی ہر کڑی کو محض ایک واقعہ سمجھتی ہے۔یوں اگرایک کڑی ٹوٹتی بھی ہے تو سلسلہ قائم رہتا ہے۔میں اس ضمن میں چند باتوں کی طرف متوجہ کر نا چاہتا ہوں۔ 1۔ اس وقت جو جھگڑا چل رہا ہے‘ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ برصغیر میں مذہب کے نام پر جو پر تشدد تحریکیں اٹھیں، سب صرف ایک مسلک کے وابستگان نے اٹھائیں۔یہ انگریزوں کے خلاف تحریکِ ہجرت ہو یا ریشمی رومال کی تحریک،دورِ جدید میں اہلِ تشیع کے خلاف تکفیر کی تحریک ہو یا تحریکِ طالبان پاکستان، سب کا ما خذ یہی ایک مسلک ہے۔گزشتہ تیس سال میں پاکستان میں جو شیعہ سنی تنازعہ رہا، وہ انہی دو گروہوں کے مابین رہا۔اس وقت امرِ واقعہ یہ ہے بریلوی مسلک فی الجملہ،اہلِ تشیع کے ساتھ ہے۔دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ تحریکِ طالبان کا ہدف ہیں ۔ 2۔ حال ہی میں بعض بریلوی حضرات نے بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے؛ تاہم یہ رجحان سرِ دست کراچی تک محدود ہے جسے ملک بھر میں پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔جب تشدد ہی بقا کا ضامن ٹھہرا تواب سب اہلِ مذہب نے تشدد ہی کو بطور ہتھیار اختیار کر لیا ہے۔آنے والے دنوں،میں اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ 3۔ ریاست ابھی تک یہ سمجھتی ہے کہ یہ مسئلہ مسلک پرست علماء حل کریں گے۔میں نہیں جان سکا کہ جن کی بقا ہی مسلکی شناخت سے وابستہ ہے، وہ کیسے اس مسئلے کو ختم کرتے ہوئے اپنے وجود کو خطرے میں ڈالیں گے۔غور کیجیے،آج وزیراعلیٰ اُن کو فون کر رہے ہیں، وزیر داخلہ امن کے لیے اُن سے درخواست کر رہے ہیں۔اگر یہ مسئلہ ختم ہو جائے تو کیا ان کی یہ اہمیت باقی رہے گی؟ 4۔ریاست کوپورے عالمِ اسلام کی طرح اور مسلمانوں کی تاریخ کی روشنی میں،مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم کر نا ہوگی۔مذہب کو نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔اگرمذہب کی تنظیم کوریاست نے اپنی ذمہ داریوں میں شامل نہ کیا تو فساد کایہ باب بند نہیں ہوگا۔ 5۔ میڈیا اور دوسرے رائے ساز افراد اور اداروں کوبھی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر نا ہوگا۔ محض ریٹنگ اور روپے کی لالچ میں مذہب کو اگر چرب زبان اور سطحی علم رکھنے والے واعظین اور ذاکرین کے حوالے کر دیا گیا تواصلاح نہیں ہو سکے گی۔بد قسمتی سے محرم میں اس لاپروائی کا سب سے زیادہ مظاہرہ ہو تا ہے۔ ہر حادثہ ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ مذہبی تشدد محض ایک واقعے تک محدود نہیں ہے۔یہ ایک سماجی رویہ بن چکا ہے اوراصلاح کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کا متقاضی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved